بلوچستان:عسکریت پسندی میں اضافہ....ترقی خواب ہی رہے گی!

ایک بار پھر قومیت و لسانیت کی بنیاد پر پنجاب سے مزدوری کی غرض سے بلوچستان میں گئے ہوئے آٹھ افراد کو گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا ہے۔ سندھ اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے دو مزدوروں کو رہا کردیا گیا، جبکہ ایک مزدور زخمی حالت میں بچ نکلنے میں کامیا ب رہا۔ مرنے والے آٹھوں افراد ”ساکران“ کے ایک پولٹری فارم میں مزدوری کرتے تھے اور دوماہ قبل مظفر گڑھ میں سیلاب آجانے کے باعث بے روزگار ہوکر بلوچستان میں روزگار کے لیے آئے تھے۔ بچ نکلنے والے مزدور کے مطابق ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب سات افراد نے گن پوائنٹ پر پولٹری فارم میں کام کرنے والے 11 افراد کو اغوا کیا اور کچھ دور پیدل چلنے کے بعد ان مغوی افراد کو مسلح افراد نے دوسرے مسلح گرہوں کے حوالے کر دیا، جنہوں نے مغویوںکی آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر انہیں گولیاں مار کر قتل کردیا۔ اطلاعات کے مطابق ان تمام افراد کو شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد قتل کیا گیا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ملزمان کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت کی ہے اور وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے ”حب“ میں پنچاب سے تعلق رکھنے والے 8 مزدوروں کے قتل کے واقعہ کی بھرپور الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے واقعہ کی تحقیقات کا حکم دیاہے اور ضلعی انتظامیہ کو قاتلوں کو فوری طورپر گرفتار کرنے کی ہدایت جاری کی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے صوبائی عہدیدار نے اس واقعے کو صوبے میں امن و امان کے حالات خراب کرنے کی سازش قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ امن و امان کی خراب صورتحال کی وجہ سے صوبے میں ملک کے دیگر علاقوں سے آکر بسنے والوں کی ایک بڑی تعداد بلوچستان سے نقل مکانی کر چکی ہے۔ محتاظ اندازوں کے مطابق گزشتہ دس سالوں میں بلوچستان میں دیگر علاقوں سے آکر آباد ہونے والے ایک لاکھافراد بلوچستان چھوڑ چکے ہیں۔ ملک کے متعدد رہنماﺅں اور عوامی حلقوں نے بھی بلوچستان میں دہشتگردوں کی جانب سے اس سفاکانہ اقدام کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے اور مزدوروں کے قتل کو ملک اور بلوچستان کے خلاف سازش قرار دیا ہے۔ مبصرین کے مطابق بلوچستان میں اس قسم کے حملے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں اور ایک عرصے سے ہورہے ہیں، لیکن پنجاب سے نقل مکانی کر کے بلوچستان میں مزدوری کرنے والے محنت کشوں کا قتل، نہ صرف جاری لڑائی کی مکروہ ترین شکل ہے، بلکہ اس سے بلوچ مو ¿قف کو بہت شدید نقصان پہنچا ہے۔ بلوچستان کے علاقوں میں، جہاں پہلے بھی نہایت سرگرمی سے پنجابی آبادکاروں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، وہیں اب لگتا ہے کہ پنجاب سے وقتی طور پر نقل مکانی کر کے چار پیسے زیادہ کمانے کی آس میں بلوچستان کا رخ کرنے والے ان غریب محنت کشوں پر توجہ مرکوز کی جا چکی، جو بمشکل ہی روایتی مزدوری حاصل کر پاتے ہیں۔ دہشت گرد پورے بلوچستان کو نقصان پہنچارہے ہیں، ان کے اس قسم کے ظالمانہ اقدامات سے ایک طرف پورے ملک میں اپنے بلوچ بھائیوں کے حوالے سے محبت کے جذبات میں تغیر آسکتا ہے، جبکہ دوسری جانب بلوچستان میں ترقی کا سفر رک سکتا ہے، کیونکہ اب لوگ بلوچستان میں جاتے ہوئے ڈرتے ہیں، ان کو اپنی زندگی کا خطرہ ہوتا ہے، کئی بار بلوچستان میں مزدوروی کے لیے اور دوسری اغراض سے جانے والوں کی قتل کیا گیا ہے، ان حالات میںجب وہاں جانے والے لوگوں کو قتل کردیا جاتا ہے تو لوگ کیونکر وہاں جائیں گے، یہی وجہ ہے کہ اب بلوچستان میں بہت سے شعبوں میں کام کرنے کے لیے مناسب اور ماہرین افراد نہیں ملتے، آئے روز اخبارات میں بلوچستان میں مختلف شعبوں میں کام کرنے کے لیے افراد کی ضرورت کے اشتہارات آتے ہیں، لیکن موت کا خوف لوگوں کو بلوچستان میں جانے سے روکتا ہے، جس کا نتیجہ بلوچستان کی پسماندگی کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ ایک طرف تو بلوچستان کے قومیت پسند لوگ بلوچستان کی پسماندگی کا واویلا کرتے ہیں، جبکہ دوسری جانب ملک کے دوسرے علاقوں سے جانے والوں کو قتل کیا جارہا ہے،یہ کسی طور بھی مناسب نہیں ہے۔

بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اس کا رقبہ 347190 مربع کلو میٹر ہے، جو پاکستان کے کل رقبے کا43.6فیصد حصہ بنتا ہے، جبکہ اس کی آبادی 1998 کی مردم شماری کے مطابق 65لاکھ65ہزار885نفوس پر مشتمل تھی۔ اس وقت صوبے کی آبادی ایک محتاط اندازے کے مطابق90لاکھ سے ایک کروڑ کے درمیان ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال بلوچستان محل وقوع میں اہم ترین صوبہ ہے،جہاں معدنیات اور قدرتی گیس کے بہت زیادہ ذخائر پائے جاتے ہیں۔ اس کے شمال میں افغانستان، صوبہ خیبر پختون خواہ، جنوب میں بحیرہ عرب، مشرق میں سندھ و پنجاب اور مغرب میں ایران واقع ہے۔ اس کا 832کلو میٹر سرحد ایران اور 1120کلو میٹر طویل سرحد افغانستان کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ 760کلو میٹر طویل ساحلی پٹی بھی بلوچستان میں ہے۔ اس صوبے میں بلوچ قوم پسند مقامی قدرتی وسائل سے ہونے والی آمدنی میں اپنے لیے زیادہ بڑے حصے کا مطالبہ کرتے ہیں اور قوم پسند بلوچوں کی چند عسکریت پسند تنظیموں نے وہاں صوبے کی مکمل خود مختاری کی خونریز مہم بھی شروع کر رکھی ہے۔ یہ مسلح بلوچ عسکریت پسند صوبے میں اپنی خونریز کارروائیوں کے دوران اکثر ایسے افراد کو نشانہ بناتے ہیں، جو بلوچ نہیں ہوتے اور پاکستان کے دیگر علاقوں سے وہاں جا کر کام کاج کرتے ہیں، خصوصاً پنجاب سے جانے والوں کو وقتاً فوقتاً قتل کیا جاتا ہے، کئی بار بلوچستان میں پنجاب سے مزدوری کی غرض سے جانے والوں کو قتل کیا گیا ہے۔ ایسے حملوں کا مقصد بظاہر یہ ہوتا ہے کہ غیر بلوچی کارکنوں کو بلوچستان جا کر وہاں کام کرنے سے روکا جائے۔ بلوچستان میں ایسی کئی مسلح قوم پسند تنظیموں کو حکومت کی طرف سے پابندی بھی لگائی جاچکی ہے۔ مبصرین کے مطابق یہ بالکل بجا ہے کہ صوبے کی بدحالی اورامن و امان کی صورتحال اربابِ اختیار کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے۔آخر اس صورتحال کا ذمہ دار کون ہے؟ بلوچ قومیت پسند رہنما صوبے میں بڑھتے ہوئے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کی روک تھام میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں؟بہت سے بلوچ قومیت پرست رہنما نوجوانوں کو ملک اور حکومت کے خلاف ابھارتے نظر آتے ہیں اوریہ رہنما وسائل کی کمی اور صوبے میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا ذمہ دار پنجابیوں ہی کو ٹھہراتے ہیں۔ اس بات کابھی چرچہ کرتے نظر آتے ہیں کہ حکومتِ پاکستان کی توجہ کا مرکز صرف اور صرف صوبہ پنجاب ہے۔ ان کے مطابق پنجابی دوسرے صوبوں کی عوام کا حق مارتے ہیں اور بلوچ عوام کے اصل دشمن ہیں، حالانکہ بلوچی اور پنجابی سب پاکستانی ہیں اور آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ پنجابیوں کے خلاف پراپیگنڈا کا مقصد صوبہ بلوچستان اورصوبہ پنجاب کی عوام کو آپس میں لڑوانا ہے۔ اس نفرت کا نتیجہ یہ ہو گا کہ صوبہ پنجاب میں بسنے والے بلوچیوں کے لیے پنجابی اکثریت کے دل سے محبت اور بھائی چارے کا خاتمہ ہو جائے گا۔

مبصرین کے مطابق بلوچ عوام پاکستان سے علیحدگی کے خواہاں نہیں ہیں،لیکن صوبے میں دشمن ممالک کی خفیہ ایجنسوں کی مداخلت کو کسی طور بھی نظرانداز نہیں کیاجاسکتااور یہ ایجنسیاں پیسوں کا لالچ دے کر قومیت پرست تحریکوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں اور لسانی اور علاقائی تعصبات کو ہوا دے کر کے صوبے میں امن و امان کی صورتِ حال کشیدہ کر رہی ہیں، اس کے علاوہ مسنگ پرسنز کی وجہ سے بھی بلوچی بھائیوں میں نفرت کے جذبات ابھرتے ہیں، لیکن اس کی سزا پنجابی بھائیوں کو دینا کسی طور بھی درست نہیں ہے۔لہٰذا ان حالات میں غیور بلوچوں پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے علاقے میں ملک دشمن عناصرکو اپنے عزائم میں کامیاب نہ ہو نے دیں ،تا کہ ان کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے اور حکومتِ وقت کو چاہیے کہ بلوچستان کے تما م مسائل کو حل کرکے بلوچ قوم کو قومی دھارے میں واپس لائے۔ بلوچوں کو روزگار مہیا کیا جائے۔ بلوچستان میں محب وطن قوتیں علیحدگی پسندوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔ ان کو اعتماد میں لے کر ناراض لوگوں کے ساتھ بھی طاقت کی بجائے مذاکرات سے مسائل کا حل نکالا جائے اور ان حالات میں وزیراعلیٰ بلوچستان کی سب سے ذمہ داری بنتی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ آزادی کے نام پر بے گناہ پنجابیوں کو قتل کرنے والے لوگ دراصل پاکستان دشمن طاقتوں کے ایجنٹ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ بھارت بلوچستان میں اپنے مقاصد کے لیے اسلحہ فراہم کر رہا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچستان میں مختلف نسلی، لسانی، مذہبی و علاقائی گروہوں کو یکساں حقوق دے کر انہیں قومی ذمہ داریوں میں شرکت کا موقع فراہم کیا جائے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 700938 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.