مخدوم جاوید ہاشمی پاکستانی
سیاست کا وہ چمکتا ستارہ تھا جو ہر دور میں چمکا کرتا تھا پاکستان کی سیاست
میں ایک نڈر بے باک سیاستدان کے طور پر جانے اور باغی کے نام سے پہچانے
جانے والے مخدوم جاوید ہاشمی کے بارے میں کہا جاتاہے کہ وہ پیدا ہی لیگی
ہوئے تھے مگر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ اس مسلم لیگ سے بغاوت کر کے باغی
کے لقب سے جانے اور پہچانے جانے لگے ۔بعد ازاں جب انھوں نے تحریک انصاف سے
بھی بغاوت کی اور ان کی اندر کی کہانیوں کو میڈیا میں عام کیا جو کہ بقول
ان کے سچ تھیں مگر تحریک انصاف والوں نے ان کہانیوں سے صاف انکار کر دیا اس
دغابازی پر تحریک انصاف والوں نے انھیں باغی سے داغی کا لقب دے ڈالا اور ان
کے خلاف ملتان اور کراچی کے جلسوں میں باغی نہیں داغی کے نعرے لگائے گئے جس
پر اپنے بیان میں ان کا کہنا تھا کہ داغی کون اور باغی کون فیصلہ عوام نے
کرنا ہے جاوید ہاشمی کے ہار جانے پر سوائے افسوس کے اور کیا، کیا جا سکتا
ہے کیونکہ یہ فیصلہ عوام کا ہے مخدوم جاوید ہاشمی اپنی سیاسی کیرئیر میں
کھبی بھی اسمبلی سے باہر نہیں رہے مگر شاید یہ ان کی پہلی بار ہے کہ وہ
شکست کھا کر اعلیٰ ایوان سے باہر ہو گئے ہیں اپنی پہلی جماعت مسلم لیگ کو
چھوڑ کر جس طرح وہ تحریک انصاف میں آئے تھے اور پہلی ہی انٹری میں چار
حلقوں سے کامیابی حاصل کر کے جو ریکارڈ بنایا تھا وہ شاید کھبی نہ ٹوٹے مگر
جب ان کی جماعت نے موجودہ حکومت کے خلاف دھرنے اور اختجاج شروع کیے تو ان
کا باغی پن کھل کر سامنے آیا اور انھوں نے وقت اور حالات کی نزاکت کا غلط
اندازہ لگاتے ہوئے اپنے دوست نما دشمنوں کے کہنے پر آزاد الیکشن لڑنے کو
ترجیح دی کئی لوگ ان کی جیت کے شادیانے پہلے ہی سے بجانے لگے تھے مگر ایسا
نہ ہو سکا کیونکہ اب آنے والا دور نوجوانوں کا ہے اور نوجوان ہی اب آنے
والے دنوں میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والے ہیں سو انھوں نے جاوید ہاشمی
کی بغاوت کو بغاوت نہیں بلکہ دغاوت ثابت کر دیا اور انھیں پاکستان کی سیاست
سے آوٹ کر دیا ان کا اور عامر ڈوگر کا مقابلہ بھی خوب رہا دونوں امیدوار
آزاد تھے مگر در پردہ دونوں کے پیچھے پاکستان کی بڑی سیاسی قوتیں اپنا ایڑی
چوٹی کا زور لگا رہی تھیں صوبہ پنجاب کے شہر ملتان میں قومی اسمبلی کے حلقہ
149 میں ضمنی انتخاب میں پاکستان تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار
عامر ڈوگر نے جاوید ہاشمی کو کھلی شکست دی یہ نشست جاوید ہاشمی کے استعفے
کے بعد خالی ہوئی تھی اس حلقے میں کل 17 امیدواروں نے ہونے والے انتخاب میں
حصہ لیا اورعامر ڈوگر 58142 ووٹ لے کر سب سے پہلے نمبر پر رہے ان کے مقابلے
میں جاوید ہاشمی نے 47222 ووٹ لیے پیپلز پارٹی نے بھی اس حلقے سے ڈاکٹر
جاوید صدیقی کو ٹکٹ دیا تھا لیکن وہ قابلِ ذکر ووٹ حاصل نہ کر سکے اس حلقے
میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد تین لاکھ 41 ہزار سے زائد تھی اور پولنگ صبح نو
بجے سے شام پانچ بجے تک جاری رہی اس حلقے کے 286 میں سے 109 پولنگ سٹیشنوں
کو حساس قرار دیا گیا تھاسکیورٹی کے لیے ملتان پولیس اور ایلیٹ فورس کے چار
ہزار سے زائد اہلکار تعینات کیے گئے تھے جبکہ پولنگ سٹیشنوں کی سکیورٹی کی
ذمہ داری رینجرز کے حوالے تھی دفعہ 144 کے تحت حلقے میں عوامی اجتماعات پر
پابندی عائد کی گئی تھی جبکہ ضلع بھر میں عام تعطیل کا اعلان کیا گیا تھا
جاوید ہاشمی کی سیاست اب شاید ہمیشہ کے لئے ختم ہو چکی کیونکہ اب وہ عمر کے
اس حصے میں ہیں جہاں اکثر سیاستدان ریٹائیرڈ ہو رہے ہوتے ہیں اور دوسر اان
کی طبیعت بھی ان کا ساتھ نہیں دے رہی اوپر سے حلیفوں کی بے وفائی اور اپنوں
کی بے پرواہی نے انھیں سیاست کے کھیل میں اس کنارے پر لگا دیا ہے جہاں
ریٹائیرڈ ہارٹ کا بورڈ آویزاں ہو تا ہے۔ ان کی ہار میں تحریک انصاف کا بلا
شبہ ایک بہت ہی بڑا اور اہم رول ہے کیونکہ تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران
خان نے الیکشن سے چند دن قبل ملتان میں بہت بڑا حکومت مخالف جلسہ بھی کیا
تھا جس میں عامر ڈوگر بھی شریک ہوئے تھے جاوید ہاشمی نے تحریک انصاف کی
کشتی سے چھلانگ لگا کر سیاسی خودکشی تو کر ہی لی تھی ساتھ میں ان باتوں جو
کہ کسی بھی پارٹی کا ندرونی معاملہ ہو تا ہے ان باتوں کو میڈیا میں بلاوجہ
اچھال کر اپنے لئے ایسے دشمن پیدا کر لیے تھے جو کسی بھی طور پر ان کے لئے
کم خطرناک نہیں تھے کیونکہ اکثر ایسا ہوتا آیا ہے کہ کوئی رکن جب بھی اپنی
جماعت کو چھوڑتا ہے تو وہ ایسی ایسی باتیں میڈیا اور عوام کو بتاتا ہے جو
کہ پارٹی کے اندرونی معاملات میں آتی ہیں ایسے میں سیاسی پختگی کا تقاضا
ہوتا ہے کہ ایسی باتوں کو عوام میں اور میڈیا میں نا اچھالا جائے ان باتوں
کا وقتی طور پر فائدہ تو ہو سکتا ہے مگر مستقبل میں انتہائی خطرناک نتائج
کا سامنا ہوتا ہے جیسا کہ اب باغی کے ساتھ ہو گیا وہ سمجھ رہے تھے کہ شاید
یہ باتیں عوام اور میڈیا کو بتانے سے ان کو سیاسی حمایت اورووٹ مل جائیں
مگر اس حلقے کے عوام نے ان کی باتوں کو سنجیدگی سے نہ لیتے ہوئے ان کے خلاف
فیصلہ دے دیا جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ عوام میں اب سیاسی شعور بیدار
ہو چکا ہے اب باتوں سے نہیں بلکہ کارکردگی اور عملی طور پر کام کرنے سے ہی
ووٹ مل سکتے ہیں ۔ |