بلدیاتی انتخابات: کیا عدالتی احکامات پر عمل ہوپائے گا؟

سابق صدر مشرف کے دورحکومت میں نافذ کیا جانے والا بلدیاتی نظام 2009 میں اپنی مدت پوری کرنے کے بعد ختم ہو گیا تھا اور پھر اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے بعد بلدیاتی انتخابات کا انعقاد صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری قرار دیا گیا تھا، لیکن نہ تو گزشتہ حکومت کے پانچ سال کے دوران ملک میں بلدیاتی انتخابات منعقد کروائے جاسکے اور نہ ہی موجودہ حکومت کے ڈیڑھ سال میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کیا گیا۔ سپریم کورٹ کی جانب سے حکومت پر بلدیاتی انتخابات کروانے کے حوالے سے مسلسل دباﺅ بھی ڈالا جاتا رہا ہے، لیکن تمام صوبائی حکومتیں بلدیاتی انتخابات کروانے میں ناکام رہی ہیں۔ ایک بار پھر سپریم کو رٹ نے خیبر پختونخواہ میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لیے تمام تر اقدامات کی روشنی میں ایک ماہ میں الیکشن کمیشن سے بلدیاتی انتخابات کے لیے حتمی رپو رٹ مانگ لی ہے، عدالت نے وفاقی حکومت سے مستقل چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی جبکہ سندھ اور پنجاب حکومت سے بلدیاتی انتخابات بارے قانون سازی کی رپورٹ 30 اکتوبر کو طلب کی ہے۔ حدبندیوں کے بارے میں الیکشن کمیشن کی نظرثانی کی درخواست کی سماعت بھی 30 اکتوبر کو ہوگی، جبکہ الیکشن کمیشن نے عدالت میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے واضح کیا کہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد بارے ضروری اقدامات کرنے اور دیگر متعلقہ اداروں کی ضروریات کی تکمیل کے لیے کم از کم چار سے پانچ ماہ کا عرصہ درکار ہے۔ الیکشن کمیشن جلد ہی قانون کی روشنی میں بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری کردے گا، جبکہ چیف جسٹس ناصرالملک نے ریمارکس دیے ہیں کہ الیکشن کمیشن صوبوں سے مشاورت کرکے بتادے کہ وہ کب تک بلدیاتی انتخابات کرانے کی پوزیشن میں ہوگا ،اس سے زیادہ وقت نہیں دے سکتے، جبکہ جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کے جلداز جلد اقدامات اور بلدیاتی انتخابات کرانے کا شیڈول کہیں ایک سال کا عرصہ تو نہیں ہے۔ پہلے بھی کافی وقت لگ چکا ہے، اب بلدیاتی انتخابات ہوجانے چاہئیں۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے ایک عرصے سے تمام صوبائی حکومتوں پر دباﺅں ہے، لیکن تمام حکومتیں مسلسل سستی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ گزشتہ سال 17 جولائی کو سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ اگر حکومتیں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی تاریخ دینے میں ناکام رہیں توسپریم کورٹ ان انتخابات کے انعقاد کی تاریخ دے گی۔ سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد پنجاب اور سندھ گورنمنٹ نے عدالت سے بلدیاتی انتخابات کروانے کے لیے نوے دن کی مہلت مانگی تھی، جبکہ صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت کا کہنا تھا کہ وہ کسی بھی وقت بلدیاتی انتخابات کروانے کے لیے تیار ہے۔جبکہ 18جولائی 2013کو سپریم کورٹ نے وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ اور چاروں صوبائی حکومتوں سے کہاتھا کہ وہ ستمبر تک ان انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنائیں۔ بلدیاتی انتخابات کو ایک روز کے لیے بھی ملتوی کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ پنجاب اور سندھ میں ان جماعتوں کی حکومت ہے، جوگزشتہ پانچ سالوں سے اقتدار میں ہیں۔ صوبہ پنجاب اور بلوچستان کی حکومتوں کا کہنا تھا کہ وہ 7 دسمبر کو صوبے میں بلدیاتی انتخابات کروانے کو تیار ہیں، جبکہ صوبہ سندھ کی حکومت نے سپریم کورٹ کو 27 نومبر کو صوبے میں بلدیاتی انتخابات کروانے کی یقین دہانی کروائی تھی اور خیبر پختونخوا کی حکومت نے سپریم کورٹ کو بلدیاتی انتخابات سے متعلق کوئی متعین تاریخ نہیں دی تھی، جبکہ سپریم کورٹ بلدیاتی انتخابات گزشتہ سال ستمبر میں ہی کروانے پر مصر تھی۔ اس کے بعد 6 نومبر کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بلدیاتی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کر تے ہوئے کہا تھا کہ سندھ میں27 نومبر اور پنجاب میں7 دسمبر کو پولنگ ہو گی، بلوچستان میں پہلے ہی 7 دسمبر کو بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا جا چکا ہے، لیکن ایک بار پھر حکومتوں اور الیکشن کمیشن کے اصرار پر 19 نومبر کو عدالت نے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے دی گئی تاریخوں کو تبدیل کیا تھا اور قائم مقام الیکشن کمشنر جسٹس تصدق حسین جیلانی کا کہنا تھا کہ بلدیاتی انتخابات صوبہ سندھ میں 18 جنوری، پنجاب میں 30 جنوری اور خیبر پختونخوا، کنٹونمنٹ بورڈ اور اسلام آباد میں فروری میں ہوں گے، لیکن تمام صوبائی حکومتیں باربار تبدیل کی گئی تاریخوں پر بھی بلدیاتی انتخابات نہ کرواسکیں اور ایک بار پھر درخواست دے کر پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا اور وفاق میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد سال رواں 15 نومبر تک کو کروانے کی مہلت لی تھی، لیکن اب سپریم کورٹ نے ایک بار پھر عدالت نے وفاقی حکومت سے مستقل چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی جبکہ سندھ اور پنجاب حکومت سے بلدیاتی انتخابات بارے قانون سازی کی رپورٹ 30 اکتوبر کو طلب کی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ متعدد بار سپریم کورٹ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا حکم دے چکی ہے، لیکن اس کے باوجود تمام صوبائی حکومتیں ملک میں بلدیاتی انتخابات منعقد کرانے پر ٹال مٹول سے کام لے رہی ہیں۔ اب ایک بار پھر سپریم کورٹ نے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے رپورٹ طلب کی ہے ، لیکن اس کا انعقاد کب ہوتا ہے اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا، کیونکہ صوبائی حکومتیں مسلسل سستی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔

مبصرین کے مطابق کسی بھی ریاست میں قائم شدہ حکومت کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہوتی ہے کہ مسائل کو حل کرنے کے لیے عوام کو زیادہ سے زیادہ حکومتی امور میں شریک کیا جائے، جو کہ صرف مقامی حکومت کے قیام کے بعد ہی ممکن ہے، کیونکہ مقامی لوگ ہی مقامی وسائل کو استعمال میں لاکر مقامی مسائل کو حل کرنے کی بہتر صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں۔ مقامی حکومتوں کے اداروں کے ذریعے جمہوری قدروں کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ یہ ادارے نہ صرف عوام میں اپنے مسائل خود حل کرنے کے لیے راہیں تلاش کرنے کا شعور پیدا کرتے ہیں ،بلکہ عوام مقامی طو پر نظم و نسق کا تجربہ حاصل کرتے ہیں اور پھر یہ تجربہ قومی سطح پر بہت مفید ثابت ہوتا ہے۔ فی الحقیقت یہ وہ سطح ہے جہاں قوم کے مستقبل کے رہنماو ¿ں کو نظم و نسق کی مسلسل تربیت دی جاتی ہے، جس کی بنا پر ملک میں قومی لیڈر شپ کا خلا پیدا نہیں ہوتا۔ مقامی حکومتوں میں شمولیت سے لوگوں کو نہ صرف اپنے علاقے کی انتظامیہ کو سمجھنے اور چلانے کا شعور ملتا ہے، بلکہ لوگوں کو اعلیٰ سطح کی صوبائی اور مرکزی انتظامیہ اور دیگر سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کی انتظامیہ کے معاملات کو سمجھنے کا موقع بھی ملتا ہے، لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس نظام کی اتنی افادیت کے باوجود ملک کے مفاد پرست حکمرانوں کی عوام دشمن پالیسیوں کی وجہ سے اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی محض ایک خواب بنتا جا رہا ہے اور مقامی حکومتوں کا تصور ختم ہو کر رہ گیا ہے، ایک طرف دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مقامی سطح پر عوام کے منتخب نمائندوں کی حکومت ہوگی تو دوسری طرف بہت سارے اختیارات عوامی نمائندوں کے انتخاب کے بعد انہیں سونپنے کی بجائے بیوروکریسی کو سونپ دیے گئے۔ یہ درست ہے کہ اس نظام کو چلانے کے لیے بعض تبدیلیوں کی ضرورت ہے، لیکن اگر حکمران حقیقی معنوں میں اس نظام کو چلانے کے لیے سنجیدہ ہوں تو یقیناً اس میں خاطر خواہ تبدیلیاں لا کر مقامی حکومتوں کے نظام کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔ جب حکومت نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی کو یقینی بنادے گی تو یقیناً مقامی حکومتوں کے نمائندے ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے صحت و صفائی ،خراب عمارات کے امور ،قبرستانوں کی دیکھ بھال، پانی کی بہم رسانی، سیوریج سسٹم کی بحالی، تعلیمی ادارے قائم کرنے کے بعد لوگوں کی اعلی تعلیم تک رسائی دلوانا، شہری منصوبہ بندی، ترقیاتی اسکیموں کی تیاری، عمارات کے متعلق قوانین، عام سڑکوں کی تعمیر ،تجاوزات کی روک تھام ،گلی کوچوں میں روشنی کے مناسب انتظام ،عام گلیوں میں پانی کے چھڑکاؤ کا انتظام ، آمدو رفت کا کنٹرول ،پبلک گاڑیوں سے متعلق فرائض کی انجام دہی،صحت عامہ کو فروغ دینا ،مراکز صحت و زچگی اور عورتوں اور شیر خوار بچوں کی بہبودی کے مراکزقائم کرنا،ہسپتال اور شفا خانوں کا قیام ،طبی امداد اور سہولتوں اور طبی تعلیم عام کرنے کے اقدامات کرنا،لوگوں کو تفریح و آسائش کے لیے باغات لگانا ،لائبریریوں کا قیام،اپنی حدود میں رہنے والے شہریوں کی معاشرتی بہبود کے کام کرنا اور مناسب جگہوں پر شجر کاری کے ساتھ ساتھ بہت سارے ایسے امور ہیں، جن کی نگرانی کے ذریعے مقامی حکومتوں کے عوامی نمائندے عوام تک با آسانی ثمرات پہنچا سکتے ہیں،لیکن افسوس کے ہمارے ملک کے حکمران عوام تک بنیادی سہولتوں کی فراہمی کو اپنے اختیارات میں کمی کا باعث سمجھتے ہیں۔اس لیے وہ بلدیاتی انتخابات کی راہ میں رکاوٹ بن کر مسلسل بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں پس و پیش سے کام لے رہے ہیں۔لہٰذا اگر حکومتیں عوام کے مسائل حل کرنا چاہتی ہیں تو انہیں سپریم کورٹ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کرنا ہوگا۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701489 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.