اس وقت ملکی حالات بہت ابتری کا
شکار ہیں کرپشن ، مہنگائی، بیروزگاری اور امن و امان مسائل عروج پر ہیں
موجودہ حکومت مکمل طور پر فیل ہو چکی ہے جب موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا
تھا تو عوام سے بہت سارے وعدے اوربلندوبانگ دعوے کئے تھے لیکن وہ اپنے
وعدوں اور دعوں پر پورا نہیں اترسکے اس وقت انتظامی معاملات تیزی کیساتھ
ابتری کی طرف جا رہے ہیں ایک طرف دہشتگردی کی تیز لہر ہے جس نے پورے ملک کو
اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اور دوسری طرف بیوروکریسی و سیاسی حواریوں کی لوٹ
کھسوٹ تیزی کے ساتھ جاری ہے عوام کا حکومت وقت پر کوئی اعتبار نہ رہا ہے
وزیر اعلیٰ پنجاب نے کھلی کچہریوں کا نظام متعارف کروایا لیکن بیورو کریسی
نے داخلی معاملات کا بہانہ بنا کر بہت سارے محکموں میں کھلی کچہری لگانا
چھوڑ دی ہے لیکن وزیر اعلیٰ کے شکایات سیلز برائے نام کام کر رہے ہیں لیکن
وہ بھی اقرباء پروری کی ایک بڑی مثال بن گئے ہیں یہ شکایات سیلز متعدد
جگہوں پر موجود ہیں ان میں بیوروکریسی کے ساتھ وزیر اعلیٰ کے لاتعداد
کوآرڈینیٹرز ، سپیشل اسسٹنٹس، پولیٹیکل سیکر ٹریز بھی بیٹھتے ہیں اور عوام
کے مسائل حل کرنے کی بجائے ان کو ٹالنے میں پیش پیش رہتے ہیں ایک شکایت سیل
شریف برادران کی رہائشگاہ180/H ماڈل ٹاؤن میں موجود ہے جس کی حالت یہ ہے کہ
وہاں پر ڈپٹی سیکرٹری رینک کے آفیسر بشیر گوندل صاحب بھی تعینات ہیں اور
وزیر اعلیٰ پنجاب کے پولیٹیکل سیکرٹری و کوآرڈینیٹر میاں طارق صاحب اور لا
تعداد کو آرڈینیٹرز بھی تعینات ہیں میاں طارق صاحب کی کوئی تعلیمی قابلیت
نہ ہے اور وہ انگریزی سے نا بلد ہیں اس کے علاوہ وہاں بیٹھے ہوئے بیشمار
کوآرڈینیٹر ز کی تعلیمی قابلیت نہ ہونے کے برابر ہے وہ سائلین کو ہر طریقے
سے ٹالنے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں کبھی ان کو درخواست کمپیوٹر پر ٹائپ
کروا کر لانے کو کہتے ہیں کبھی کوئی بہانہ بناتے ہیں لیکن جو بیک ڈور سے ان
کے پاس آتا ہے اس کا کام ٹیلی فون پر ہی ہو جاتا ہے یہی حال بشیر گوندل
صاحب کا ہے کہ وہ روائتی بیوروکریسی کا رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں اگر کوئی
سائل کرپشن سے متعلقہ درخواست لے کر آتا ہے تو اس کی درخواست اینٹی کرپشن
میں بھجوانے کی بجائے جس محکمے سے متعلقہ شکایت ہوتی ہے اسی متعلقہ محکمے
کے کرپٹ آفیسر کو بھجوادی جاتی ہے اگر کوئی سائل اینٹی کرپشن میں درخواست
بھجوانے پر اصرار کرے تو اس کو یہ کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے کہ یہ ان کے
اختیار میں نہیں ہے بشیر گوندل کے ساتھ متعین ٹیلی فون آپریٹر راشد صدیقی
صاحب خود کو ہی وزیر اعلیٰ سمجھتے ہیں اور سائلین کو ہر ممکن ٹالنے کی بھر
پور کوشش کرتے ہیں اسی طرح میاں طارق ، بٹ صاحب ، کوآرڈینیٹرز وغیرہ عوام
کی داد رسی کی بجائے عوام کو صرف ٹال مٹول ہی کرتے ہیں تین کلب روڈ پر واقع
شکایت سیل میں شیخ آفتاب صاحب (میاں نوازشریف کے پرسنل سیکر ٹری اور وزیر
اعلیٰ پنجاب کے کو آرڈینیٹر) عوام کی شکایات سنتے ہیں ان کی عمر لگ بھگ
اکیاسی سال ہے لیکن ان کو بھی وزیر اعلیٰ پنجاب کا کوآررڈینیٹر بنایا ہو ا
ہے جبکہ پاکستان میں سرکاری طور پر ریٹائرمنٹ کے لئے عمرکی حد ساٹھ سال
مقرر ہے وہ اپنی ضعیف العمری کے باعث صحیح طرح سے کام نہیں کر پاتے ہیں اور
پولیس کے متعلق شکایات کو ہمیشہ متعلقہ ایس پی کے پاس ہی بھجواتے ہیں بجائے
اس کے کہ پولیس سے متعلقہ شکایات کے لئے پولیس کے شعبہ جات ویجیلنس اینڈ
انسپکشن اور ڈسپلن موجود ہیں اصولاً پولیس ملازم کے خلاف درخواست کی
انکوائری یہ دو شعبہ جات ہی کرتے ہیں لیکن وزیر اعلیٰ صاحب کی کھلی کچہریوں
میں تعینات افسران ان شعبہ جات میں درخواست عموماً نہیں بھجواتے ہیں کیا وہ
کرپٹ ملازمین کا تحفظ کرتے ہیں یاان کو علم ہی نہیں ہے ؟ یہ لمحہ فکریہ ہے
کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے ایسے لوگ شکایات سیلز میں مقرر کئے ہیں جو نہ صحیح
تعلیم یافتہ ہیں اور نہ وہ درست مارکنگ کرتے ہیں کیا ان کو قوانین کا علم
نہیں ہے ؟ تو ایسے نااہل لوگ عوام کے مسائل کیسے حل کر سکتے ہیں ؟ عوام
بیچاری تو ان شکایات سیلز میں آنے کے بعد پچھتاتی ہے کہ جب داد رسی ہی نہیں
ہونی تو ہم یہاں کیوں آئے ہیں ان کی امید نا امیدی میں بدل جاتی ہے ان کھلی
کچہریوں کے احکامات کو ڈی سی او تو کیا ایک ایس ایچ او بھی نہیں مانتا ہے
کیوں کہ ان کو علم ہے کہ سائل کی کھلی کچہریوں میں دوبارہ داد رسی نہ ہو گی
اور ان کو ٹال دیا جائے گا اس لئے وہ سائلین کو ٹال کر چلتا کر دیتے ہیں
کیا وزیر اعلیٰ پنجاب کی کھلی کچہریوں میں بیٹھے ہوئے لوگ بیوروکریسی کے
ساتھ ملی بھگت میں شریک تو نہیں ہیں ؟ یہ لوگ سرکاری مراعات اور وسائل کا
بیدریغ استعمال کر رہے ہیں اور ان کی کار کردگی صفر ہے ابھی حال ہی میں
وزیر اعلیٰ پنجاب نے ٹاسک فورس برائے سستی روٹی سکیم میں مجید مغل صاحب کو
بطور وائس چیئر مین مقرر کیا ہے مجید مغل صاحب کی عمر ستر سال سے زائد ہے
اور وہ لکھنا پڑھنا بھی نہیں جانتے ہیں لیکن ان کو اس اہم شعبے کا وائس
چیئر مین مقرر کیا گیا ہے جہاں پر تعلیمی قابلیت کی بہت ضرورت ہے اور اس
سکیم کا بجٹ پنجاب بھر کے لئے آٹھ ارب روپے مختص ہے وزیر اعلیٰ پنجاب کی یہ
پالیسیاں سمجھ سے بالا تر ہیں یہ دہرے معیار کی نشاندہی کرتی ہیں ایک طرف
تو ان کا دعوی قانون کی حکمرانی و میرٹ کا ہے اور اپنے آپ کو خادم اعلیٰ
پنجاب بھی کہلاتے ہیں اور دوسری طرف میرٹ سے ہٹ کر یہ پالیسیاں ہیں عوام اب
یہ سمجھتی ہے کہ وہ خادم اعلیٰ کی بجائے حاکم اعلیٰ زیادہ لگ رہے ہیں کیا
یہ ڈکٹیٹر شپ نہیں ہے؟ اس وقت اڑتالیس سے زائد ٹاسک فورسز ہیں اور ہر ٹاسک
فورس کے چیئر مین کی تنخواہ ایک چالیس ہزار روپے ماہوار ہے اس کے علاوہ
دفتر ،گاڑی ، پیٹرول و دیگر مراعات ہیں اب ایک اَن پڑھ عمر رسیدہ آدمی کا
بطور وائس چیئر مین ٹاسک فورس مقرر کرنا عوامی سرمائے کا ضیاع اور میرٹ کی
دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے میرا وزیر اعلیٰ پنجاب سے سوال ہے کیا وہ بتانا
پسند کریں گے کہ ان ٹاسک فورسز کی کار کردگی کیا ہے نیز وائس چیئر مین کے
لئے اَن پڑھ عمر رسیدہ شخص کو کیوں مقرر کیا گیاہے؟ میری وزیر اعلیٰ پنجاب
سے التجاء ہے کہ وہ قوم کی حالت پر رحم کھائیں اقرباء و سیاسی حواری پروری
چھوڑیں اور اپنے شکایت سیلز کا قبلہ درست کریں اور دیکھیں کہ ان کے ماڈل
ٹاؤن والے میں کیا ہورہا ہے اگر وہ ان کے علم میں نہیں ہے تو صوبے کے اور
مسائل ان کے علم میں کیسے ہوں گے ؟ لاتعداد شکایات سیلز ، کوآرڈینیٹرز ،پولیٹیکل
سیکر ٹریز ، سپیشل اسسٹنٹس اور چیئر مین ٹاسک فورسز کی صورت میں جو عوامی
سرمائے کا بے دریغ ضیاع ہو رہا ہے اس پر نظر ثانی فرمائیں اور میرٹ کا خیال
کریں اگر وہ چاہیں تو ان شکایات سیلز کو اور اپنی ماڈل ٹاؤن والی رہائش گاہ
پر کیمرے لگا کر ان کو انٹر نیٹ کے ساتھ منسلک کر کے اپنے دفتر میں بیٹھے
ہوئے نظر رکھ سکتے ہیں لیکن وہ ایسا کیوں نہیں کر رہے ہیں؟ یہ وزیر اعلیٰ
پنجاب (خادم اعلیٰ پنجاب) کی قابلیت اور انتظامی امور پر عوامی سوالات ہیں
؟کیا وہ عوام کو ان سوالات کا عملی جواب دینا پسند کریں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ |