لالہ جی ! جان دیو
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
یوں تو پہلے بھی ارضِ وطن پہ کڑا
وقت آتارہا لیکن اب کی بارجس عہدِ اشوب کا سامناہے اُس کی شدتوں کا یہ عالم
ہے کہ’’ دُعا‘‘ کے ساتھ ’’دوا‘‘کی بھی اشد ضرورت ہے۔لیکن’’ دوا‘‘ہم کر نہیں
سکتے کہ اِدھر اندرونی خلفشارکا عفریت دِن دُگنی رات چوگنی ترقی کررہا ہے
اور اُدھرقحط الرجال کا یہ عالم کہ کوئی نگاہوں میں جچتا ہی نہیں۔جچے بھی
کیسے کہ کسی کوملک کی پرواہ نہ قوم کی،اقتدارکے بھوکے بھیڑیے پلک جھپکنے کے
انتظارمیں ۔سیاست کے رنگ ڈھنگ یہ کہ منافقانہ’’ بین اورنوحہ خوانی ‘‘کے لیے
لاشوں کی اشد ضرورت ۔سبھی مسیحا لیکن مسیحائی سے کوسوں دورکہ یہ تو ڈھونگی
ہیں ،محض ڈھونگی۔ سچ تو یہی ہے، کڑواسچ کہ حقِ حکمرانی خواہ کسی کوبھی
ملے،قوم کا مقدر اندھیرے ہیں، گھوراندھیرے۔ہماری دعائیں خالق و مالک کے ہاں
مستجاب نہیں کہ اعمال کا دارومدار تو نیتوں پر ہوتاہے اور ہماری نیتوں
کافتور اظہر من الشمس جبکہ لوحِ مقدر پہ لکھ دیا گیاکہ
خُدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہوجس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
ہم میلوں ٹھیلوں کے شوقین ،جلسے جلوسوں اور ریلیوں میں’’آوے ای آوے‘‘
اور’’جاوے ای جاوے‘‘ کے فلک شگاف نعرے تو لگاتے ہیں لیکن عمل سے عاری۔ نگاہِ
انتخاب کا یہ عالم کہ ووٹ دیتے وقت رنگ ونسل کے بتوں کو پاش پاش کرنے کی
ہمت نہ فرقہ بندیوں سے باہر نکل کر سوچنے کی جرأت۔نتیجہ یہ کہ ایسے لوگوں
کے ہاتھ میں قوم کی تقدیر تھما دیتے ہیں جنہیں سرے سے پتہ ہی نہیں ہوتا کہ
قومی وملّی تقاضے کیاہیں۔کتنے ہونگے پارلیمنٹ اور سینٹ میں بیٹھے
رہنماجنہیں آئین کی شُدبُد ہو؟۔ شاید ایک دو فیصدیا اِس سے بھی کم۔جب یہ
عالم ہو توپھرغیروں کی غلامی ہی مقدر ٹھہرتی ہے۔
اسی اندرونی خلفشار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت گزشتہ ایک ماہ سے پاکستان
کے خلاف کھلی جارحیت کا مرتکب ہورہا ہے ۔کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر
مسلسل گولہ باری جاری ہے اور آئی ایس پی آر کے مطابق یکم اکتوبر سے اب تک
ورکنگ باؤنڈری کی چوبیس اور کنٹرول لائن کی چھبیس مرتبہ خلاف ورزی ہو چکی
جس سے کئی شہادتیں ہوئیں اور ہزاروں بے گھربھی ہوئے۔یہ شاید اقوامِ متحدہ
کی جنرل اسمبلی میں وزیرِاعظم نوازشریف کی تقریرکا ردِعمل ہو جہاں اُنہوں
نے عوامی امنگوں کے عین مطابق کشمیر کے بارے میں واضح اوردوٹوک مؤقف اختیار
کرتے ہوئے عالمی ضمیر کو جھنجوڑنے کی کوشش کی لیکن ہمارے ’’بھولے‘‘
وزیرِاعظم اتنابھی نہیں جانتے کہ عالمی ضمیر ہے کہاں جسے وہ جھنجھوڑنے نکلے
تھے۔اب توپوری دُنیامیں ’’جس کی لاٹھی،اُس کی بھینس‘‘پرہی عمل کیا جاتاہے۔
عالمی’’ڈان‘‘ اور دہشت گرد امریکہ،دوسروں پر دہشت گردی کا الزام لگاکر مَن
مانی کرتا رہتاہے ۔وہ تو پاکستان کوبھی بقول آمر مشرف’’ نشانِ عبرت‘‘
بنادیتا لیکن اﷲ کا لاکھ لاکھ شکرہے کہ ہمارے پاس ایٹم بم ہے جسے ہم نے
بقول چودھری شجاعت حسین شب برات پر پھلجھڑیوں کی جگہ چلانے کے لیے نہیں رکھ
چھوڑا۔امریکہ اب اپنے’’دیس‘‘ میں تو پایانہیں جاتا۔وہ توہمارے ہی دائیں
بائیں ہے اور خوب جانتا ہے کہ یہ قوم ایٹم بم چلانے سے بھی گریز نہیں کرے
گی ۔اسی لیے وہ آنکھیں بھی دکھاتا ہے اور محتاط بھی رہتا ہے لیکن شاید
ہماراپڑوسی ہندوستان کسی بہت بڑی غلط فہمی کاشکار ہے۔ 2002ء میں گجرات کے
مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے انتہاپسند نریندرمودی نے جب سے عنانِ
حکومت سنبھالی ،سرحدوں کی خلاف ورزی شروع ہوگئی جو تاحال جاری ہے۔مودی جی
سے بھلا کون بہتر جانتا ہوگا کہ پاکستان کی کُل آبادی سے بھی چار گُنا
زیادہ لوگ تو ہندوستان میں خطِ غُربت سے نیچے بستے ہیں ،50کروڑ سے زائد کے
پاس باتھ روم کی سہولت نہیں، 40 کروڑ کورے ان پڑھ اور لگ بھگ اتنے ہی بجلی
کی سہولت سے محروم ۔اُدھر پاکستان میں بھی سب اچھّا نہیں ۔حالات دونوں
ملکوں کے تقریباََ ایک جیسے ہی ہیں۔اِس مسلمہ حقیقت سے بھی مفر ممکن نہیں
کہ قوموں کی تقدیر یں جنگ سے نہیں امن سے بدلا کرتی ہیں اب مودی صاحب خود
ہی فیصلہ کرلیں کہ اُن کے لیے امن بہتر ہے یا جنگ؟۔ اُنہیں یہ بھی نہیں
بھولنا چاہیے کہ شہادت ہمیشہ مسلمان کا مطلوب ومقصود رہاہے لیکن ہندولالے
کو زندگی بڑی عزیز ہوتی ہے۔ہم پر حملہ کرکے لالہ جی کے ہاتھ توکچھ نہیں آئے
گاالبتہ جب ہمارے ایٹمی میزائل محوِپرواز ہوئے تو پھر ’’تمہاری داستاں تک
بھی نہ ہوگی داستانوں میں‘‘۔ہم دلّی کے لال قلعے پر سبزہلالی پرچم لہرانے
کے زعم میں مبتلاء ہیں نہ ایسا کوئی خواب دیکھتے ہیں لیکن کسی بھی جارحیت
کی صورت میں پوری دِلّی کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی سکت ضروررکھتے ہیں۔ہم امن
کی خواہاں ہیں لیکن ربّ ِ کریم کے حکم کے عین مطابق ہمارے گھوڑے بھی تیار
ہیں۔جیت کے غازی کہلائیں گے اور مَر گئے تو شہید، گویا
گر بازی عشق کی بازی ہے ، جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا ،ہارے بھی تو بازی مات نہیں
اکھنڈ بھارت کا خواب صرف نریندرمودی ہی نہیں سارے ہندوستانی سیاستدان
دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ اسی لیے تشکیلِ پاکستان کے ساتھ ہی ہمارے اوپر جنگ
مسلط کر دی گئی اور کشمیرکی یہ جنگ ایک سال دوماہ تک جاری رہی پھرکشمیریوں
کاحقِ خودارادیت تسلیم کرتے ہوئے جواہرلعل نہرونے کہاکہ اگر کشمیریوں نے
ہندوستان سے الحاق کافیصلہ نہ کیاتو وہ بغیر کسی حیل وحجت کے کشمیر خالی
کردیں گے لیکن آج تک اِس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ ستمبر 1965ء میں ہم پرجنگ
مسلط کی گئی اور اکیس روزہ اِس جنگ میں ہماری بہادرافواج نے بھارت کو ناکوں
چنے چبوائے۔ 1971ء میں ہندوستان زبردستی مشرقی پاکستان میں گھس آیااور مکتی
باہنی کے ساتھ مل کرپاکستان کو دولخت کردیا ۔سچ تو یہی ہے کہ یہ جنگ
ہندوستان نے نہیں جیتی ، پاکستانی سیاستدانوں نے اندرونی خلفشار کی بناپر
ہاری تھی۔ اُس وقت بھی اگر پاکستان ایٹمی قوت ہوتاتو ’’لالہ ‘‘ مشرقی
پاکستان میں افواج بھیجنے کی کبھی جرأت نہ کرتا۔ ایک جنگ راجیو گاندھی بھی
ہم پر مسلط کرنا چاہتاتھا لیکن ضیاء الحق مرحوم کرکٹ میچ دیکھنے کے بہانے
ہندوستان جا پہنچے اور مسکراتے ہوئے راجیوگاندھی کے کان میں یہ بھی کہہ آئے
کہ پاکستان ایٹم بم بنا چکاہے اور اگر ہندوستان نے جنگ مسلط کرنے کی حماقت
کی تو پاکستان ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر ایٹم بم چلا دے گا۔ضیاء الحق کی
اِس تنبیہہ کے بعد راجیوگاندھی کا رنگ پیلا پڑگیا اور ہاتھوں پر رعشہ طاری
ہوگیا۔ لالہ جی ! مکرر عرض ہے کہ ہمارے پاس گنوانے کے لیے کچھ بھی نہیں
لیکن اگر ہم ’’کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے ‘‘کے فارمولے پر عمل پیرا ہوگئے
توپھر آپ کے پاس بھی ’’کَکھ‘‘ باقی نہیں بچے گااِس لیے اپنی ’’چمڑی‘‘بچانے
کے لیے ایسی شرارتوں سے بازرہنا ہی آپ کے حق میں بہترہے ۔ |
|