ایبولا وائرس اور حکومتی اقدامات

پاکستان میں مختلف ادوار میں مختلف وباؤں کا شکا ر رہا ہے جس کی وجہ سے عوام پاکستان مشکلات اور مسائل میں گھری رہی ۔کبھی ملیریا نے بے حال کیا تو کبھی کانگو مسلط ہوگیا ۔ ڈینگی سے جان نہ چھٹی تھی کہ پولیو کی وبا نے پھر سے سر اٹھا کر پاکستان میں صحت کی صورت حال پر بہت سے سوالیہ نشان لگادیئے۔ اور اب ایبولا وائرس کا خوف دنیا بھر کی طرح پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لینے کیلئے پر تول رہا ہے ۔ اس کے بچاؤ اور حفاظتی تدابیر کے حوالے سے حکومت پاکستان نے فی الحال کوئی انتظام اور سدباب نہیں کیا ہے۔ ائیرپورٹ پر ریڈ الرٹ تو جاری کردیاگیا ہے لیکن بخار کو چیک کرنے والے تھرمل سکینرز چالو حالت میں نہیں ہیں۔ائیر پورٹ حکام نے حکومت سے 10 لاکھ روپے گرانٹ کی ڈیمانڈ کی ہے تاکہ ان خراب پڑے ہوئے سکینرز کو ٹھیک کرکے باہربالخصوص افریقی ممالک سے آنے والے مسافروں کو چیک کیا جاسکے اور متاثرہ شخص کے بارے میں پتہ لگایا جاسکے۔ایبولا وائرس کی شدت اور مہلک پن کی وجہ سے اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری نے پوری دنیا سے فنڈ جنریٹ کرنے کی درخواست کی تاکہ اس فنڈ کو متاثرہ لوگوں اور ممالک پر خرچ کرکے اس مہلک وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جاسکے۔

ایبولاوائرس کا جائزہ اور چند حقائق کہ یہ مہلک وباء کیسے پھیلی ؟ مارچ2014میں مغربی افریقہ کی ریاست گینیا میں پہلی بار اس وبا کی ابتدا ہوئی اور یکے بعد دیگرے ہمسایہ ممالک لائبیریا، سیرالیون اور نائیجیریا میں پھیلنے کی رپورٹس درج کی گئیں۔ اگست میں عالمی ادارہ صحت نے اسے ہنگامی اور بین الاقوامی وبا قرار دیا۔ امریکا اور یورپ سے کئی امدادی کا رکن مغربی افریقہ روانہ ہوئے۔ اگست کے آخر میں سینیگال میں اس وبا کی پہلی رپورٹ درج ہوئی۔ عالمی ادارہ صحت نے اب تک ڈھائی ہزار افراد کی اموات اور پانچ ہزار سے زائد افراد کے ایفیکٹڈ ہونے کی تصدیق کی ہے یہ اعداد شمار اوفیشل رجسٹر ہوئے ،اندازے کے مطابق نان رجسٹر ڈافراد کی اموات اور اس وبا میں مبتلا افراد کی تعداد کئی گنا زیادہ ہونے کا امکان ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی حالیہ رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ ایبولاوبا پر قابو پانا مشکل ہوتا جارہا ہے ،مغربی افریقہ میں گزشتہ دنوں چار سوافراد کی اموات ہوئیں، ایک ڈاکٹر کا کہنا ہے یہ وبا گھانا میں بھی پھیل رہی ہے، امریکا میں بیماریوں کو کنٹرول کرنے والے ایک ادارے کے ڈائیر یکٹر نے پریس کانفرس میں بتایا کہ یہ وبا بہت تیزی سے پھیل رہی ہے اور اگر اسے فوری کنٹرول نہ کیا گیا تو علاج کے تمام دروازے بند ہو جائیں گے۔ انہوں نے اس وبا پر قابو پانے کیلئے بین الاقوامی برادری کو فوری طور پر اپنا کردار ادا کرنے کی اپیل کی ہے محققین کا کہنا ہے اس وبا کے پھیلاؤ کی روکنے کیلئے جلدازجلد اقدامات نہ کئے تو ممکن ہے اس ماہ کے آخر تک اموات کی تعداد دس ہزار تک ہو سکتی ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق ریاست لائیبریا اس وائرس سے زیادہ متاثر ہے لیکن خوفناک سیچوئیشن نائیجریا کے شہر لاگوس کی ہے جہاں 20جولائی کو ایک شخص لائبیریا سے آیاوہ ایبولا میں مبتلا تھا اس کی جسمانی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے ائیر پورٹ حکام نے اسے ایک مخصوص مقام پر رکھا اور ڈاکٹر سے رجوع کیا لیکن وہ و ہاں سے فرار ہو نے کے بعد پورٹ ہیر کورٹ پہنچنے میں کامیاب ہوگیا اور ایک ہوٹل میں شفٹ ہونے کے بعد مقامی ڈاکٹر سے رجوع کیا ڈاکٹر کے علاج سے مریض کی حالت قدرے بہتر ہوئی لیکن گیارہ اگست کو مریض کے جسم پر نئی علامات ظاہر ہونے پر اسے مقامی ہوسپٹل کے مخصوص وارڈ میں منتقل کیا گیا، علاج جاری رہا لیکن کوئی دواراس نہ آئی اور وہ چھ دن بعد انتقال کرگیا، دوسو سے زائد افراد جانتے ہیں کہ دوران علاج اس ڈاکٹر کا سوائے ہوسپیٹل کے عملے کہ کن کن قریبی افراد سے رابطہ رہا مثلاًاس کا خاندان ،دوست وغیرہ اور ڈاکٹر نے کن افراد کو چھوا، ادارے کا کہنا ہے جن افراد کو ڈاکٹر نے چھوا وہ سب ممکنہ طور پر اس بیماری میں مبتلا ہوگئے ہیں ۔

عالمی ادارہ صحت نے یہ واقعہ رونما ہونے کے فوراً بعد اپنی ٹیم پورٹ ہیر کورٹ بھیجی تاکہ ان لوگوں کا سراغ لگائیں جن سے ڈاکٹر کا رابطہ رہا اور کامیابی حاصل ہونے پر ایک مخصوص انسٹیٹیوٹ پہنچانے کے بعد علاج کیا جائے، جرمنی کی وائرس پر قابو پانے والی ایک تربیت یافتہ ٹیم بھی ہیمبرگ سے پورٹ ہیرکورٹ روانہ ہو چکی ہے جہاں تشیخصی لیبارٹیریز قائم کرے گی ۔ جرمن محققین کا کہنا ہے ایبولا وباآزادی سے ایک وسیع پیمانے پر پھیل چکی ہے، نظریاتی طور پر اس پر قابو پانا مشکل نہیں ہے اس پر قابو پانے کے لئے ایفیکٹڈ افراد کی ایک الگ تھلگ مقام اور مخصوص وارڈز کی تشکیل لازمی ہے دوران علاج ان افراد پر کڑی نظر رکھی جائے جن کا مریضوں سے رابطہ ہو، ماضی میں بھی کئی وائرس پر اسی طرح قابو پایا گیا تھا لیکن اس با ر ایک زیادہ خطرناک وائرس نے اٹیک کیا ہے جس کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا اس تباہ کن صورت حال میں میڈیسن بھی تبدیلی نہیں لاسکتیں۔ جینوا میں منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں عالمی ادارہ صحت اور دیگر ممالک کے دوسو سے زائدایکسپرٹ نے اس وباپر بات چیت بھی کی کہ ان حالات میں ڈاکٹر کون سا لائحہ عمل اختیار کریں، کون سی ادویات استعمال کی جائیں اور کون سے ایسے ٹیسٹ پر عمل درآمد کیا جائے جو اس سے پہلے انسانوں پر نہیں کئے گئے، ڈاکٹر ز امید کرتے ہیں کہ عالمی ادارہ صحت ضرور ایسی ادویات استعمال کرنے کی اجازت دیں گے جن سے اس جان لیوا وبا میں کمی واقع ہو، لیکن اس بات کی بھی کوئی گارنٹی نہیں کہ ادویات کے استعمال کے بعد ایفیکٹڈ افراد کب تک زندہ رہتے ہیں۔ امریکن محققین کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ایبولا وائرس میں ہزاروں افراد ایفیکٹڈ ہیں ان کا کہنا ہے یہ وبا مغربی افریقہ میں تاریخی ،بدترین اور مہلک ثابت ہورہی ہے ،آنے والے بارہ سے اٹھارہ ماہ تک اس میں نمایاں اضافہ ہو گا اور مزید 25ہزار افراد میں پھیلنے کا خدشہ ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا کہ اس وبا پرقابو پانے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے لیکن ادویات اور ویکسین پر منحصر ہے کہ وہ کہ کتنی جلدی اثر کرتی ہیں۔ دنیا بھر میں خوف کی ایک لہر پھیل چکی ہے مغربی ممالک کے تمام ائیرپورٹس ہائی الرٹ کردئے گئے ہیں اور براعظم افریقہ سے آنے والے افراد کی خاص چیکنگ کی جارہی ہے ،ساری دنیا اس بات سے آگاہ ہے کہ افریقی ممالک کی حالت کتنے نازک موڑ پر پہنچ چکی ہے، صحت کے عالمی ادارے ان ممالک کے افراد کی صحت کیلئے کوششوں میں مصروف ہیں ، امریکی محکمہ دفاع نے تیس ملین ڈالرز کا تشخیصی ساز وسامان، آلات اور فیلڈ ہوسپٹل ایکسپرٹ عملے سمیت مغربی افریقہ بھیج دیا ہے ان کا کہنا ہے ان کا روائیوں میں اضافہ کیلئے مزید پانچ سو ملین ڈالرز کی امداد افریقہ بھیجی جائے گی۔ حکومت پاکستان کو چاہئے کہ سابقہ سستی کی روایات کو پس پشت ڈالتے ہوئے اس مہلک وائرس کے پاکستان میں داخلے اوراس کے خاتمے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر کام کرے اور انٹری پوائنٹس پر چیک کو فعال کیا جائے اور جدید مشینری کے استعمال سے متاثرہ افراد کوسپروائز کیا جائے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 211752 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More