جولاہوں کا ایک خاندان ماتم کر رہا تھا، ہمسایوں نے سوچا
شاید ان کا کوئی عزیز انتقال کر گیا ہو،یہ لوگ تعزیت کے لیے پہنچے اور روتے
پیٹتے رہے، جب رو پیٹ کر تھک گئے تو کسی نے ان سے پوچھا ’’ میت کہاں سے آئے
گی‘‘ رونے پیٹنے والوں نے حیرت سے پوچھا ’’کون سی میت‘‘ پوچھنے والے نے کہا
’’ آپ لوگ جس کو رو رہے ہیں‘‘ انھوں نے تڑپ کر جواب دیا ’’ ہم کسی کی موت
پر نہیں رو رہے‘ ہم راستہ بننے پر رو رہے ہیں‘‘۔ پوچھنے والے کی حیرت میں
اضافہ ہو گیا‘ رونے والوں نے بتایا ’’ ہمارا بزرگ صبح صحن میں کھڑا تھا‘ اس
کی ٹانگوں کے درمیان سے چوہا گزر گیا، ہم اپنے بزرگ کے انجام پر رو رہے ہیں‘‘
پوچھنے والے نے پوچھا ’’جناب چوہے کے گزرنے کا بزرگ کے انجام سے کیا تعلق؟‘‘
خاندان نے جواب دیا ’’ چوہا گزرنے کے بعد ابا جی کی ٹانگوں کے درمیان راستہ
بن گیا ہے، ہم ڈر رہے ہیں کیونکہ اس راستے پر اب بھینسیں بھی سفر کریں گے‘
گھوڑے بھی اور ہاتھی بھی، چوہا چھوٹا تھا وہ تو آرام سے گزر گیا مگر جب
ہاتھی، گھوڑے اور بھینسیں گزریں گی تو ابا جی کا کیا حال ہو گا؟ ہم نے جب
یہ سوچا تو ہماری چیخیں نکل گئیں‘‘۔
اس لطیفے کے زکر کرنے کا مقصد ہمارے ایک دوست کی بات تھی۔ وہ بہت پریشان
بیٹھے تھے۔ میں نے ان کی پریشانی کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے شہر قائد کے
مختلف علاقوں میں عراق اور شام میں برسرپیکار جنگجو تنظیم دولت اسلامیہ فی
العراق والشام (داعش) کراچی میں آگئی ہے۔ میرے دریافت کرنے پر ان کا کہنا
تھا کہ کراچی کے علاقوں سہراب گوٹھ، منگھو پیر، گلشن معمار اور گلشن اقبال
میں دیواروں پر جبکہ ملیر کے تھانہ سہراب گوٹھ احسن آباد کی ایک چوکی پر
جنگجو تنظیم کے نام کے مخفف (آئی ایس آئی ایس) کی وال چاکنگ کی گئی ہے، جس
میں اس تنظیم کی حوصلہ افزائی کی گئی اور قدم بڑھاؤ جیسے نعرے درج ہیں۔
میں نے کچھ کہنے کی بجائے ان سے مزید پوچھا کہ اس سے آپ کیوں اتنا فکر مند
ہیں تو وہ کہنے لگے ماضی میں امریکا اور اس کے حواریوں نے القاعدہ کی
پاکستان میں موجودگی کا انکشاف کیا تھا اس کے بعد سے اب تک پاکستان کو اس
کی ہزیمت اٹھانی پڑ رہی ہے۔ اب ’’داعش‘‘ کے آنے سے بیرونی قوتوں کو پاکستان
کی سالمیت پر حملہ کرنے کا ایک راستہ مل جائے گا۔ یوں پاکستان کو ایک مرتبہ
پھر ایک نئی جنگ میں جھونک دیا جائے گا اور شاید اس وقت ہم اس کسی بھی نئی
خانہ جنگی کے متحمل نہیں ہیں۔مجھے ان کی بات بھی ویسے لگی جیسے جولاہے اپنے
بزرگ کے انجام پر گھبرا رہے تھے۔
تاہم اگر سنجیدگی سے سوچا جائے تو بات درست تھی کہ واقعی میں اگر داعش کا
وجود پاکستان میں پایا جاتا ہے تو امریکا اور اس کے حواری پاکستان کو ضرور
اپنی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور پھر وہ اس تنقید کو عملی جامع پہنانے
میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ مگر شاید چند مبہم عبارتوں کی وال چاکنگ پر
اس قدر پریشان کا کوئی جواز پیدا نہیں ہوتا۔ وال چاکنگ کرنا اس وقت ملک میں
سب سے آسان ترین کام ہے۔ کوئی بھی بچہ ہاتھ میں اسپرے پکڑ کر یہ کام باخوبی
سرانجام دے سکتا ہے۔
کراچی کے ایسے علاقے جہاں پر داعش اور آئی ایس آئی ایس کی حمایت میں وال
چاکنگ کی گئی ان علاقوں کے بارے میں عام سے رائے ہے کہ وہ اسلامی اور عسکری
ونگز رکھنے والی تنظیموں کے اکثریتی علاقے ہیں۔ جہاں پر کسی بھی ایسی تنظیم
کہ جس کے بارے میں یہ کہا جارہا ہو کہ وہ امریکا کے خلاف جنگ کر رہی ہے اس
کو اچھا سمجھا جاتا ہے۔ مذہب سے قریب تر افراد کا امریکا دشمنی کا یہ انداز
خود امریکا کی غلطیاں ہیں جن کی وجہ سے آج امریکا سے مذہبی طبقہ بے انتہا
نفرت کرتا ہے۔ ایک محتاط رائے کے مطابق کراچی میں وال چاکنگ بھی شاید اس
نفرت کی بدولت ہے، نا کہ یہاں پر داعش اور آئی ایس آئی ایس کے وجود پر
دلالت کرتا ہے۔
اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی نے سندھ حکومت کو جو
خط لکھا ہے جس میں متنبہ کیا گیا کہ ملک میں 200 سے زائد چھوٹی بڑی مذہبی
جماعتوں نے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے بڑھا دیئے ہیں اور خدشہ ہے کہ بعض
کالعدم تنظیموں کے عسکری ونگز مل کر تخریبی کارروائیاں کر سکتے ہیں،یہ بات
درست ہے اور اس حوالے سے یقینا پاکستان کو اپنے دفاع کو ہر حوالے سے نظر
انداز نہیں کرنا چاہیے۔ تاہم یہ بات سمجھ سے بالا تر ہوگی کہ ہم خود اپنے
ہاتھ سے اپنے گلشن کو آگ کیوں لگانے لگے ہیں۔ داعش کی موجودگی کا خود ہی
ڈھنڈورا پیٹنے لگے ہیں تاکہ بیرونی قوتوں کو موقع فراہم کیا جائے کہ وہ
پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچا سکیں۔ کیوں ہم دوسروں کی جنگ کو اپنے گھر
میں دکھیلنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ پولیس افسران کا کہنا ہے کہ داعش کی وال
چاکنگ کی اطلاعات پھیلنے کے بعد ہم نے تمام علاقوں کی مکمل چیکنگ کرائی ہے،
ہمیں وال چاکنگ کے کوئی شواہد نہیں ملے۔ |