11 مئی 2013 ء کو دسویں عام انتخابات اور حکومت سازی کے
مرحلے کے بعد جمہور پسند سیاست دانوں سے یہ امید بندھ چلی تھی کہ اب
بلدیاتی الیکشن شیڈول کے تحت اور عوامی امنگوں کے مطابق جلد کرادیے جائیں
گے، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ کبھی قومی اسمبلی کے معزز اراکین کی انتخابات
مختصر عرصے کے لیے روک دینے کی متفقہ قرار دادیں سامنے آتی رہیں اور کبھی
الیکشن کمیشن کی جانب سے بیلٹ پیپرز کی طباعت مقررہ وقت سے قبل مکمل نہ
ہونے کے عذر کی باز گشت سنی گئی ۔ اس ساری صورتحال کا دلچسپ پہلو یہ رہا کہ
کہ تمام تر حالات و واقعات میں امید وار یکسوئی کے ساتھ رابطہ مہم ، کمپین
اور انتخابی جلسہ و جلوس اور ریلیاں منعقد کرتے رہے ۔ پاکستان کے سب سے بڑے
صوبے میں بلدیاتی امیدواروں کو دو مرتبہ کاغذات نامزدگی کی زحمت کا مرحلہ
طے کرنا پڑا۔امیدوار جنوری 2014ء کے دوسرے اور تیسرے ہفتے میں جہاں فائنل
راونڈ کی تیاری کررہے تھے وہاں انہیں الیکشن ملتوی ہونے کی بابت افواہیں
بھی سننا پڑرہی تھی۔ بالاآخر عید میلاد النبی ؐ سے ایک روز قبل سپریم کورٹ
آف پاکستان نے بلدیاتی الیکشن مذید آگے لیجانے کی اجازت دے دی۔اسی طرح
لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب میں نئی حلقے بندیاں کالعدم قرار دے دی تھیں اور
سندھ ہائی کورٹ نے آزاد کمیشن سے حلقہ بندیوں اور دیگر انتخابی امور نبٹانے
کا حکم دیا تھا۔ یہ وہ ظاہری عوامل ہیں جن کے سبب انتخابات مقررہ وقت پر
ہونا ممکن نہ ہوسکے۔
آئین کے آرٹیکل 140 الف کے مطابق ہر صوبہ قانون کے ذریعہ مقامی حکومتی نظام
قائم کرے گا اور مقامی حکومت کے منتخب نمائندگان سیاسی ، انتظامی اور مالی
امور کو منظم طریقے سے چلائیں گے، الیکشن کمیشن آف پاکستان مقامی حکومت کے
انتخابات کرائے گا۔‘‘ بلاشبہ مقامی حکومتوں کا کردار نظر انداز نہیں کیا
جاسکتا ۔ شہر اور دیہی زندگی کو رواں دواں اور مسائل سے دور رکھنے کے لیے
بلدیاتی ادارے آہم ترین کردار ادا کرتے ہیں ۔ دنیا بھر میں تعمیر و ترقی
اور عوام کی خدمت پر مقامی حکومتوں کا نظام کامیابی سے چل رہا ہے۔ وطن عزیز
میں بلدیاتی اداروں کے قیام پر مسلسل نئے نئے تجربات آزمائے جارہے ہیں
،کبھی بی ڈی ممبرز اور کبھی ناظم اور اب موجودہ حکومت کی جانب سے چیئرمینی
سسٹم لایا جارہا ہے ۔ ہر یونین کونسل اپنے چیئرمین اور وائس چیئرمین کی
قیادت میں علاقائی سطح کے امور و مسائل نبٹائے گی۔
سال رواں کے اوائل میں جنرل الیکشن کے بعدمختلف پارٹیوں کے کارکنوں نے
بلدیاتی انتخابات کے لیے رابطہ مہم شروع کی ہوئی تھی ۔ رمضان شریف ، عید
مبارک ، جشن آزادی و دیگر مذہبی و قومی تہواروں اور خوشی و غمی کے موقعوں
پر امیدواروں نے ووٹروں سے رابطہ مضبوط کیے رکھا ۔ طویل اور تھکا دنے والی
الیکشن مہم اور پھر بلدیاتی انتخابات کے التوا ء نے امیدواروں کو بند گلی
کا مسافر بنادیا۔ اس دوران بلدیاتی الیکشن کے امید واران کا کہناتھا کہ خدا
خدا کرکے ہم نے دوبار کاغذات نامزدگی بمع فیس جمع کرانے کا مرحلہ طے کیااور
اب یہ سرگرمی تیسری بار دہرانے کی سکت نہیں رہی۔ جبکہ عوامی حلقوں کا
کہناتھا اور ہے کہ بلدیاتی الیکشن کے نہ ہونے سے عوام سب سے ذیادہ متاثر
ہورہے ہیں ،ہم علاقائی امور نبٹانے کے لیے کس در پر دستک دیں ، ہم آج بھی
گلی محلوں کے کام کے لیے ایم این اے ، ایم پی اے کے محتاج ہیں۔ لوکل باڈی
کے الیکشن کا خواب نہ جانے کب پورا ہوگا۔موجودہ دور حکومت میں عام لوگوں کو
مہنگائی، توانائی کے بحران نے متاثر کیا ہوا ہے ، حکومت ورثے در ورثے میں
ملنے والے مسائل اور وبحرانوں سے نبرد آزما ہے ۔ بلدیاتی انتخابات میں
مسلسل تاخیر حکومتی عدم توجہی اور الیکشن کمیشن کی سستی کے باعث ہے ، واضع
رہے کہ حکومت نے پاکستان سپریم کورٹ کو 15دسمبر 2014ء تک بلدیاتی انتخابات
کروانے کا ٹائم دے رکھا ہے ، اور یہ ٹائم اس لیے لیا گیا تھا کہ پنجاب میں
نئی حلقہ بندیاں کرنا تھیں، مگر موجودہ حکومت نے اس ضمن میں ابھی تک کوئی
ورک نہیں کیا ہے۔ اس طرح حکومت 15 دسمبر2014ء تک بلدیاتی انتخابات کرواتی
نظر نہیں آرہی۔ اور نظر آرہا ہے کہ ایک بار پھر عوام کو بلدیاتی الیکشن کے
التواء کی زحمت برداشت کرنا پڑے گی۔اگر حکومت اور الیکشن کمیشن بروقت اپنا
ہوم ورک پورا کرلیتے تو عوام کو مسلسل تاخیر اور التواء کی زحمت برداشت نہ
کرنا پڑتی ۔
موجودہ حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیر اعظم پاکستان ڈاکٹر میاں نواز
شریف مداخلت کرتے ہوئے ایسے اقدامات کریں جس سے بلدیاتی انتخابات کا فوری
انعقاد ممکن ہوسکے ۔ بلدیاتی انتخابات کے معاملے پر جس جس طرح ادارے اور
حکومتی سفیران اپنی اپنی آراء دے کر قوم کو بند گلی میں دھکیلے ہوئے ہیں اس
سے بلاشبہ مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی کارکردگی شدید متاثر ہورہی ہے ۔ |