بیشک کوئی مائی کا لال پاکستان کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا

فوزیہ وہاب پی پی پی کی ایک نڈر اور بےباک وزیر اطلاعات
پاکستان میں دہشت گردی کے ذمہ دار راما، امریکی سی آئی اے، بلیک واٹر، اسرائیل اورافغانستان ہیں

یہ ایک حوصلہ افزا اور قابل ِ ستائش بات ہے کہ جو پاکستان پیپلز پارٹی کی سیکرٹری اطلاعات فوزیہ وہاب نے گزشتہ دنوں کراچی میں این ایف سی ایوارڈ کی خوشی میں سندہ سیکریٹریٹ سے کراچی پریس کلب تک نکالی گئی ایک بڑی ریلی سے خطاب کے دوران انتہائی جوشیلے انداز سے ہوا میں اپنا مکاہ لہراتے ہوئے کہی کہ تنقید سے گھبرانے والے نہیں کوئی مائی کا لال حکومت کی میعاد ختم نہیں کرسکتا انہوں نے اِس موقع پر جس انداز اور جذبات سے یہ بات کہی شاید میں یہاں اُن کے اُس انداز و بیان کا صحیح طرح سے احاطہ تو نہ کرسکوں مگر اتنا بیان کرنا میں ضروری سمجھتا ہوں کہ میرے خیال سے اُنہوں نے جو کہا اور جتنا کہ اِس سے وہاں موجود افراد اور ٹی وی چینلز پر چلنے والے کلیپس دیکھ کر پوری پاکستانی قوم نے یہ اندازہ تو بخوبی لگا لیا ہوگاکہ اگر کسی پارٹی میں فوزیہ وہاب جیسے نڈر کارکن اور عہدیدار ہوں تو اُس پارٹی کا کوئی کیا بگاڑ سکتا ہے اور اِس کے ساتھ ہی جب کسی پارٹی میں اِن جیسے بہادر اور بیباک ذمہ دار ہوں اور اِس پارٹی کی پاکستان میں حکومت ہو اور اُس حکومت میں فوزیہ وہاب جیسی بہادر خاتون بطور وزیر بھی ہو تو پھر دنیا کو یہ بھی یقین کرلینا چاہئے کہ پھر بیشک کوئی مائی کا لال بھی حکومت کا تو کیا پاکستان کا بھی بال بیکا نہیں کرسکتا اور اِس کے علاوہ اُنہوں نے کہا کہ ہم ایک آواز ہیں اور صدر کے پیچھے کھڑے ہیں این ایف سی ایوارڈ چاروں صوبوں کا متفقہ ایوارڈ ہے۔ اِن کی اِس تقریر کے پس منظر میں اگر دیکھیں تو بلاخوف تردید یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ اِس حکومت نے این ایف سی ایوارڈ کی متفقہ منظوری کر کے یہ ثابت کردیا ہے کہ ہمارا ملک ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے بعد اَب اندرونی طور پر پہلے سے بھی کئی گنا زیادہ ناقابل تسخیر ہوچکا ہے اور میں اِس موقع پر یہ سمجھتا ہوں کہ جہاں تک بات ہے کچھ ایسے لوگوں کی جن کے نزدیک موجودہ حکومت غیر مستحکم ہے اور اِن کے خیال میں اگر یہ حکومت زیادہ عرصہ قائم رہ گئی تو شائد پاکستان کا مستقبل بھی تاریک ہوجائے گا تو یہ سب ایک خیالی باتیں ہیں جو یہ مایوس اور فرسٹریشن میں مبتلا افراد کر رہے ہیں۔

تو ایسے لوگوں کے لئے جو ہمیشہ اِس حکومت اور پاکستان سے متعلق ایک مخصوص سمت اور ایک خاص زاویہ نگاہ کے علاوہ کہیں اور دیکھنا تو کیا سوچنا بھی پسند نہیں کرتے ایسے ہی لوگوں کے لئے غالب گمان ہے کہ کلا ڈیل کا ایک قول ہے کہ” بہت سے لوگ اِس دنیا میں ایسے بھی ہیں جو اپنی ناک سے آگے نہیں دیکھ سکتے “ کلاڈیل کے اِس قول کی رو سے اگر دیکھا جائے تو یہ سچ ہے کہ ایسے لوگوں کا ایک مخصوص ٹولہ آج بھی پاکستان میں بھی موجود ہے اور جو امریکہ اور بھارت کی گود میں بیٹھا ہوا ہے جس نے اپنے ملک سے متعلق نہ صرف پاکستان ہی میں کیا بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی یہ راگ الاپنا شروع کر دیا ہے کہ پاکستان اِن دنوں اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے(حالانکہ ایسا کچھ نہیں ہے دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ ملکوں اور قوموں پر اِس سے بھی کہیں زیادہ کڑا امتحان کا وقت آیا اور وہ اُس امتحان سے خندہ پیشانی سے سُرخرو ہو کر امر ہوئے اور وہ تاریخ میں بھی ایک نئے باب کا اضافہ کر گئے اگر آج ہم بھی اپنے اتحاد اور اپنی ملی یکجہتی پر قائم رہے تو ہم بھی اِس امتحان سے اپنے اِسی اتحاد اور اپنی ملی یکجہتی کے بدولت ضرور سُرخرو ہوں گے) بہرکیف !اِن ہی لوگوں کی وجہ پاکستان اپنے پیروں پر اَب تک کھڑا نہیں ہوسکا ہے جو اِس امر کا واضح ثبوت ہے کہ پاکستان پر گزشتہ باسٹھ سالوں سے اِس کے اپنوں سے زیادہ اُن پاکستان دوست نما دشمنوں کا اثر رہا کہ جنہوں نے ہمیشہ اِس کے ہر اندرونی اور بیرونی اقتصادی، سماجی، سیاسی اور اخلاقی معاملات میں اپنی ٹانگیں بیجا آڑائیں اور اپنی اندھی مداخلت جاری رکھی جس سے ایک طرف تو پاکستان دنیا بھر میں تنہا ہوا تو دوسری طرف اُنہوں نے اپنی اندر ہی اندر کی جانے والی سازشوں سے پاکستان کو ہر لحاظ سے مفلوج اور کھوکھلا کیا۔ اور آج اِس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پاکستان میں کسی بھی حوالے سے استحکام نظر نہیں آرہا ہے اِس کی کیا وجوہات ہیں؟ اِس کی مزید تفصیل میں جانے کی کوئی خاص ضرورت نہیں کیوں کہ جتنی مرتبہ بھی پاکستان میں رائج کسی بھی نظام کے ناقص ہونے کے اسباب جانچنے کے لئے اِس کی گہرائی میں جایا جائے ہر مرتبہ ہی ایک نیا انکشاف منہ چِڑھائے اور کھولے کھڑا ہوتا ہے۔ اور ہمیشہ سے ہی یہی ہوتا آیا ہے کہ کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ہمارے تجزیہ نگار اور محقق ہر بار ایک نئے مسلے کو سلجھانے میں الجھ کر رہ گئے اِس بنا پر میں یہاں صرف یہ کہہ کر اپنی بات سمیٹ لینا زیادہ بہتر سمجھتا ہوں کہ پاکستان کا قیام جب سے ہوا ہے اِسے اپنوں اور غیروں سب نے مل کر اپنے مقاصد اور عزائم کے لئے مختلف حیلے بہانوں سے استعمال کیا ہے اور اِن کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے کہ دوسرے پاکستان پر درپردہ مختلف بہانوں سے اپنا تسلط قائم کئے رہے یا کئے ہوئے ہیں یا کرنا چاہتا ہیں۔

اور اَب تو اِس میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ہے کہ بالخصوص امریکا افغانستان اور دنیا سے دہشت گردی کے خاتمے کی آڑ میں پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف چھیڑی گئی اپنی جنگ میں اپنا اتحادی بناکر درحقیقت افغانستان میں اپنی فوجیں بڑھا کر اِس بہانے پاکستان پر اپنا اثرورسوخ قائم کرنے کے لئے اپنی پوری ایڑی چوٹی کا زور نہ صرف خود لگا رہا ہے بلکہ اِس نے اپنے اِس مقصد کی فوری تکمیل کے خاطر اپنے ساتھ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کو بھی شامل کر رکھا ہے جو اِس بات کی بھی کھلی دلیل ہے کہ امریکا پاکستان پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لئے بھارت کے ساتھ مل کر اپنا دباؤ مسلسل بڑھا رہا ہے اور اپنی اِس ضد پر قائم ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقے دہشت گردوں کا گڑھ ہیں اور اِس کے ساتھ ہی یہاں ایک افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ پاکستان جو دہشت گردی کے خلاف اِس کی جنگ کا ایک بڑا اتحادی بھی ہے امریکا کا پاکستان پر کسی بھی معاملے میں اعتماد نہیں ہے اور وہ جنوبی ایشیا بالخصوص پاکستان سے متعلق کوئی بھی بہتر فیصلہ کرنے سے پہلے بھارت کو اعتماد میں لیتا ہے اور جب بھارت کے اِس پر تحفظات دور ہوجاتے ہیں تو امریکا آٹے میں نمک کے برابر کوئی فائدہ پاکستان کو پہنچانے کا صرف وعدہ کرتا ہے ....مگر دیتا وہ کچھ بھی نہیں ہے۔

اِس کے علاوہ گزشتہ دنوں امریکی پہلے سیاہ فام صدر مسٹر بارک اوباما نے پاکستان پر ایک الزام یہ بھی لگایا ہے کہ فاٹا سے مغرب کے خلاف شدت پسندی کو کنٹرول کیا جا رہا ہے اِن کے خاتمے کے لئے پاکستان کو امریکا کے ساتھ اپنا تعاون ہر حالت میں بڑھانا ہوگا اور پاکستان القاعدہ کے خاتمے کے لئے مزید سخت ترین اقدامات کرے تاہم اِس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کہ حکومت پاکستان نے اپنی فورسز کی مدد سے ملک کے بیشتر علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن میں بھرپور کامیابی حاصل کرلی ہے اور ایک مصدقہ اطلاع یہ بھی ہے کہ گزشتہ دنوں ہی حکومت پاکستان نے پہلے سیاہ فام امریکی صدر مسٹر بارک اوباما کی دھمکی آمیز الزام سے قبل ہی کرم ایجنسی میں اپنی فورسز کے ذریعے آپریشن شروع کردیا ہے جس کی تکمیل کا حکومت نے کوئی ٹائم فریم تو نہیں دیا ہے مگر یہ خوش آئند امر ہے کہ اِس آپریشن کے دوران بھی حکومت کو پہلے ہی روز دہشت گردوں کے خلاف بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔

جبکہ اُدھر یہ بات تو درست ہے کہ امریکیوں اور بھارتیوں نے ایک ساتھ مل کر پاکستان کو دنیا بھر میں ناکام ریاست منوانے کے لئے پاکستان بھر میں اپنی خفیہ ایجنسیوں سی آئی اے، راما اور بلیک واٹر کے ذریعے دہشت گردی کا بازار گرم کر رکھا ہے جس سے پاکستان کا وقار اور استحکام دنیا بھر میں بُری طرح سے مجروح ہو کر رہ گیا ہے اِس صورتِ حال میں موجودہ حکومت کو یہ چاہئے اور اِس پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی آستینوں میں چھپے اَن سانپوں کو بھی باہر نکالے جو دودھ پی پی کر پل بھی رہے ہیں اور وقت پڑنے پر ڈس بھی رہے ہیں ایسے سانپ وہ ہیں جو حکومت کو یہ سب کچھ جاننے کے بعد بھی کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے پسِ پردہ امریکا، بھارت، اسرائیل اور افغانستان جیسے دشمن ملوث ہیں اِن سے پھر بھر تعلقات استوار کرنے اور قائم کرنے کا مشورہ دیتے ہیں حکومت انہیں بھی بے نقاب کرے تاکہ حکومت عوام میں اپنا مورال مزید بلند کرسکے۔

اگرچہ ملک میں تیرہ سال کی ایک طویل جدوجہد کے بعد گزشتہ جمعہ کے روز ساتویں این ایف سی ایوارڈ کی متفقہ منظوری کے بعد اُن ملک دشمن عناصر کی راتوں کی نیندیں یقینا حرام ہوچکی ہوں گئیں جو یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ مالیاتی ایوارڈ کی تقسیم کا معاملہ جو گزشتہ کئی سالوں سے کھٹائی میں پڑا رہنے کی وجہ سے ملک کے چاروں صوبوں کے درمیان ایک اختلافی مسئلہ بنا ہوا تھا اور جس کی وجہ سے ملک کے صوبوں میں ایک کھنچاؤ اور تناؤ کا سا ماحول پیدا ہوچکا تھا جس کا فائدہ یہ ملک دشمن عناصر صوبوں کے درمیاں دوریاں پیدا کر کے اور انہیں ایک دوسرے سے لڑا کر اٹھانا چاہتے تھے اَب اِس متفقہ ایوارڈ کی منظوری کے بعد ملک کے اندر چھپے اُن پاکستان دشمنوں کے عزائم پر بھی اُوس گر گئی ہوگی جو یہ کہتے پھرتے تھے کہ پاکستان کا وجود خطرے میں ہے اور موجودہ حکومت ناکام ہوچکی ہے۔ میرے خیال سے اَب اِن لوگوں کو یہ بات سمجھ آجانی چاہئے کہ جو اپنی ناک سے آگے نہیں دیکھ سکتے اور ایسے باتیں کرتے ہیں جن کے نہ سر ہوتے ہیں اور نہ پیر اور اِس کے ساتھ ہی انہیں فوزیہ وہاب کی یہ بات بھی اپنی گرہ سے اچھی طرح باندہ لینی چاہئے کہ کوئی مائی کا لال اَب پی پی پی اور پاکستان کا بھی بال بیکا نہیں کرسکتا کیوں کہ اِس جمہوری حکومت نے این ایف سی ایوارڈ کی اتفاق رائے سے منظوری دے کر ملک کے چاروں صوبوں کو بکھرنے سے بچا لیا ہے اور ایک تسبیح کے دانوں کی طرح پرو دیا ہے۔ جس سے صوبے بھی مضبوط ہوئے ہیں تو ملک بھی مضبوط اور مستحکم ہوگیا ہے۔(ختم شد)
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 900330 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.