تشدد اور انسانی حیات کی ناقدری !
(Muhammad Asif Iqbal, India)
ہر زمانے میں انسانی حیات بہت
قیمتی اور نایاب چیز سمجھی جاتی رہی ہے اس کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ سب سے
زیادہ ظلم بھی انسانی جان ہی پر ہوتا آیا ہے۔زمانہ جسے سائنسداں مہذب اور
غیر مہذب کے زمرے میں تقسیم کرتے ہیں،اُس"غیر مہذب"دور میں بھی انسانی جان
کی اتنی زیادہ ناقدری نہیں کی گئی جتنی کہ آج کے مہذب انسان،انسانی جانوں
کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔گرچہ یہ مہذب اور غیر مہذب کی تقسیم ہمارے نزدیک
صحیح نہیں ہے اور یہ باتیں انسان کی لاعلمی کی دلیل ہیں۔کیونکہ قرآن حکیم
میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے :"اﷲ نے آدم کو ساری چیزوں کے نام سکھائے"یعنی
تخلیق کے وقت ہی اسے علم عطا کیا گیااورعلم کی بنا پر وہ پہلے ہی دن سے
مہذب بھی ٹھہرا۔پھر یہ تہذیب و تمدن، علم و معرفت اور عزت و شرف کی حدیں اس
وقت مکمل کردی گئیں جب نبی کریم محمد صلی اﷲ علیہ وسلم ،خطبہ حجتہ الوداع
کے موقع پر موجود اور غیر موجود تمام انسانوں کو ہدایت فرما رہے تھے "آج تم
سب پر ایک دوسرے کا خون عزتیں اور مال حرام ہے خبردار ! میرے بعد گمراہ نہ
ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگو"۔لیکن جو خدا اور نبی کی تعلیم
کے علمبردار ہیں وہ بھی اور جو خدائی تعلیم سے واقف تو ہیں لیکن اس کو رب
العالمین کی تعلیم نہیں مانتے،دونوں ہی ،علم حقیقی کو پس پشت ڈالتے ہوئے
ظلم و تشدد میں مصروف عمل ہیں۔انسان کی عزت ،اس کی آبرو،اس کا وقاراور اس
کی جان کی قدر نہیں کرتے۔ ساتھ ہی اس کو حد درجہ ذلیل و حقیر گردانتے ہوئے
اس کے ساتھ ظالمانہ رویہ اختیار کرتے ہیں۔سوچیے اور غور فرمائیے کیا حد
درجہ بد اعمالیوں میں مبتلا لوگ مہذب کہلائے جا سکتے ہیں؟یا ایسے لوگوں سے
کسی خیر کی توقع کی جا نی چاہیے؟خیر کی توقع تو تب ہی ممکن ہے جب کہ انسان
اپنی ذات کے لیے جو پسند کرے وہی دوسروں کے لیے بھی پسند کرتا ہو۔ ایک ایسا
شخص،گروہ یا فکر جو اپنے لیے خیر لیکن دوسروں پر ظلم کرنے والی ہو وہ کبھی
بھی قابل توجہ یاو قابل عمل نہیں بن سکتی ۔
حالیہ دنوں ایک کے بعد ایک دو واقعات ایسے گزرے ہیں جہاں انسانی جان کی حد
درجہ پامالی سامنے آئی ہے۔ایک واقعہ حیدر آباد کے صدیق نگر میں واقع مہدی
پٹنم گیریسن کیمپ کا ہے جہاں گیارہ سالہ بچہ شیخ مصطفی کودو فوجی جوانوں نے
کیمپ میں بلایا،مارا پیٹا،زخمی کیا اور بعد میں اس پر مٹی کا تیل چھڑک کر
آگ لگا دی ۔تو دوسرا واقعہ بہار کے روہتاس ضلع کے کاراکاٹ تھانہ علاقہ کے
موہن پور گاؤں میں پندرہ سالہ بچے کی بکری کسی کے کھیت میں تھوڑا بہت چرگئی،
تو پہلے ان لوگوں نے بچے کو زدکوب کرکے خوب مارا پیٹا، بری طرح زخمی کیا
اور بعد میں گھر میں داخل ہوکر بچہ پر مٹی کا تیل چھڑکا اور آگ لگا دی۔یہ
دونوں ہی واقعات نہایت دردناک،افسوناک،اور معاشرہ کی خطرناک صورتحال کے
عکاس ہیں۔پہلا بچہ شیخ مصطفی ،اقلیتی فرقہ سے تعلق رکھتا تھا تو دوسرا بچہ
سماج کے کمزورترین' دلت طبقہ 'سے تعلق رکھتا تھا۔سوال یہ نہیں ہے کہ
اقلیتوں اور دلتوں پر ہو رہے مظالم کیوں بڑھتے جا رہے؟اور ان کے خلاف کسفکر
کاغلبہ ہے جو یہ واقعات چند دنوں کے وقفہ سے بالترتیب سامنے آئے ہیں۔بلکہ
سوال یہ ہے کہ کیاہندوستانی معاشرہ میں کمزوروں اوربے سہارالوگوں کے حقوق
ختم کیے جا رہے ہیں؟معصوم بچے جو درحقیقت اپنی معصومیت سے دوسروں کو متاثر
کرتے ہیں،ان کے تعلق سے بھی جذبہ ہمدری و محبت کا خاتمہ ہو رہا ہے؟اور کیوں
مہذب انسان حیوانوں سے بھی بدتر ثابت ہوتے جارہے ہیں؟یہ وہ اہم سوالات ہیں
کہ جن پر اگرتوجہ نہیں دی گئیاوران باطل افکار و نظریات کو ختم کرنے کی
جانب منظم و موثر پیش قدمی نہیں کی گئی تو مستقبل قریب میں ہندوستان،جس کی
گنگا جمنی تہذیب پوری دنیا میں مشہور ہے ،خطرے میں پڑ جائے گی۔ضرورت ہے کہ
اس جانب بلالحاظ مذہب وملت ہر شخص اور گروہ متوجہ ہو۔
متذکرہ حالات میں پہلی بات جو ذہن میں آتی ہے وہ یہ کہ بگڑتے حالات کو کیسے
قابو میں لایا جاسکتا ہے؟اس کا کم از کم ہم مسلمانوں کے پاس بہت موثر اور
آسان حل موجود ہے۔اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:"اے لوگو اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو
ایک ہی انسان سے پیدا کیا ،پھر اس کا جوڑا بنایا پھر ان دونوں سے بہت سے
مرد اور عورت پیدا کیے"(النساء:۱)۔یہاں یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ دراصل
انسانوں کا سلسلہ ایک ہی ماں باپ سے شروع ہوا ہے۔لہذا تمام انسان ایک دوسرے
کو بھائی سمجھیں،ایک ماں باپ کی اولاد ہونے کی حیثیت سے انہیں ایک دوسرے کا
خیر خواہ ہونا چاہیے۔دوسری بات جو بتائی گئی وہ یہ کہ:"ہم نے بنی آدم کو
شرف و عزت بخشی اور خشکی و سمندر میں انہیں سواری دی اور پاکیزہ رزق دیا
اور اپنی اکثر مخلوق پر انہیں فضیلت دی"(بنی اسرائیل:۷۰)۔یعنی ایک انسان
دوسرے انسان کو حقیر نہ جانے،ایک دوسرے کو عزت و تعظیم دے،کسی کا ناحق قتل
نہ کیا جائے اور کسی کو ذلیل و رسوا نہ کیا جائے،چھوت چھات،بھید بھاؤ اور
اونچ نیچ کا خاتمہ ہو۔ان دو قرآنی آیات کی روشنی میں یہ بات خوب اچھی طرح
واضح ہو جاتی ہے کہ چونکہ انسان کو اﷲ تعالیٰ نے خود ہی شرف و عزت بخشی ہے
لہذا ایک انسان دوسرے انسان کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھے اور اس کے ساتھ
ہمدردی اور جذبہ خیر خواہی کے ساتھ پیش آئے۔اب اگر مسلمان خود ان تعلیمات
پر عمل پیرا نہ ہوں تو پھر انہیں یہ امید کیونکر رکھنی چاہیے کہ دوسرے ان
کے ساتھ ہمدری رکھیں گے؟رہی بات مسلمان خود کو کمزور سمجھتے ہوئے اپنے سے
بالاتر کے ساتھ بہتر رویہ اختیار کرے تو یہ اس شخص، افراد، یا گروہ ہی کی
اخلاقی پستی کہلائے گی۔اور جو اخلاقی اعتبار سے پست ہوں انہیں کوئی کیوں
قدر کی نگاہ سے دیکھے گا؟معاملہ تو جب ہے جبکہ آپ کسی مقام پر بہتر پوزیشن
میں ہوں اور اپنے سے کمزور تر شخص یا گروہ کواحترام بخشیں،نرم خوئی کا رویہ
اختیار کریں،اور ان کی دنیاوی اور اخروی ضروریات کو پورے کرنے میں اپنی
تمام تر صلاحیتیں صرف کردیں۔اس پس منظر میں دیکھا جائے تو آج بھی ہندوستانی
مسلمان ،سماج کے اس کمزور ترین طبقے کے ساتھ جسے عرف عام میں دلت کہا جاتا
ہے،مثبت رائے ورویہ اختیار نہیں کرتے۔جو قوم یا اس کا ایک بڑا حصہ سماجی
لحاظ سے پسماندہ طبقوں کے ساتھ رواداری سے نہ پیش آتا ہو،ان کو عزت ووقار
نہ بخشتا ہو،ان کے ساتھ ملنا جلنا،کھانا پینا،رہنا سہنا،اور معاملات سے
ہچکچاتا اور دور رہتا ہو ،وہ کیونکریہ چاہتا ہے کہ بااقتدار اشخاص ان کے
ساتھ رواداری کا معاملہ کریں گے؟ہم یہ نہیں کہتے کہ مسلمانوں کوجو حقوق اس
ملک میں بحیثیت شہری حاصل ہیں انہیں کو ئی پامال کر سکتا ہے،یا اگر کسی وقت
یا لمحہ کیے جائیں تو انہیں خاموشی سے قبول کر لینا چاہیے۔نہیں ایسا نہ ہے
اورنہ ہی ہونا چاہیے۔ملک کا ایک قانون ہے اور اسی قانون کی روشنی میں یہاں
ہر طبقے اور مذہب کے ماننے والوں کو حقوق بھی دیے گئے ہیں۔اوریہ حقوق ملک
کے دستور نے دیے ہیں،کسی شخص یا گروہ یا مخصوص فکر و نظر کے حاملین نے عطا
نہیں کیے۔لہذا کسی کو بھی ہرگز یہ حق بھی نہیں پہنچتا کہ انہیں پامال کرنے
کی جرات بھی کرے۔لیکن ہم صرف خود کو اور اپنے قارئیں کو اس جانب متوجہ کرنا
چاہتے ہیں کہ جس خدا نے انسانوں کو بحیثیت انسان برابر پیدا کیا،ان کو عزت
و شرف بخشا،انہیں ہم کیوں نظر انداز کرتے ہیں؟ہم ان لوگوں کے ساتھ ملنا
جلنا اور تعلقات بنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں جو کسی بھی سطح پر باحیثیت
ہیں،گرچہ وہ کسی قدر انسانیت سوز اعمال انجام دیتے آئے ہوں۔اگر ایسا ہے،جو
واقعہ بھی ہے،تو پھر لازماً ہمیں خدائی تعلیم سے بغاوت کے نتیجہ میں خدا کے
خوف اور اس کے عذاب کے لیے تیاررہنا چاہیے۔اور درحقیقت آج ہم اسی عذاب میں
مبتلا ہیں۔
حالات و واقعات کی روشنی میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ایک بار پھر ہم اﷲ اور
اس کے رسول محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں۔اﷲ اور اس کے
بندوں کے حقوق ادا کریں۔بحیثیت مسلمان خود کو پوری طرح سے اﷲ کے آگے جھکنے
والابنا دیں۔ساتھ ہی اﷲ کے بندوں کے لیے فکرمندی ہمارا شیوہ ہو۔جہاں کہیں
بھی انسانی حقوق کی پامالی ہمارے سامنے آئے اس کے خلاف نہ صرف آواز بلند
کریں بلکہ پر امن طریقہ سے نتائج خیز سعی و جہد بھی ہماری ذمہ داری ہے۔تشدد
کے خاتمہ اور انسانی حقوق کی پامالی کے تعلق سے ہی اﷲ کے رسولؐ نے خطبہ
حجتہ الوداع کے موقع پر فرمایا تھا:"کسی انسان پر جسمانی و ذہنی تشدد نہیں
کیا جائے گا اور نہ ہی اْسے بے عزت کیا اور دھمکایا جائے گا۔ کسی سے
زبردستی اقبال جرم نہیں کرایا جاسکتا"۔اگر ان تعلیمات کے برحق ہونے کا ہمیں
کامل یقین ہے تو پھر لازم ہیکہ ہم انسانی جان کو محترم جانتے ہوئے،نہ صرف
اس پر تشدد سے پرہیز کریں بلکہ اپنے ہی جیسے کمزور سماجی اعتبار سے پچھڑے
لوگوں کوعزت دیں تاکہ خدا بھی ہمیں عزت سے نوازے! |
|