سقراط نے کہا تھا کہ تباہ و
برباد ہوگئی وہ قوم جسکی باگ ڈور تاجروں کے ہاتھ میں آگئی۔ جب یہ مقولہ میں
پیش کرتا ہوں تو بعض لکیر کے فقیر ، سطحی قسم کا علم رکھنے والے نیم دانشور
فٹ سے کہہ دیتے ہیں کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسم اور بعض جلیل القدر صحابہ
بھی تجارت فرمایا کرتے تھے ۔ میں اس دلیل کے جواب میں اتنا ہی عرض کروں گا
کہ عقل نہ ہو تو الله سے طلب بھی کرنی چاہئیے اور شعور کی جستجو بھی کرنی
چاہئیے ۔ میرا ہرگز ہرگز مطلب یہ نہیں کہ تمام تاجر برے ہوتے ہیں ۔ میرا
عرض کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ جب تاجر حاکم بھی بن جائیں گے تو پھر
ریاستی وسائل وہ اپنے کاروبار کی بڑھوتری کے لئیے استمعال کریں گے - جس سے
تاجر حکمرآن کے اثاثے تو دن دگنی رآت چگنی ترقی کریں گے مگر عوام بنیادی
حقوق سے محروم ہوجاتے ہیں اور وہ صاف پانی تک کو ترس جاتے ہیں۔ تجارت میں
الله رب العزت نے بڑی برکت رکھی ہے اور تجارت میرے آقا و مولا حضرت محمد
صلی الله علیہ وسلم کا پسندیدہ شعبہ تھا مگر جب آقا نے نبوت کا اعلان
فرمایا تو تجارت کو ترک فرما دیا - حضرت ابوبکر صدیق بھی ایک کامیاب تاجر
تھے مگر آقا صلی الله علیہ وسلم کے بعد ابوبکر صدیق جب مسند خلافت پر بیٹھے
اور اگلے روز اپنے کاروبار کو دیکھنے کے لئیے جانے لگے تو حضرت عمر فاروق
نے صدیق اکبر کو روکا اور پوچھا جناب کدھر تشریف لے جارہے ہیں - ابوبکر
صدیق نے جواب دیا کاروبار پر ۔ فاروق اعظم نے فرمایا اب آپ امیرالمئومنین
اور حاکم وقت ہیں آپ اب تجارت و کاروبار نہیں کرسکتے- اگر آپ بھی تجارت
کریں گے تو رعایا کیا کرے گی ؟ لوگ آپکی خوشآمد کی خاطر آپ سے مال خریدیں
گے اور عام تاجر تو مارا جائے گا - قصہ مختصر صدیق اکبر کو تجارت اور خلافت
میں سے ایک کو چننا پڑا اور امیرالمئومنین بنتے ہی آپ نے تجارت چھوڑ دی ۔
پھر نیلے فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ مکہ و مدینہ کا کامیاب تاجر
امیرالمئومنین بننے کے بعد جب اس دنیا سے رخصت ہوا تو پیچھے اثاثوں اور
جائدادوں کا انبار نہیں چھوڑا ۔ پاکستان کے بیوپاری حکمرآنوں کے تنخوادار
چمچوں کو شرم نہیں آتی صحابہ کی تجارت کی مثال دیتے ہوئے۔ پاکستان میں تو
گنگا ہی الٹی بہتی ہے یہاں مرغی کے انڈوں سے لیکر سٹیل ملز تک کے کاروبار
پر حکمرآن طبقہ قابض ہے ایسے میں مہنگائی بڑھے نہ تو کیا کرے ۔ ان جگاڑیوں
کو تو داد دینی چاہئیے یہ اس بلا کے بیوپاری ہیں کہ فرضی کمپنیاں بنا کر
صرف کاغذوں میں ہی مال ادھر ادھر کرکے کروڑوں کما لیتے ہیں۔ یہی حال
جمہوریت کا کررہے ہیں ، یعنی جمہوریت صرف کاغذوں ، دعوؤں ، اور ٹی وی
سکرینوں پر ہی موجود ہے جبکہ گراونڈ ریالٹی بالکل مختلف ہے ، جمہوریت کہیں
دور دور تک نظر نہیں آرہی مگر جمہوریت کا چورن بیچنے والے جمہوریت کے نام
پر بیوپار کررہے ہیں - میڈیا بروکر کا کردار ادا کرکے اچھا مال بنا رہا ہے۔
ویسے ان بیوپاریوں اور انکے بروکرز کو آسکر ایوارڈ ملنا چاہئیے کیونکہ یہ
اس چیز کا چورن بیچ رہے ہیں جو موجود ہی نہیں بلاشبہ یہ بہت بڑی کاریگری کا
کام ہے ۔ جگاڑی اصل میں کاغذی اور فرضی کمپنیاں بنا کر مال کمانے کے ماہر
ہیں وہی فارمولہ جمہوریت پر انھوں نے اپلائی کردیا ساتھ نیم دانشوروں کو
بھی شریک بیوپار کرلیا - اب نیم دانشور صبح وشام جمہوریت کا راگ الاپ کر
روٹیاں خود بھی سینک رہے ہیں اور اپنے آقاؤں کے بیوپار کو بھی چار چاند
لگارہے ہیں - جس نظام میں ایک سائیکل چور کو تو الٹا لٹکایا بھی جائے اور
سخت سزا بھی دی جائے لیکن اربوں کھربوں لوٹنے والوں کے لئیے وزارت سے صدارت
تک کے عہدے ہوں - ایسے بدبودار نظام کو جمہوریت کہتے ہوئے دانشوروں کو شرم
نہیں آتی ۔ یا تو دانشور جمہوریت سے نابلد ہیں یا اس پلید نظام سے مستفید
ہوتے ہیں جمہوریت کے اس بیوپار میں اپنی کمیشن وصول کرتے ہیں - سارا ملک ہی
کمیشن ایجنٹس کے نرغے میں ہے - اپنی اپنی کمیشن کھری کرنے کے چکر میں ملک
کے ادارے برباد کردیے ۔ سوال پوچھیں کہ جناب ادارے کیوں برباد ہوگئے جواب
آتا ہے کہ جی وہ جمہوریت کو چلنے نہیں دیا گیا اس لئیے ادارے برباد ہوگئے۔
یہ ایک بھونڈی اور جگاڑی اور لفافہ مارکہ دلیل ہے - جبکہ اصل میں انکی ہوس
اقتدار ، اقرباء پروری اور کمیشنز و دلالی نے سارے ادارے برباد کردیے- اگر
کوئی درد دل رکھنے والا سوال کرے شکوہ وشکایت کرے تو کہتے ہیں کہ تم
جمہوریت کے خلاف سازش کررہے ہو ۔ ایسی بانجھ جمہوریت سے کروڑ گنا مشرف کی
آمریت اچھی تھی مگر اس وقت میڈیا و دانشوروں کا جمہوری چورن نہیں بکتا تھا
آج تو انکی پانچوں گھی میں ہیں ، جمہوریت کے نام پر بیوپار جاری وساری رہنا
چاہئیے دلالوں کو دلالی ملنی چاہئیے باقی رہی بات عوام اور انکے حقوق کی تو
وہ آئین کی سبز مقدس کتاب میں درج ہیں کیا اتنا کافی نہیں ؟ مشرف نے آئین
توڑا آرٹیکل سکس لگا ۔ کیا آج ملک آئین کے مطابق چل رہا ہے ؟ کل جب آئین
معطل تھا غریب کا چولھا جل رہا تھا آج تمھارے آئین کی بحالی نے غریب کے منہ
سے نوالہ تک چھین لیا ہے- تف ہے ایسی نام نہاد جمہوریت اور اسکے بیوپاریوں
پر ۔ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جس میں جمہور تو ترسے نان جویں کو اور جمہوریت
کے بیوپاریوں کے گھوڑے اور کتے مربہ جات کھائیں ۔ مگر جمہوریت کے دلالوں کو
شرم نہیں آتی اور وہ ایک استحصالی غریب کش نظام کو جمہوریت کہنے پر بضد ہیں۔
الله پاک وطن عزیز کو شیطان لعین ، جگاڑی سیاستدانوں اور ٹی وی اینکرز کے
شر سے محفوظ رکھے ۔۔ |