ایک دفعہ پھر علیحدگی
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
کراچی کے متاثرکُن جلسے میں
بلاول زرداری کی سیاسی رونمائی ہو گئی جس میں اُنہوں نے اپنے سیاسی ’’انکلوں‘‘
پر گرج برس کر اپنے جیالوں کو یہ پیغام دیا کہ’’کل بھی بھٹو زندہ تھا،آج
بھی بھٹوزندہ ہے‘‘۔ نوازلیگ کے’’انکلوں‘‘ نے توپلٹ کے جواب نہیں دیا کیونکہ
وہ بیچارے تو خود گرفتارِبلا ہیں البتہ محترمہ مریم نوازصاحبہ نے یہ
ہلکاپھلکا ٹویٹ کیاکہ ’’بلاول بھٹوزرداری نے کسی کو اوئے ،اوئے نہیں کہا‘‘۔
محترمہ مریم نوازکا یہ ٹویٹ ہمیں نوازلیگ کی بے بسی کی داستان سُناگیا۔اگر
سانحہ ماڈل ٹاؤن نہ ہوا ہوتا اور نواز لیگ دھرنوں کے عذاب میں مبتلاء نہ
ہوتی تو پھر ایسا’’کرارا‘‘ردِعمل سامنے آتاکہ نوخیزبلاول کے ہوش ٹھکانے
آجاتے۔ بلاول نے تحریکِ انصاف کے بارے میں انتہائی سخت زبان استعمال کرتے
ہوئے کپتان صاحب کو’’کٹھ پُتلی خاں‘‘ کہہ کر مخاطب کیا اور کہا’’ہم کبھی
امپائر کی انگلی پر نہیں ناچے ،بُزدلو!دھرنوں کے ہیلمٹ سے باہر نکلو اور
دہشت گردوں کی بالنگ کا سامنا کرو‘‘۔لیکن حیرت ہے کہ کپتان صاحب یہ کہہ کر
طرح دے گئے کہ بلاول ابھی بچہ ہے اور ہم بچوں کی باتوں کا جواب نہیں
دیتے۔ایم کیو ایم مگربلاول کی اتنی سی بات بھی ہضم نہیں کر سکی کہ’’ایم
کیوایم بیس سال سے کراچی پر حکمرانی کر رہی ہے 2018ء میں جب شفاف انتخابات
ہونگے تو کراچی کو اصل آزادی ملے گی اور ہر طرف ’’بوکاٹا ، بوکاٹا‘‘ہوگا‘‘
۔اُس نے بلاول کی اِس معصوم’’شرارت‘‘ پر احتجاج کرتے ہوئے سندھ حکومت سے
علیحدگی کا اعلان کر دیا ۔ایم کیوایم کے ڈپٹی کنوینرخالد مقبول صدیقی نے
کہا کہ بلاول کی تقریر کے بعد ساتھ چلنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
پیپلزپارٹی جاگیرداروں اور وڈیروں کی پارٹی ہے اور یہ ناممکن ہے کہ جہاں
جاگیرداری اور وڈیراشاہی ہو وہاں انصاف اور تعلیم ہو ۔خالد مقبول صدیقی نے
طنزاََیہ بھی کہا’’ سیاست کے کاروبار میں حسب نسب بھی تبدیل کر دیا جاتا ہے
۔بلاول زرداری سے سوال ہے کہ وہ کونسا پیمانہ ہے جس کی بنا پر وہ چیئرمین
بنائے گئے؟۔اگر پیمانہ موروثیت ہے تو بھٹو کا وارث بھٹو ہوسکتا ہے زرداری
نہیں۔بلاول بمبینوسینما کے وارث تو ہوسکتے ہیں پیپلزپارٹی کے نہیں‘‘۔
اِس سے پہلے ذوالفقارمرزا بھی ایسے ہی بیانات دیا کرتے تھے جس کی بنا پر
ایم کیوایم اکثر روٹھ جایا کرتی تھی اور بیچارے رحمٰن ملک’’وَخت‘‘ میں پڑ
جاتے لیکن پتہ نہیں اُن کے پاس ایسی کون سی ’’گیدڑسنگھی‘‘ تھی کہ ایم
کیوایم ’’فٹا فَٹ‘‘ مان جاتی۔نوازلیگ نے بھی بابارحمٰن ملک کی اسی
گیدڑسنگھی کو دھرنے والوں پرآزمانا چاہالیکن یہاں ’’بابا جی ‘‘بُری طرح
ناکام ہو گئے ۔وجہ شاید یہ ہو کہ ایم کیوایم والے تو پہلے ہی ماننے کے لیے
تیار بیٹھے ہوتے ہیں جبکہ دھرنے والے’’میں نہ مانوں‘‘ کے علمبردار۔
اب ایم کیوایم نے ’’پانچویں بار‘‘ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت سے علیحدگی
کا اعلان کرکے ایک نیا ریکارڈ قائم کر دیا ہے جس کی بنا پر اُس کا نام بھی
گینزبُک آف ورلڈریکارڈ میں آنا ضروری ہو گیاہے۔سندھ کے بھولے بھالے
وزیرِاعلیٰ سیدقائم علی شاہ نے سندھ اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ایم
کیوایم والے پچھلے پانچ سالوں میں کبھی روٹھے ،کبھی مانے اورہم کاروبارِ
سلطنت چلانے کی بجائے اُنہیں منانے میں ہی لگے رہے ۔ہم نے پہلی بار ’’شاہ
جی‘‘کو کچھ غصّے میں دیکھا،اسی لیے اُنہوں نے عالمِ غیض میں یہاں تک کہہ
دیا’’ اگر چیلنج کیا گیا تو ثبوت سمیت بیان کردوں گا کہ گرفتار ملزمان کا
تعلق کس جماعت کے ساتھ ہے ‘‘۔گویا شاہ صاحب کی یہ ایم کیوایم کو دھمکی تھی
کہ ’’نہ چھیڑ ملنگاں نوں‘‘۔ ویسے شاہ صاحب خاطر جمع رکھیں، ایم کیوایم کہیں
بھاگی نہیں جارہی ۔اﷲ سلامت رکھے رحمٰن ملک صاحب ’’اِن ایکشن‘‘ ہو چکے ہیں
اوراُمیدِ واثق ہے کہ عنقریب ایم کیوایم یہ کہتے ہوئے واپس آجائے گی کہ
ساقی میرے خلوص کی شدت کو دیکھنا
پھر آ گیا ہوں گردشِ دَوراں کو ٹال کے
امیرِ جماعتِ اسلامی محترم سراج الحق نے کہا اورحقیقت بھی یہی ہے کہ جس طرح
جَل بِن مچھلی نہیں رہ سکتی ،اُسی طرح حکومت کے بغیر ایم کیوایم کا جینا
محال ہے۔شاید اسی لیے بلاول بھی ایم کیوایم کو َرگڑادے گئے لیکن یہ رَگڑا
کچھ زیادہ ہو گیا اورخالدمقبول صدیقی کو یہ کہنا پڑا’’الطاف حسین کا جینا
حرام کرنے والے بتائیں کہ کیا اُنہوں نے اپنی ماں کے قاتلوں کا جینا حرام
کیا؟۔مرتضیٰ بھٹو کے قاتلوں کا جینا حرام کیااور ذوالفقار علی بھٹو کے
قاتلوں کا جینا حرام کیا؟‘‘۔بلاول کے اِس ’’رَگڑے‘‘ کے بعد لال حویلی والے
کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی ہے کیونکہ پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم کی اِس
چپقلش کے بعد شیخ صاحب کو قائدِحزبِ اختلاف بننے کے’’ خطرناک اور خوفناک
‘‘خواب نظر آنے لگے ہیں۔
ایک سوال خالدمقبول صدیقی صاحب سے کہ جب ایم کیوایم جانتی تھی کہ
پیپلزپارٹی وڈیروں اور جاگیرداروں کی ایسی جماعت ہے جس میں کسی کا بھلا
ممکن نہیں تو پھروہ چھ سال تک پیپلزپارٹی سے چمٹی کیوں رہی؟۔رہی سیاست میں
حسب نسب تبدیل کرنے کی بات تو جب ایک ایٹمی ملک کی سربراہی کی اُمیدہو تو
پھر ایک کیا ، ہزار زرداریوں کو بھی بھٹو بنایاجا سکتا ہے ۔ویسے بھی
پاکستان میں موروثیت کا پیمانہ ہم خودہی مقرر کرتے ہیں اِس لیے بھٹو کا
وارث بھٹو ہونا ضروری نہیں البتہ یہ ضروری ہے کہ ملک پر حکمرانی کرنے والا
’’خاندانِ حاکماں‘‘کا ہی کوئی فرد ہو۔اِس خاندان کی تین نسلیں تو ہم پر
حکمرانی کر چکیں ،اب چوتھی نسل تیار ہے ۔دیکھیں اب حمزہ شہباز ،مریم نواز،
بلاول زرداری ،سلیمان خاں ،قاسم خاں ،حسن محی الدین ،حسین محی الدین اور
مونس الٰہی میں سے کِس کے سَر پر اقتدار کا ہُما بیٹھتاہے ۔بلاول زرداری کو
میدانِ سیاست میں ابھرتے ہوئے دیکھ کر کپتان صاحب نے بھی اپنے دونوں بیٹوں
،سلیمان خاں اورقاسم خاں کو پہلو میں بٹھا کر یہ اعلان کر دیاکہ میاں
نوازشریف کے استعفے تک وہ بھی دھرنے میں ہی رہیں گے۔ علامہ قادری بھلا کسی
سے کیوں پیچھے رہتے ،اُنہوں نے بھی مینارِ پاکستان کے جلسے میں اپنے بیٹو ں
حسن محی الدین اور حسین محی الدین کو خوش آمدید کہہ دیا۔ چودھری برادران نے
مونس الٰہی کی سربراہی میں کمیٹی قائم کر دی جو قاف لیگ کے جلسوں اور
ریلیوں کا اہتمام کرے گی ۔حمزہ شہباز اور مریم نواز تو پہلے ہی سیاسی
اکھاڑے میں موجودہیں البتہ شیخ رشید احمد اور الطاف بھائی اِس معاملے میں
پیچھے رہ گئے ۔شیخ صاحب نے تو شادی ہی نہیں کی اور الطاف بھائی کی بیٹی
ابھی بہت چھوٹی ہے ۔اب اگلے الیکشن میں قوم انہی رہنماؤں کے حق اور مخالفت
میں’’آوے ای آوے‘‘ اور ’’جاوے ای جاوے‘‘ کے نعرے لگاتی نظر آئے گی تاکہ
سوہنی دھرتی کو قدم قدم آباد رکھا جا سکے۔ |
|