کانگریس کی شکست دوغلے پن کا نتیجہ
(Syed Mansoor Agha, India)
مجلس اتحادالمسلمین، جماعت
اسلامی، بھاگوت جی کا بیان،حج 2014
مہاراشٹرا اور ہریانہ میں کانگریس کی قیادت والی سرکاروں کی شکست کے اسباب
کا تجزیہ مختلف زاویوں سے ہورہا ہے اور ہوتا رہیگا۔ لیکن موٹے طور سے یہ
کانگریس اور این سی پی کے دوغلے پن کی شکست ہے۔ این سی پی کا دوغلہ پن تو
نتائج کا اعلان ہوتے ہی سامنے آگیا، جب سیکولرزم کا دم بھرنے والی شرد پوار
کی پارٹی نے بھاجپا کی غیرمشروط حمایت کا اعلان کردیا۔ لیکن کانگریس، این
سی پی اتحاد کے 15سالہ دورحکومت میں کم از کم اقلیتوں کے ساتھ سلوک نے ان
دونوں پارٹیوں کے ’سیکولرزم‘ کی قلعی پہلے ہی کھول کررکھ دی ہے۔ دہشت گردی
کے سب سے زیادہ فرضی کیسوں میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں انہی پارٹیوں کے
دوراقتدار میں مہاراشٹرا میں ہوئیں اور باربار ان کا جھوٹ کھل جانے کے
باوجود ان کی روش میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ مالیگاؤں بم دھماکہ کیس میں
بھگوادہشت گردی کے بے نقاب ہوجانے کے باوجود جس طرح بے قصور گرفتار مسلم
نوجوانوں کی رہائی میں اس حکومت نے رکاوٹیں کھڑی کیں ، جس طرح بابری مسجد
کے انہدام کے بعد ریاست بھر میں مسلم کش فسادات کی سرپرستی ہوئی اورسری
کرشنا رپورٹ کے باوجود فسادیوں کو بچایا گیا ،اس سے اقلیتی ووٹ ان سے بدظن
ہوگیا۔ یہ مہاراشٹرا میں ہی نہیں ہوا، کانگریس کی تاریخ یہی ہے۔ اس لئے اب
اس کے لئے جگہ تنگ ہوتی جارہی ہے۔ ابھی تک اس کی ر وش میں کوئی ایسی تبدیلی
نظرنہیں آرہی کہ ہندوفرقہ پرستوں کی منھ بھرائی سے کنارہ کش ہوکر حقیقی
سیکولرزم کی طرف پلٹے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ کانگریس اقلیتوں کے ساتھ کوئی
خصوصی رعایت برتے، بلکہ کہتے ہیں اقلیتوں کو نشانہ بنا کر ناانصافیوں
اورالزام تراشیوں کاسلسلہ بند کیا جائے ۔اس کا آغاز وہ آسام سے کرے، جہاں
مسلم اقلیت کو پیسا جارہا ہے۔ یہی بات مسلم قیادت کو ریاست میں آنے والی
سرکار سے کہنی چاہئے۔
ایم آئی ایم
مہاراشٹرا کے اسمبلی انتخابات میں اس بارمجلس اتحادالمسلمین کی شمولیت اور
اس کے دوامیدواروں کی کامیابی سے تجزیہ نگاروں کو یہ اندیشہ لاحق ہوگیا ہے
کہ اس وجہ سے سماج میں تفرقہ پیداہوگا۔حالانکہ ان کو ریاست میں بھاجپا
اورشیوسینا کے عروج سے سماجی انتشار کا کوئی اندیشہ محسوس نہیں ہوا جنہوں
نے بالترتیب 123 اور 63 سیٹیں حاصل کیں؟ یہ دونوں پارٹیاں سیکولر نظریہ کو
ملک کے لئے گھاتک قراردیتی ہیں اور ہندتووا کی سیاست کرتی ہیں۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ مجلس کو مہاراشٹر ا میں قدم جمانے کا موقع کس نے
دیا؟ اگر کانگریس اور این سی پی نے اقلیت کے ساتھ دھوکہ نہ کیا ہوتا، وعدہ
خلافیاں نہ کی ہوتیں، ان کو دہشت گردی کے جھوٹے الزامات میں صعوبتوں میں
مبتلا نہیں کیا ہوتا ، تومہاراشٹرا کا مسلم ووٹر ہرگز مجلس کی جانب راغب
نہیں ہوتا۔ ان نتائج سے ان دونوں پارٹیوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔
مجلس کے اگرچہ کامیاب تو صرف دو ہی امیدوار ہوئے ہیں مگر اس کے ان 16
امیدوار جوکامیاب نہیں ہوسکے ان دونوں پارٹیوں کے لئے درد سربنے اوران کی
موجودگی نے کانگریس اوراین سی پی کے کئی امیدواروں کاکھیل بگاڑا اور بھاجپا
و این سی پی کو جیت دلائی۔ یہ بات معمولی نہیں کہ مجلس کے امیدواروں نے کل
مسلم ووٹ کا تقریبا ایک چوتھائی ووٹ حاصل کیا اور ہرجگہ ان دونوں پارٹیوں
کو نقصان پہنچایا۔
جماعت اسلامی کا اثر
جماعت اسلامی مہاراشٹرانے مختلف پارٹیوں کے 144امیدواروں کے حق میں ووٹ کی
اپیل عوام سے کی تھی۔ بڑی بات یہ ہے کہ ان میں 37کامیاب ہوگئے ہیں۔ ریاستی
اسمبلی کے لئے صرف 9مسلم امیدوار جیتے ہیں، جن میں 8کو جماعت کی حمایت حاصل
رہی۔ کانگریس کے جن 68امیدواروں کے نام کی سفارش رائے دہندگان سے کی گئی ان
میں سے19 جیتے۔ این سی پی کے 52میں سے 15، مجلس کے 5میں سے دو اور سماجوادی
پارٹی کے دو میں سے ایک امیدوار نے کامیابی درج کی ۔بھاجپا کی غیرمشروط
حمایت کے اعلان کے بعد این سی پی کے یہ 15ممبر، جن کو جماعت کی تائید حاصل
تھی، بھاجپا کی ہم نوائی کریں گے۔ باقی بچے 22 ممبران۔ کیا چند کو چھوڑ کر
ان سے بھی یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اقلیت کے مفادات کی نگرانی کرسکیں
گے؟ جماعت کی تائید سے کھڑی کی ہوئی ویلفئر پارٹی نے بھی 11امیدوار میدان
میں اتارے تھے۔ ان میں سے اگرکچھ کامیاب ہوتے تو ان سے کچھ بہتر امید کی
جاسکتی تھی ، مگراطلاع یہ ہے کہ ان میں سے کسی کو بھی دوہزار سے زیادہ ووٹ
نہیں مل سکے۔سابق میں کئی انتخابات کے موقع پر مسلم مجلس مشاورت نے بھی اسی
طرح کی اپیلیں جاری کیں، مگر ان کے نتائج کبھی حوصلہ افزا نہیں رہے۔ جو
امیدوار کامیاب ہوئے ،ان میں سے اکثر کا رویہ بے مروتی کا رہا۔ اس سے یہ
سوال اٹھتا ہے کہ ملک کے مجموعی سیاسی ماحول میں کیا 18 فیصد اقلیت کی
علیحدہ سیاسی حکمت عملی کارگر ثابت ہوسکتی ہے یا اس کی بدولت اقلیت مخالف
عناصر ہی تقویت حاصل کرتے ہیں؟ اچھا یہ ہوگاکہ غیر سیاسی مسلم جماعتیں اس
کوچے سے دور رہیں، البتہ ان کے کارکن مقامی طور پر سرگرم ہوسکتے ہیں جس کا
ایمرجنسی کے بعد 1977کے چناؤ میں کامیاب تجربہ ہواتھا۔
بھاگوت جی کا بیان
ایک طرف جہاں ہریانہ اور مہاراشٹرااسمبلی چناؤ میں کامیابی کے بعد سہرا
مودی لہر کے سر باندھا جارہا تھا ، لکھنؤ میں آرایس ایس کے مکھیا موہن
بھاگوت نے خبردار کیا ہے، ’کسی ایک فرد، ایک لیڈر، ایک جماعت ،ایک سرکار ،
ایک چمتکار سے سماج میں تبدیلی نہیں آسکتی، جب تک پورا سماج نہ بدلے۔‘سماج
میں وہ کیا بدلاؤ چاہتے ہیں، بتانے کی ضرورت نہیں۔ آج سماج کی فرقہ ورانہ
تقسیم کم از کم پولنگ بوتھوں پر پہلے سے زیادہ شدید ہے۔ لیکن دراصل بھاگوت
جی کو فکر یہ ہوگی کہ مودی کا قد موجودہ سیاسی منظر نامے میں اتنا زیادہ
بڑھ گیا ہے کہ پارٹی اورپریوار پر بھی بونا ہونے کا اطلاق کیا جاسکتا ہے۔
ہرچند کی آرایس ایس خود مطلق العنانیت کے فلسفہ پر یقین رکھتی ہے، اسی لئے
ہٹلر میں اس کے کاریہ کرتاؤں کو بڑی کشش نظرآتی ہے، لیکن یہ بات کسے اچھی
لگ سکتی ہے کہ کل تک جو ایک معمولی کارکن تھا اس کا قد قائدین سے بھی زیادہ
بڑھ جائے اور ڈکٹیٹر بن جائے؟ بھاگوت کا یہ بیان مودی اور ان کے دست راست
امت شاہ کے لئے ایک انتباہ ہے۔
حج 2014
الحمداﷲ حج 2014 بخیر و خوبی تکمیل کو پہنچا اور حجاج کرام وطن واپس آگئے۔
حج 1435بفضل تعالیٰ انتظامی اعتبار سے کامیاب ترین حج رہا اور اس میں کوئی
حادثہ پیش نہیں آیا، حالانکہ وبائی مرض ابولا سے عازمین کے متاثر ہونے کا
سخت اندیشہ تھا۔ اس کے لئے جوسخت احتیاطی اقدامات کئے تھے وہ کارگر ثابت
ہوئے۔
اس سال دنیا بھر کے کوئی 160ممالک سے زاید از بیس لاکھ خوش نصیبوں نے حج
اکبر کی سعادت حاصل کی۔ حج کیونکہ جمعہ کوہوا، اس لئے قرب و جوار سے ہزارہا
غیر مجازافراد بھی آپہنچے ۔ سعودی حکام نے اس مسئلہ کا مقابلہ بغیر کسی
حادثہ کے کیا۔
حج دنیا کا سب سے بڑااجتماع ہوتا ہے اور ہرشخص عقیدت اور جذبہ ایمانی سے
سرشار ہوتا ہے۔مختلف زبانیں بولنے والے اتنے بڑے اجتماع کو سنبھالنا ،ان کو
تمام مناسک سے بخیریت اور مقررہ اوقات سے گزارنا، بڑے صبر وضبط اورچست و
درست نظم کا طالب ہوتاہے۔ 1990میں رمی جمرات کے موقع پربدقسمتی سے جو
بدنظمی ہوگئی تھی جس میں 1426افراد جان بحق ہوگئے تھے۔ 2006 میں بھی336
افراد جان بحق ہوئے تھے۔ اس کے بعد ہراس مقام کی توسیع کی گئی اور انتظامات
کو مزید چست اوردرست کیا گیاجہاں کسی حادثہ کا اندیشہ تھا۔عازمین حج کو
منظم گزارنے کے لئے ہزارہا کارکن ہمہ وقت مستعد رہتے ہیں۔
علاوہ ازیں بیس لاکھ افراد کے کھانے، آرام سے رہنے ، سفر کرنے اور صفائی
ستھرائی کے لئے وسیع منصوبہ بندی ہوتی ہے اوراس کا موثرنفاذ مطلوب ہوتا ہے۔
ہزارہا لوگ ادھر ادھر بھٹک جاتے ہیں ، ان کو ان کی قیام گاہ تک پہنچانے کے
لئے قدم قدم پر رضاکار موجود رہتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ غیر تربیت یافتہ
اتنے بڑے اجتماع کا انتظام کرنا غیر معمولی مہارت، تربیت اورللٰہیت کا طالب
ہے جس کا مظاہرہ الحمداﷲ خادمین حرمین شریفین نے بخوبی کیا، جس کے لئے شاہ
سے ادنیٰ کارکن تک ہر فرد یقینا مبارکباد اور دعائے خیر کامستحق ہے۔ امسال
ہندستانی حجاج کرام کی طرف سے بھی شکایات سننے کو نہیں ملیں۔ دعا ہے کہ
یہاں سے وہاں تک حج انتظامات میں شریک ہرفرد کو اﷲ تعالیٰ جزائے خیرسے
سرفراز فرمائے اور جن کو یہ سعادت حاصل ہوئی ہے ان کے اخلاق وکردار میں اس
کے اثر کو قائم فرمائے۔ آمین۔ |
|