چند دن پہلے مولاناعباس انصاری
کی صدارت میں اتحاد المسلمین کا ایک خصوصی اجلاس سرینگر میں منعقد ہ ہوا جس
میں محرم کے حوالے سے بھارتی قابض انتظامیہ کی جانب سے جلسوں پر پابندی پر
غور و خوض کیا گیا ۔ خصوصی اجلاس کے بعد انہوں نے کہا کہ شہدائے کربلا کی
یاد میں اجتماعات، اجلاسوں اور جلوسوں کا انعقاد انتہائی عقیدت اور نظم و
ضبط کے ساتھ کیا جائے گا۔قابض انتظامیہ نے 1990میں ان جلوسوں پر پابندی
عائد کر دی تھی اور اب محض مخصوص علاقوں میں چھوٹی چھوٹی ریلیوں کی اجازت
دی جاتی ہے۔ کیا یہ جمہوریت ہے ؟ اپنے مذہب ،عقدے،کے مطابق ہر جماعت کو پر
امن جلسے ،اجتماعات کرنے کا حق ہے۔ دوسری طرف قابض انتظامیہ سیلاب کی وجہ
سے بے گھر ہونے والے افراد کی مدد کرنے میں ناکام ہوچکی ہے ۔ بھارتی حکومت
مقبوضہ کشمیر میں سیلاب متاثرین کی آباد کاری میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی
ہے اور ایک ماہ سے زائد وقت گزر نے کے باوجود ابھی تک کوئی ٹھوس اقدامات
نہیں کئے گئے ہیں۔حالیہ تباہ کن سیلاب سے ہزاروں کشمیری گھروں سے محروم ہو
چکے ہیں جن کی شدیدسردی کا موسم شروع ہونے سے پہلے آباد کاری ناگزیر ہے
ورنہ ان کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہو سکتا ہے صاحب ثروت کشمیروں سمیت
پوری دنیا کے لوگوں سے اپیل ہے کہ وہ سیلاب متاثرین کی دل کھول کر مدد کریں
۔ بھارت کی قابض انتظامیہ نے متاثرین سیلاب کو قطعی طور پر حالات کے رحم
وکرم پر چھوڑ دیا ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ عالمی امداد بھی متاثرین تک
پہنچنے نہیں دی جا رہی ۔
ایسے میں کشمیر کو اپنی شہہ رگ کہنے والوں کو ان کی مدد کرنی چاہیے ۔صرف
شوشل میڈیا پر بیٹھ کر کشمیر کا مقدمہ نہیں لڑا جا سکتا یا بڑے بڑے جلسوں
میں کشمیر کا نعرہ لگا کر قوم کو مزید بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا ۔بلکہ اس
طرح کشمیر کے باسیوں پر مزید ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں ۔کشمیر پر
سیاست کرنے والے اس بات کا جواب دیں کہ انہوں نے کشمیر کے لیے کون سا تیر
مارا ہے ۔کوئی امداد اپنے بھائیوں کو دی ہو ،سیلاب متاثرین کے لیے کوئی
فنڈکشمیر میں بھیجا ہو ،وہاں کی حالت زار جاننے کے لیے کوئی وفد بھیجا ہو ۔
عالمی میڈیا کی توجہ اس جانب دلائی ہو۔ اپنے گھر میں بیٹھ کر ،یا جلسوں میں
کشمیر کا نام لے کر یہ اپنی سیاست چمکاتے ہیں اور اس طرح کشمیریوں کی
مشکلات میں مزید اضافہ بھی کرتے ہیں اس کا سبب بنتے ہیں۔پاکستان میں جماعت
اسلامی اور جماعت الدعوۃ کے علاوہ شائد ہی کوئی سیاسی یا مذہبی جماعت ہو
جومقبوضہ کشمیر کے دکھیاری عوام کے دکھوں میں شامل بھی ہوتی ہو کشمیر کا
نام لے کر سیاست کرنے والوں کو شائد وہاں کے حالات کا بھی علم نہ ہو۔ہم یہ
نہیں کہہ رہے کہ کوئی سیاسی جماعت کشمیر کا نام نہ لے بلکہ یہ کہہ رہے ہیں
کشمیر یوں کی مدد بھی کرے۔ان کا ساتھ بھی دے ۔
کشمیر کے ساتھ اس لفظ مقبوضہ کولگے ہوئے ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے۔ اور نہ
جانے ابھی کتنی دیر تک یہ لفظ یونہی رہے گا۔ اور ویسے بھی کہنے کو یہ ایک
لفظ ہے۔ مگر اس لفظ کے پیچھے ایسی بہت ساری داستانیں چھپی ہوئی ہیں کہ
جنہیں بیان کرنے کے لئے بہت وقت درکار ہے۔ آخر کشمیر کب آزاد ہو گا؟ کب تک
یہ کشمیری بہن بھائی ظلم سہتے رہیں گے؟ کب تک یہ دشمن ہمارے بہن بھائیوں کی
زندگیوں سے کھیلتے رہیں گے؟ آج کشمیر کو جلتے ہوئے عرصہ دراز گزر چکاہے۔
آخر ایک نہ ایک دن تو یہ زندگیوں کے دشمن اپنی ہی لگائی ہوئی آگ میں جلیں
گے۔ آج تک کشمیر کے کئی گاؤں کئی شہر صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔ ہمیشہ ان بے
گناہ نہتے کشمیریوں کو صرف دو الفاظ تسلی آمیز لہجے میں کہہ کر ان کا منہ
بند کر دیا جاتا ہے۔ مگر کب تک؟ آخر یہ موت کا کاروبار کب تک ہوتا رہے گا؟
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ خون پھر خون ہے بہتا ہے تو جم جاتا
ہے۔ آج کل جو مسلمانوں کا حال ہے اگر کبھی مغرب میں کہیں ایسا ہوتا تو ساری
دنیا اس طرف توجہ دیتی۔ شاید اب مغربی ہی سب کچھ ہیں مگر ان کشمیریوں میں
کوئی کمی تو نہیں ہے۔ کیا آدازی مانگنا اور مسلمان ہونا اتنا بڑا جرم ہے جس
کی سزا دی جا رہی ہے ۔ کشمیر میں ایسے ایسے لوگ ہیں کہ جن کی جتنی تعریف کی
جائے کم ہے۔ یہ لوگ اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر کھیلتے ہیں صرف اپنی نسل
کو آزاد کروانے کے لیے۔ اور قدر کرنی چاہیے ان انسانوں کی جو اتنا بڑا محاذ
لڑ رہے ہیں۔ کشمیر کی حسین وادیوں میں بہت پہلے وہاں کے چشموں اور ندیوں
میں میٹھا پانی بہتا تھا۔ مگر اب ان ندیوں میں پانی کی بجائے خون بہتا نظر
آتا ہے۔ ان بے گناہ کشمیریوں کا خون جو بھارتی درندوں کے ہاتھوں بے گناہ
مارے گئے۔ وہاں پر اب پہلے کی طرح امن نہیں رہا۔ پہلے تو وہاں سریلے نغموں
کی صدائیں گونجتی تھیں مگر اب وہاں پر لوگوں کی چیخ و پکار سنائی دیتی ہے۔
ہم سب کو وہاں پر پہلے درخت ہی درخت نظر آتے تھے۔مگر اب وہاں دور دور تک آگ
سے جلتے مکان دکھائی دیتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کا حسن ماند پڑ چکاہے۔ پتہ
نہیں کشمیر کے بچوں ،بڑوں ،ماؤں ،بہنوں کے چہرے کب آزادی کی خوشی سے کھِل
اٹھیں گے، مگر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ کیوں ان کی آواز کسی کو سنائی نہیں
دیتی؟ کیا انہیں انسانوں میں سے نہیں سمجھتے؟ کیا وہ ہمارے مسلمان بہن
بھائی نہیں؟ کیا ان کو بھی جینے کا حق نہیں؟ کیا ماؤں کی گودیں اسی طرح
اجڑتی رہیں گی؟ میرے ان سوالوں کا جواب کس کے پاس ہے؟ حکومت کے پاس نہیں تو
پھر کس کے پاس ان کے پاس جو پہلے حکومت میں رہے مگر اپنے دور حکومت میں
کشمیر کو بھولے رہے اور اب اپنے جلسوں میں اپنی سیاست چمکانے کے لیے کشمیر
،کشمیر پکارنے لگے ہیں۔ کم از کم ہم مسلمانوں میں اتنا جذبہ تو ہونا چاہیے
کہ ہم ان کے لئے کچھ آنسو ہی بہا لیں۔ ہمارے جذبے کہاں گئے؟ ہمارے دعوے
کہاں گئے؟ ہمارا ضمیر ابھی تک بیدار کیوں نہیں ہوا؟ آخر کب ہمارا ضمیر
بیدار ہو کر ہم سے پوچھے گا کہ تم میں اتنا جذبہ کیوں نہیں ہے؟ کشمیر کو
آزاد کروانے کے لئے دعا کی نہیں بلکہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہم ہر سال
5فروری کو یوم یکجہتی کشمیر مناتے ہیں، اور پھر سال بھر کے لیے کشمیر کو
بھول جاتے ہیں اور دوسری طرف کشمیر کو اپنی شہہ رگ بھی کہتے ہیں ۔ ضرورت اس
امر کی ہے کہ ہم ایسا لائحہ عمل اپنائیں جس کی وجہ سے کشمیری بھائی آزادی
سے ہمکنار ہو سکیں۔ اور ہم اپنی شہہ رگ جو دشمن کے قبضہ میں ہے (شہہ رگ
دشمن کے قبضے میں )اسے چھڑانے کا کوئی مناسب طریقہ کار اختیارکریں ۔ |