پاک فوج اور عوام ایک

جہاں وطن ِعزیز کی سلامتی کی بات ہو وہاں پاک فوج کا ذکر لازم ہے ۔پاک فوج ، ارضِ وطن کا ایک عظیم ادارہ ہے ۔ اور جہاں دوسرے ادارے اپنے فرائض منصبی ادا کرنے میں نا کام نظر آتے ہیں وہاں پاک فوج نہ صرف اپنے شعبے میں بلکہ جب جب وطن کو ضرورت پڑھتی ہے چاہے وہ فلاہی کام ہو یا کوئی اور کام پاک فوج ہر دم مستعد نظر آتی ہے ۔ملکی سرحدوں کی بیرونی دشمنوں سے حفاظت کرناہو یاملک میں موجود دشمنوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ہو، عوام کو دہشت گردی سے نجات دلانا ہو ۔پاک فوج اپنے فرائض سے پہلو تہی نہیں کرتی ۔ملکی سرحدوں کی حفاظت کے لیے بھارت کی جانب سے جب بھی سرحدی حدود کی خلاف ورزی کی گئی اس کڑے وقت میں پاک فوج سسیہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوتی ہے اور ملکی سرحدوں کی حفاظت کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرتی ۔ ہمارے یہ بیٹے اس وقت جاگ کر ملک کی حفاظت کر رہے ہوتے ہیں جب ہم آرام اور سکون کی نیند سو رہے ہوتے ہیں ۔ بھارت کی دراندازیوں کا جواب جہاں صدر مملکت یا وزیر اعظم کا جواب آنا چاہیے وہاں یہ سیاست دان خاموش رہتے ہیں ۔ جبکہ سیاسی بیان کے جواب میں بھی آرمی چیف کا بیان منظر ِ عام پر آتا ہے ۔پاک فوج اور عوام ہر مشکل میں ساتھ اور متحد ہیں ۔ جب فوج کو ضرورت پڑتی ہے تب عوام فوج کے ساتھ ہیں ۔

قوم کو کوئی ضرورت پیش آئے ، وہ زلزلہ کی تباہ کاریاں ہوں ، یا سیلاب میں پھنسے ہوئے لوگوں کو محفوظ مقا مات پر پہنچانا ہو۔ حالیہ سیلاب میں پاک فوج کے جوان ، آرمی ایویشن کی مدد کے ساتھ لوگوں کو محفوظ مقامات تک پہنچاتے رہے ۔ دن اور رات کی پروا کیے بغیر یہ جوان ہر لمحہ لوگوں کی جان بچانے کے لیے مصروفِ عمل رہے ۔ جہاں ریسکیو ادارے کہیں دکھائی نہیں دیتے وہاں پاک فوج ہر لحظہ قوم کی خدمت پر معمور نظر آتی ہے۔جیلوں کی حفاظتکی ذمہ داری پر بھی فوج ہی کو طلب کیا جاتا ہے گویا ایک سیکورٹی ادارے تحفظ کے لیے بھی فوج ہی پر بھروسہ کیا جاتاہے ۔

جب شفاف الیکشن کا معاملہ درپیش ہوتا ہے تو الیکشن کمیشن بھی اپنے ورکرز کی نسبت پاک فوج پر زیادہ اعتماد کرتی ہے ۔ الیکشن کے دوان سیکیورٹی کی ذمہ داری سنبھالنے کے لیے پاک فوج کی خدمات حاصل کی جاتی ہے ۔ پولیو کے قطرے پلوانے کے لیے بھی ایسے دشوار گزار علاقے جہاں کوئی اور ادارہ کام نہیں کرپاتا وہاں پاک فوج اس ذمہ داری کو بھی نبھانے کے لیے پیش پیش نظر آتی ہے ۔ صوبوں میں بالعموم اور کراچی میں بالخصوص امن و امان قائم کرنا ہو ، جہاں دوسرے ادارے ناکام نظر آتے ہیں وہا ں یہ واحد ادارہ ہے جس پر اعتبار کیا جاتا ہے ۔ ملک کے چپے چپے میں جہاں دہشت گردی اور امن وامان کی صورتحال خراب ہوتی ہے وہاں فوج کو طلب کیا جاتا ہے اور اسی ادارے کی بہترین کارکردگی اور جوانوں کی بیش بہا قربانی کی بددولت ملک میں امن وامان کی صورت الحال بہتری کی جانب مائل ہے ۔

سرحدوں اور عوام کی حفاظت کے ساتھ ساتھ پاک فوج عوام کے ساتھ ساتھ دوسرے سیکیورٹی اداروں کی حفاظت بھی کرتی ہے ۔ ۔پولیس جو کہ خود ایک سیکیورٹی ادارہ ہے جس کی تربیت اور کام کا انداز ایسا ہونا چاہیے کہ عوام اس پر اعتماد کر پائیں ۔وہ بھی اپنی عمارات اور جیلوں کی حفاظت خود نہیں کرپاتی ۔ معاملہ جیلوں کی حفاظت کا ہو یا پولیس ہیڈ کوارٹر کا،پولیس جس کی ذمہ داری عوام کے جان و مال کی حفاظت ہے اس کی حفاظت بھی فوج کرتی ہے ۔

بات یہاں تک محدود نہیں وزیر اعظم یا صدر کی حفاظت کا معاملہ ہو یا سیاسی جماعتوں میں مفاہمت کا فریضہ بھی پاک فوج سر انجام دیتی نظر آتی ہے ۔ اس حالیہ بحران کو ہی لے لیجئے ۔ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان مفاہمت ، سینٹ اور قومی اسمبلی کی عمارات کی حفاطت پر فوج کو معمور کیا گیا ۔ فوج ہی کی وجہ سے یہ عمارات توڑ پھوڑ سے محفوظ رہی ۔ جب حکومت نے نہتے لوگوں پر طاقت کے استعمال کا آغاز کیا تو فوج نے ہی حکومت کو طاقت کے استعمال سے روک دیا ۔ جس کی وجہ سے کئی لوگوں کی جان بچ گئی ۔ وہ تمام سیاستدان جو فوج کے خلاف بات کرتے اور فوج کو سر حدوں تک محدود رکھنے کی بات کرتے ہیں انھیں اس مشکل وقت میں از خود اس بحران کو حل کرنے کی کوشش کرنا چاہیے تھی اور اپوزیشن سے بات چیت کر کے معاملات کو حل کرنا چاہیے تھا تاکہ فوج کی ضرورت ہی نہ پڑتی ۔اور اگر حکومت نے اپنے فرائض میں کوتاہی نہ برتی ہوتی توعوام اس حد تک مجبور ہی نہ ہوتے کہ سڑکوں پر احتجاج کرتے یا اس قدرطویل دھرنے کی ضرورت تھی ۔

عوام کا ان اداروں خصوصا سیاستدانوں پر سے اٹھتے ہوئے اعتمادان اداروں کی نااہلی اور سیاستدانوں کا اپنے وعدوں سے مکر جانا ہے ۔ سیاستدان جو عوام کا ووٹ لے کر اور عوام سے کئی طرح کے وعدے کرکے جب اقتدارکے ایوانوں میں بیٹھتے ہیں تو اسی عوام کو بھول جاتے ہیں ۔اسی عوام کے پیسے (ٹیکس ) سے عیاشی کرنے والے انھی کو نجس خیال کرتے ہیں اور اکثرعوام کی مشکلات میں یہ عوامی نمائندے کہیں نظر نہیں آتے ۔ جہاں ان کی ضرورت ہوتی ہے یہ لوگ وہاں بھی نہیں پہنچ پاتے۔اگر پہنچتے بھی ہیں تو بھی ان کی امداد کا دائرہِ کار ان بے بس لوگوں کے احوال کا فضائی جائزہ لینے تک ہی محدود رہتا ہے ۔ چاہے وہ سیلاب زدگان ہوں یا قحط سے بلکتے بچے یہ عوامی نمائندے ان کی مدد کو نہیں پہنچتے ۔اور سیکیورٹی اداروں کا یہ حال ہے کہ پولیس اپنی عمارتوں اور ملکیت کی حفاظت خود نہیں کرسکتی ، یہ بھی فوج ہی کرتی ہے ۔ اگر ہر مشکل کا حل فوج کے پاس ہے تو کسی کو فوج پر تنقید کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ۔اس صورت حال میں عوام ایسے اداروں پر کس طرح سے اعتماد کر سکتے ہیں جہاں رشوتستانی ، اقربا پروری اور کرپشن کا دور دورہ ہو ۔

ارض ِ وطن کے تمام اداروں میں فوج وہ واحدادارہ ہے جو اپنے فرائض کے ساتھ ساتھ دوسرے اداروں ، کے فرائض بھی سر انجام دے رہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ فوج اس ملک کا طاقت ور ترین اور قابل ِاعتبار ادارہ ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جب کوئی فوجی جرنیل جمہوریت کی بساط الٹتا ہے تو عوام اس پر اندھا اعتماد کرتے ہیں اور اس کا ساتھ دیتے ہیں کیونکہ جمہوریت کبھی بھی عوام کو وہ سب فراہم نہیں کر پائی جس کا ان سیاستدانوں نے وعدہ کیا ۔ عوام یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ جمہوریت کی نسبت آمریت بہتر ہے جس میں کم از کم ان کی جان و مال تو محفوظ ہیں ۔ عوام کا اعتماد ان اداروں پر بحال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر ادارہ اپنے فرائض منصبی احسن طریقے سے سر انجام دے ۔ ادارے بالعموم اور سیاست دان بالخصوص اپنے رویے کو تبدیل کریں ۔ وہ سیاست دان جو عوام کی ووٹ سے منتخب ہو کر ایوان اقتدار میں پہنچتے ہیں انھیں عوام کے لیے اپنے مفاد سے بالا تر ہو کر کام کرنا ہوگا۔ اور عوام کی ہر مشکل میں انھیں فضائی دوروں کی بجائے عملی طور پر عوام کا ساتھ دینا ہو گا ۔ قدرتی آفقت کی صورت میں ان عوامی نمائندوں کو عوام کے ساتھ عملا کھڑا ہونا ہو گا ۔ عوام کے مسائل کے حل کے لیے ٹاک شوز کی بجائے اداروں کو مستحکم کریں اور تمام اداروں میں سے سیاسی اثراندازی کو ختم کریں ، کرپشن اور بدعنوانی کا خاتمہ کریں کہ عوام کا پارلیمنٹ پر کھویا ہوا اعتماد بحال ہو ۔

اگر ہر ادارہ اپنے دائرہ ِ کار میں رہتے ہوئے عوام کو وہ سب کچھ فراہم کرے جس کا آئین ان کو حق دیتا ہے۔تو کوئی شک نہیں کہ عوام کا اعتماد ان اداروں پربھی بحال ہو جائے گا۔
Maemuna Sadaf
About the Author: Maemuna Sadaf Read More Articles by Maemuna Sadaf: 165 Articles with 164584 views i write what i feel .. View More