حالیہ نواز مودی ملاقات میں”امن کی آشا کا کردار“

وزیر اعظم نواز شریف نے حال ہی میں اپنے دورہ بھارت میں اپنے ہم منصب سے ہونے والی ملاقات کو انتہائی مثبت قرار دیا ۔گو کہ پڑوسی ملک میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت کے بارے میں اندرون بھارت رہنے والے مسلمانوں بالخصوص پاکستانیوں میں سخت خدشات ظاہر کئے جا رہے تھے۔ نریندر مودی نے نواز شریف کووزارت عظمیٰ کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی دعوت دے کر اپنے اقتدارکا آغاز خوش گوار ماحول میں کیا ۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کا پاکستان کے بارے میں ہمیشہ سخت موقف رہا ہے اور وہ پاکستان کو مسلسل تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ ان کی پہچان ایک انتہا پسند اور مسلم دشمن رہنما کی حیثیت سے چلی آرہی ہے۔ گجرات کے مسلم کش فسادات کے پس پردہ ان کا نام لیا جاتا رہا ۔ بھارت میں بعض مسلم حلقے اس خدشے کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ اگر نریندر مودی برسراقتدار آگئے تو نہ صرف ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کی زندگی مشکل بنا دیں گے بلکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں مزید تناﺅ پیدا ہو جائے گا۔

یہ امر پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ بھارت کے 15ویں وزیر اعظم کی حیثیت سے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے والے نریندر مودی نے حالیہ انتخابات میں کامیابی ہی پاکستان مخالفت کی بنیاد پر حاصل کی تھی ۔ پاکستانیوں کی ایک غالب اکثریت سمجھتی ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) دراصل جنگجویانہ ہندو نسل پرستی کی قائل تنظیم آر ایس ایس کا ایک سیاسی چہرہ ہے جو ہندو طرز زندگی کی وکالت اور کشمیر میں مسلمان حریت پسندوں کی سرگرم مخالف رہی ہے۔مسلمانوں میں پریشانی کی وجہ راشٹریا سیوک سنگھ ( آر ایس ایس) کی رہنمائی میں سنہ 1992 میں بابری مسجد کو مسمار کرنے اور 2002 میں گجرات کے فسادات ہیں جن کے دوران ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ تاہم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی انتخابات میں فتح سے پاکستان میں جس قدر فکر مندی دیکھنے میں آئی ، نواز شریف کے دورہِ بھارت کے فیصلے سے اسی قدر جوش و جذبہ بھی دکھائی دیا۔ایسا صرف پاکستان میں نہیں ہوا بلکہ بھارتی عوام کی ایک بڑی تعداد نے بھی اسی جوش و جذبہ کا اظہار کیا ہے۔

بلا شبہ مودی نے وزیراعظم پاکستان کو تقریب حلف برداری میں شرکت کی دعوت دے کر ان حلقوں کے خدشات کو دور کر دیا جو ان کی حکومت بننے کی صورت میں دونوں ملکوں کے درمیان شدید اختلافات اور خدشات کا اظہار کرہے تھے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نے بھی یہ ثابت کیا ہے کہ وہ بطور حاکم معاملات کو جذبات کے بجائے زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے چلائیں گے۔ مودی نواز شریف کے استقبال کے لیے تو اپنے دفتر سے باہر آگئے تھے جسے نہ صرف پاکستان بلکہ خود ہندوستان کے اعتدال پسند حلقوں میں بہت سراہا گیا ۔ تاہم بھارتی وزیر اعظم کو امن کے اس راستے کی نشاندہی کرنے والی بھارتی یا پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نہیں بلکہ دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان اس احساس کی موجودگی ہے کہ ہم لوگ بہت لڑ لئے اور اب اپنے اپنے عوام کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لئے ہمیں اپنے اختلافات کو پر امن طریقہ سے حل کرنا ہوگا۔یہی وہ سوچ ہے جس کے قیام کےلئے پاکستان اور بھارت کے دوبڑے میڈیا گروپس ایک عرصہ سے جدوجہد کر رہے ہیں۔

جنگ /جیو ٹی وی اور ٹائمز آف انڈیا نے جب شدید کشیدگی کے ماحول میں امن کی آشا کا دیپ جلایا تو دونوں گروپوں کو اپنے اپنے ملکوں میں انتہا پسندانہ اور مذہبی شدت پسندوں کی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔اس وقت سے ہی انہیں ملک دشمن اور غدار کے القابات سے نوازا جاتا رہاہے، تاہم دونوں گروپوں میں موجود محب وطن اور دور اندیش عناصر اس حقیقت کو پہنچ چکے تھے کہ دونوں ممالک میں اپنے اپنے مفادات اور سیاسی دکانداری چمکانے والے عناصر کو صرف اس صورت میں شکست دی جا سکتی ہے جب عوام سے عوام کے رابطوں میں تیزی لائی جائے اور دونوں ملکوں کے عوام کو ایک دوسرے کے ملکوں میں جا کر ان کے حقیقی جذبات کو دیکھنے اور سمجھنے کا موقع فراہم کیا جائے۔یہ جنگ/جیو اور ٹائمز آف انڈیا ہی ہیں جن کی کوششوں سے دونوں ملکوں کے صحافی گروپوں کے تبادلے ممکن ہوئے۔ دونوں میڈیا گروپوں نے صنعت و تجارت سے وابستہ شخصیات کی آپس میں آزادانہ نقل وحرکت کی حوصلہ افزائی کی۔اپنے اپنے ملک کے بڑے میڈیا گروپ ہونے کے باعث ان کی جانب سے دونوں ممالک کے عوام کو دیا گیا پیغام زیادہ موثر ثابت ہوا ہے۔

حکمران جماعت کے ترجمان پرکاش جاوڑیکر نے وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے فیصلے پر اپنی پارٹی رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ” بی جے پی کو نواز شریف کے بھارت آنے کے فیصلے پر انتہائی خوشی ہے‘ ان کا دعوت نامہ قبول کرنا اچھی خبر ہے،یہ دونوں ممالک کے تعلقات کا نیا آغاز ہے، پاکستان ہمارا پڑوسی ملک ہے اس دورے سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید بہتر بنانے میں مدد ملے گی“ ۔ یہ صورت حال اس امر کا واضح اشارہ ہے کہ نریندر مودی پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے پر توجہ دے رہے ہیں۔وزیراعظم نوازشریف نے بھارت روانہ ہونے سے پہلے151بھارتی ماہی گیروں کو رہا کرنے اور ان کی کشتیاں ان کے سپرد کرنے کا اعلان کر کے پاکستان کی طرف سے خیر سگالی کے زبردست جذبے کا اظہار کیا جس کا نریندر مودی نے فوراً خیر مقدم کیا اور اس پر شکریہ ادا کیا۔نریندر مودی کی جانب سے حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لئے دی گئی دعوت کے تحت پاکستانی وزیر اعظم کی ہندوستان میں موجودگی بی جے پی کی اتحادی شیوسینا کے لئے بھی حیرت کی بات ہے۔ تا ہم ہندو انتہا پسند او رکٹر پاکستان مخالف جماعت شیوسینا نے وزیراعظم نواز شریف کے دورہ بھارت پر خاموشی اختیار کر لی ہے۔

یہ سوچ یقینی طور پر ایک احمقانہ طرز عمل ہوگی کہ جنگ/جیو اور ٹائمز آف انڈیا نے دونوں ممالک کے درمیان امن و آشتی ،بھائی چارے اور اچھے پڑوسیوں جیسے تعلقات کی تخلیق کےلئے جن کوششوں کا آغاز کیا تھا ان کے نتیجے میں ہی دوطرفہ تعلقات میں بہتری آگئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ 67برسوں کے دوران دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کی جو دانستہ و نادانستہ کوششیں کی گئی تھیں ان کااثر زائل ہونے میں وقت درکار ہے۔ تا ہم یہ بات پوری ذمہ داری سے کہی جا سکتی ہے کہ” امن کی آشا“ کے آغاز کے نتیجے میں دونوں ممالک کے اعتدال پسند طبقوں میں یہ سوچ پیدا ہو چکی ہے کہ ہمیں بہر کیف اب مذاکرات کی میز پر آنا ہو گا ۔ بھارت کے کئی عالمی شہرت یافتہ مصنفین اپنے کا لموں میںامن کے فروغ پر زور دے رہے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ انتہائی نظریات رکھنے والے پاکستانی میری اس رائے سے اتفاق نہیں کریں گے کیونکہ ان کے نزدیک بی جے پی اور اس کی حلیف راشٹریہ سیوک سنگھ کا ماضی ہے۔ بی جے پی نے ہمیشہ اسلام اور مسلمان مخالف سرگرمیوں اور کارروائیوں کی مکمل حوصلہ افزائی کی۔ بلا شبہ ان جماعتوں کے مسلم مخالف نظریات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔تاہم نہ تو پورا بھارت ان کا ووٹر تھا اور نہ ہی نئی حکمراںجماعت کو اپنے نظریات اور پالیسیوں پر عمل درآمد سے کوئی روک سکتا تھا۔ یہ بھارت کا وہ اعتدال پسند طبقہ ہی ہے جس کو پیش نظر رکھتے ہوئے نریندر مودی جی نے اپنے عہدے کا حلف اٹھاتے ہی اپنی سابقہ پالیسی پر یو ٹرن لیا۔ساری دنیا کے امن پسند حلقے اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ جنگ/جیو اسر ٹائمز آف انڈیا کی جانب سے مشترکہ طور پر شروع کی گئی ”امن کی آشا“ تحریک نے نہ صرف دونوںملکوں بلکہ دنیا بھر میں رہنے والے بھارتی اور پاکستانی باشندوںمیں امن و آشتی کے لئے آگہی اور امن کی خواہش کو فروغ دیا ہے۔

بھارت کی طرف سے وزیراعظم محمد نوازشریف کو تقریب حلف برداری میں شرکت کا دعوت نامہ نہ صرف پاکستان اور بھارت بلکہ عالمی حلقوں کے لئے بھی خوشگوار حیرت کا باعث بنا۔بھارتی میڈیا ، تجزیہ کاروں اور دانشوروں نے بھی اس دعوت نامے کو بڑی سنجیدگی سےپرکھا،اکثر حلقوں کو یہ ایک سیاسی پینترا نظرآرہا تھا۔ تا ہم اس کی سچائی جاننے کے بعدکسی نے اسے محض رسمی دعوت نہیں قرار دیا۔ ہر ایک کے خیال میں نریندر مودی نے کمال دانشمندی سے پورے خطے اور عالمی دنیا کو ایک واضح پیغام دیا ہے۔ بھارتی اور عالمی میڈیا میں اس کا تجزیہ کیا جا رہا ہے کہ اس کے پاک بھارت تعلقات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اور کیا دونوں ممالک کے مابین موجود برف پگھل رہی ہے؟ در حقیقت اس کا کریڈٹ نریندر مودی کے ساتھ ساتھ نواز شریف کو بھی جاتا ہے جنہوں نے اس دعوت کو قبول کر کے یہ پیغام بھیجا کہ پاکستان امن کوششوں کی قدر کرتا ہے۔برصغیر کی تقسیم کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ کسی ملک کے سربراہ حکومت نے کسی دوسرے ملک کے سربراہ مملکت کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی ۔پہلی ملاقات کے بعد کوئی بڑا بریک تھرو نہیں ہوا لیکن وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے توقع ظاہر کی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان مستقبل میں خوشگوار تعلقات قائم ہو جائیں گے۔ بھارتی ٹی وی کو خصوصی انٹرویو میں نوار شریف نے کہا کہ دورہ بھارت ایک دوسرے کے قریب آنے کا بہترین موقع ہے۔.خود نریندر مودی نے بھی پاکستان سے تعلقات کی بہتری کے لئے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔دہشتگردی کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کرنے کے باوجود وہ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ پاکستان سے اچھے تعلقات بھارت کی مجبوری ہے کیونکہ پڑوسی بہر کیف تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔

پاکستانی سیا سی رہنماﺅں کو یہ حقیقت بھی تسلیم کرنی چاہئے کہ نریندر مودی کو بھی پاکستان سے دوطرفہ تعلقات بہتر بنانے پر اپنے ملک میں سخت گیر موقف رکھنے والے سیاسی رہنماﺅں کی ناراضگی کاسامنا ہے۔اس حقیقت کو دیکھتے ہوئے محب وطن سیاسی و مذہبی رہنماﺅں کو اپنے موقف پر اصرار کرنے کی بجائے نہ صرف نواز حکومت کو امن کے قیام کے لئے ایک موقع اور دینا چاہئے بلکہ پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے لئے تمام سیاسی اختلافات کوپس پشت رکھ کر ان کے شانہ بہ شانہ موجود رہنا چاہئے۔انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ امن کے لئے یہ آخری موقع بھی ہو سکتاہے۔ایک حوصلہ افزا حقیقت یہ ہے کہ نریندر مودی کی جماعت نے تن تنہا بھاری پارلیمانی اکثریت حاصل کی ہے جس کے پیش نظر انہیںاپنے اتحادیوںکی ناراضگی پر بلیک میل ہونے کا خدشہ نہیں ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے سابق سخت گیر صدراٹل بہاری واجپائی نے بھی اپنے دورِ حکومت میں پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کی پالیسی اپنائی تھی۔کشمیر کے حوالے سے بھی بات ہوئی اور ان کی سخت سوچ تبدیل ہوئی اس میں وزیراعظم میاں نوازشریف کا اہم کردار تھا۔اب نریندرمودی سے بھی یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنی پارٹی کے سابق سربراہ کی پالیسی پر عمل کریں گے۔ اگرنریندرمودی مسئلہ کشمیر،پانی کی منصفانہ تقسیم اور سیاچن پر ڈائیلاگ شروع کرنے پر رضامند ہو جاتے ہیں تو یہ قابل قدر عمل ہو گا۔ اس کے نتیجے میںتجارت کا معاملہ بھی بہترہو گا اوردونوں ملکوں کے درمیان تناﺅبھی ختم ہو گا۔ تاہم ابھی اس مرحلہ کی آمد میں وقت لگے گا۔ یہ امر بھی حوصلہ افزاہے کہ دونوں ممالک میں اپوزیشن پارٹیوں یعنی پاکستان میں پیپلز پارٹی اور ہندوستان میں اندرا کانگریس نے روایتی اپوزیشن سے ہٹ کر دو طرفہ تعلقات کی بحالی کے لئے دونوں حکومتوں کی کوششوں کا خیرمقد م کیا ہے۔ توقع کی جا سکتی ہے کہ جنگ/جیو اور ٹائمز آف انڈیا نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری کے لئے”امن کی آشا“ کے ذریعے جن کوششوں کاآغاز کیا تھا دونوںممالک کے سیاسی رہنماءبھی اسی راہ پر گامزن ہو کر تقریباً ڈیڑھ کروڑ افراد کے خوابوںکو ان کی تعبیر فراہم کرنے میں معاونت کریں گے۔

بھارت سے دوستی کی کوششوں کی اہمیت بالخصوص ایسے وقت مزیدبڑھ جاتی ہے جب پاک فوج کے جوان جنوبی وزیرستان میں انتہا پسندوں کے خلاف حتمی لڑائی میں مصروف ہیں۔یقینی طور پر دہشتگردی کے خلاف یہ لڑائی پاکستان کے بہتر مستقبل کےلئے نئی سمت متعین کرے گی۔ ایسے وقت جب پاکستانی عوام اپنی بہادر افواج کے پس پشت موجود ہیں تو ہمارے پڑوسیوں کی جانب سے فراہم کئے جانے والے تعاون کو بھی قدر کی نظر سے دیکھا جانا چاہئے ۔ یہ امر خوش کن ہے کہ حکومت پاکستان کی کوششوں سے بھارتی قیادت نے بھی دہشتگردی کے خاتمے کےلئے پاکستانی حکومت کو یقین دہانی کرائی ہے۔ حکومت پاکستان پڑوسی ممالک کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہی ہے کہ دہشتگردی کے خلاف اس لڑائی میں ہماری کامیابی سے پڑوسی ممالک کو بھی تحفظ حاصل ہو گا۔ جنگ/جیو اور ٹائمز آف انڈیا طویل عرصے سے اسی سوچ کو پروان چڑھانے کےلئے جدوجہد کر رہے تھے۔ مقام شکر ہے کہ اب دونوں پڑوسی ممالک میں کم از کم عوامی سطح پر یہ احساس پیدا ہو چکا ہے کہ اب ہمیں اپنے وسائل جنگ کی بجائے ترقی پر صرف کرنے ہیں۔ اگر راقم کے اس تجزیہ میں رتی برابر بھی حقیقت ہے تو جنگ/جیو اور ٹائمز آف انڈیا کی جانب سے امن کی آشا کےلئے جلائے جانے والے دیپ کا اعتراف کرتے ہوئے اسے فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
(یہ آرٹیکل25جون کو روزنامہ جنگ میں شائع ہو چکا ہے )
syed yousuf ali
About the Author: syed yousuf ali Read More Articles by syed yousuf ali: 94 Articles with 77814 views I am a journalist having over three decades experience in the field.have been translated and written over 3000 articles, also translated more then 300.. View More