ذہنی بیمار دانشور
(Saleem Ullah Shaikh, Karachi)
ایاز امیر ایک کہنہ مشق صحافی
ہیں۔ آپ کی خاص بات یہ ہے کہ آپ لبرل ازم اور روشن خیالی کے پردے میں اسلام
کے خلاف باتیں کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔ ہفتہ 18 اکتوبر
کو بھی اپنے کالم ’’نیا پاکستان نئے تقاضے ‘‘ میں آپ نے ایسی ہی باتیں بیان
کیں ہیں۔
اپنے کالم کے آغاز میں آپ لکھتے ہیں کہ ’’ کیا اس نئے پاکستا ن میں منافقت
جس کی فعالیت ہمارے یہاں سب سے زیاہ ہے کو دیس نکالا دیا جائے گا یا پھر
حسبِ معمول بظاہر نیکی اور پرہیز گاری اور اندر سب چلتا ہے کا فارمولہ
مستعمل رہے گا۔‘‘
سب سے پہلے اس بات پر بات کرلی جائے کہ منافقت کیا ہوتی ہے؟ تاریخ اسلام کے
مطالعے سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ منافق دراصل وہ لوگ تھے جو کہ مدینہ
میں نبی اکرم ﷺ کی آمد سے خوش نہ تھے، یہ لوگ اسلام کے مخالف تھے لیکن
مصلحتاً انہوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ لیا اور در حقیقت یہ لوگ اسلام اور
مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہے اور مسلمانوں کے مقابلے میں کفریہ طاقتوں
کا ساتھ دیتے رہے‘‘ اب اس کی روشنی میں بہ آسانی فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ
منافق دراصل کون ہے؟۔ انگریزی مقولہ ہے کہ Offence is the best defence
یعنی حملہ کرنا سب سے بہتر ین دفاع ہے۔اسی حکمتِ عملی کے تحت گروہ منافقین
بڑھ چڑھ کر عام مسلمانوں پر حملہ آور ہوجاتے ہیں اور وہ بیچارے وضاحتیں پیش
کرتے، دفاع کرتے رہ جاتے ہیں۔
کراچی کے نائٹ کلبوں میں مشرق و مغرب کی حسیناؤں کا رقص ہوتا تھا جبکہ
لاہور میں فلیٹی ہوٹل کے فلور پر ہونے والی سرگرمیوں کی تشہیر پاکستان
ٹائمز کے صفحہ 3پر باقاعدگی سے کی جاتی تھی۔اب محترم سے سوال کیا جاسکتا ہے
کہ نائٹ کلب چلانا، حسینوں کا رقص ہونا کون سا اسلام ہے؟ یہ دراصل آپ جیسے
منافقین جو بظاہر مسلمان لیکن درحقیقت اسلام دشمنی لوگوں کی سرگرمیاں ہیں،
ان کو آپ اسلام سے کیو ں جوڑتے ہیں۔ بقول آپ کے مسجد میں پانچ وقت کی اذان
کی آواز گونجتی اور شام ڈھلے ہی بازارکی فضاء گہری ہونے لگتی ، بند دروازوں
کے پیچھے سے گانے اور طبلے اور گھنگھرؤں کی جھنکار، درزدیدہ نظروں سے
جھانکنا اور منچلوں کے قہقہے ماحول کو گرماجاتے‘‘ ۔ محترم ایاز امیر صاحب
یہ بات بھولے نہیں بلکہ قصداً نظر انداز کرگئے کہ اسلام پہلے برائی کا
دروازہ بند کرتا ہے اس کے بعد کسی حد کو جاری کرتا ہے۔ آپ برائی کا دروازہ
تو بند نہیں کرنا چاہتے لیکن جب کوئی اس برائی کی دلدل میں پھنس جاتا ہے تو
اس پر فوراً منافقت کا لیبل چسپاں کردیتے ہیں، آپ نہ صرف خود گناہ کرنے پر
آمادہ ہیں بلکہ گناہ کی ترویج کا فریضہ سر انجام دینے اور برائی کو عام
کرنے پر کمر بستہ ہیں، چونکہ اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے اس لیے
قرآن، حدیث، سیرت طیبہؐ اور خلفائے راشدین ؓ کے دور کی کوئی مثال سامنے
لانے کے بجائے کراچی اور لاہور مثالیں پیش کرکے لوگوں کو بیوقوف بنانے کی
کوشش کررہے ہیں، ہمارے لیے کراچی ، لاہور کی کوئی مثال یا عباسی و اموی دور
خلافت حجت نہیں ہے بلکہ ہمارے لیے حجت قرآن و سنت اور اس کے بعد خلفائے
راشدین ہیں۔
آگے چل کر آپ لکھتے ہیں کہ ’’ اسلام کا سنہری دور عباسی دور تھا اور اس دور
کی سرگرمیوں کا خواص کے ساتھ عوام کو بھی علم ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے دو
کتابوں کا ذکر کرتا ہوں، ہیوگ کینڈی کی The court of caliph اور بنسن بوبرک
کی The caliph's slender ۔ حیرت انگیز بات ہے کہ آپ تاریخ اسلام کی بات
کرتے ہیں لیکن کسی مسلم مفکر یا مؤرخ کو اس لائق نہیں سمجھتے کہ ان کا
حوالہ دیا جائے بلکہ آپ اس کے لیے مغربی لادین مصنفین کو معتبر سمجھتے ہیں
۔ اوپر بیان کی گئی منافق کی تعریف کو سامنے رکھیں اور پھر یہ حوالہ بھی
سامنے رکھیں تو پھر یہ واضح ہوجاتا ہے کہ منافق کون ہے؟۔دوسری بات کہ یہاں
بھی آپ کی منافقت اور دین بیزاری اپنے عروج پر نظر آتی ہے کہ پورے عباسی
دور خلافت میں آپ کو صرف جواں سال کنیزوں کی ہی مثال پیش کرسکے، حالانکہ
فقہ کی تدوین و تدریج، علم ادب، شعر سخن اور فن تعمیر کے حوالے بہت کچھ پیش
کیا جاسکتا تھا لیکن ایک ذہنی بیمار فرد کی نظر صرف جواں سال کنیزو ں اور
شراب پر ہی جاکر ٹھہری اس مکھی کی طرح جو صاف ستھرا ماحول چھوڑ کر صرف
گندگی پر ہی بیٹھنا پسند کرتی ہے۔ لبرل اور روشن خیالوں کا مسئلہ بڑا عجیب
و غریب ہے، جب یہ لوگ تاریخ اسلام کا مضحکہ اڑانا چاہیں ، یا مسلمان
حکمرانوں کی خرابیاں بیان کریں تو سب سے پہلے وہ یہی کہتے ہیں کہ مسلمان
صرف عیاشی میں پڑے رہے ، لہو لعب میں وقت گزارتے رہے اور انہوں نے جدید
علوم اور تعلیم کی ترقی کے لیے کچھ نہ کیا ، لیکن جب مسلم تاریخ کا یہی رول
ماڈل ان کو سب سے زیادہ پسند بھی آتا ہے اور اس کی وہ مثالیں بھی پیش کرتے
ہیں جیسا کہ ایاز امیر صاحب نے کیا ہے۔ ویسے عباسی خلیفہ منصور ہی کا واقعہ
گوش گزار کرنے کی جسارت کروں گا ’’ منصور کے گھر میں کبھی لہو لعب کے مشابہ
چیز کا بھی گذر نہ ہوا۔ ایک مرتبہ اس کے محل میں ایک غلام طنبور بجا رہا
تھا اور لونڈیاں قہقہے لگا رہی تھیں، اس کے کانوں تک آواز پہنچی ، پوچھا یہ
کیا ہے؟ بتایا گیا طنبور، لیکن اس کو یہ طنبور کو بھی نہ جانتا تھا، پوچھا
طنبور کسے کہتے ہیں؟ اس کی وضع و ہیٔت بتائی گئی، منصور اسی وقت اٹھا اور
طنبور بجاے والے کے سر پر طنبور توڑ کر اسی وقت اس کو نکال دیا۔ ( مروج
الذہب، مسعودی بحوالہ تاریخ اسلام جلد سوم از شاہ معین الدین ندوی )۔ عباسی
خلفاء کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ یہ لوگ ملحدوں، زندیقوں کے سخت دشمن
تھے، اور ان کا قلع قلع کرکے ہی دم لیتے تھے، عباسی دور خلافت میں کئی
فتنوں نے سر اٹھایا مثلاً بابک خرمی، محمد نیشا پوری وغیرہ اور ان تمام
فتنوں کو عباسی خلفاء نے ہی ختم کیا۔ اس کا ذکر کرنا آپ نے مناسب نہیں
سمجھا گیا۔
آگے آپ لکھتے ہیں کہ اگر واقعی نیا پاکستان بنایا جائے تو اس میں عقیدے کے
نام پر روا رکھی جانے والی منافقت کو ختم کرنا ہوگا‘‘۔ جناب عالی ! ابھی آپ
عباسی دور کو اسلام کا سنہرا دور قرار دے رہ تھے اور اب یہ بات کہہ رہے ہیں
۔ عباسی خلافت تو قائم ہی عقیدے اور انتقام کی بنیاد کی کی گئی تھی، اسی
دور میں مخالفین کا قتل عام کیا گیا، حتیٰ کہ ان کی قبروں تک کو اکھاڑ کر
ہڈیوں کو جلایا گیا، لاشوں کا مثلہ کیا گیا۔ یقیناً یہ سب کچھ آپ کے علم
میں ہوگا لیکن یہ آپ کی منافقت اور مکاری ہے کہ آپ اپنی من پسند باتوں کی
مثالیں دیکر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ کیا عباسی دور کو واقعی
اسلام کا سنہری دور کہلایا جاسکتا ہے؟ اگر یہ اسلام کا سنہری دور ہے تو پھر
اگر طالبان، داعش یا بوکو حرام یہ کام کریں تو ان کی مخالفت کیوں؟ ۔ ہمارے
لیے نہ تو طالبان و داعش کوئی قابل عمل مثال اور حجت ہیں اور نہ ہی عباسی
خلافت بلکہ اسلام کا سنہری دور پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرتِ پاک
اور اس کے بعد خلفائے راشدین کا دور ہے، جس میں عوام کی فلاح و بہبود کے
کام کیے گئے، اسلام کی سلطنت کو وسعت دی گئی، بد ترین مخالفین کو معاف کیا
گیا، اس کے بعد کی تاریخ اسلام کا حصہ ضرور ہے لیکن اس کی ہر بات ہمارے لیے
قابل قابل تقلید اور حجت ہر گر ہرگز نہیں ہے۔
آگے آپ عمران خان کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’انہوں نے خواتین کے
لیے عملی سیاست کے دروازے کھولے۔۔۔۔اور۔۔آج ان کے جلسوں اور دھرنوں میں
نوجوان لڑکیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی ہے۔‘‘ حیرت ہے کہ طاہر القادری کی
تعریف تو بہت کرتے ہیں لیکن ان کے جلسوں اور دھرنوں میں خواتین کا ذکر کرنا
آپ بھول گئے، اس کے علاوہ قارئین کو یہ بتانا بھی آپ نے ضروری نہیں سمجھا
کہ جماعت اسلامی کی خواتین عرصہ دراز سے عملی سیاست میں سرگرم عمل ہیں اور
وہ قومی ، صوبائی اور شہری حکومتوں کی سطح پر فعال کردار ادا کرچکی ہیں، جب
کہ جماعت اسلامی کے جلسوں اور ریلیوں میں بھی خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد
شریک ہوتی ہے، لیکن فرق یہ ہے کہ طاہر القادری اور جماعت اسلامی کے جلسوں
اور ریلیوں میں خواتین الگ حصے میں ہوتی ہیں، ان میں 80فیصد خواتین باپردہ
ہوتی ہیں، اور وہاں مخلوط پروگرامات نہیں ہوتے ، یہ بات موصوف کی
بیمارذہنیت کے لیے قابل قبول نہیں ہے اس لیے انہیں صرف عمران خان کے جلسوں
میں تھرکتی ، جھومتی ، بے پردہ نوجوان لڑکیاں ہیں نظر آئیں اور انہی کا ذکر
کیا گیا۔
آگے چل کر ایک بار پھر بوبرک کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ اگرچہ
قرآن میں الکوحل کی ممانعت ہے لیکن بغدادی دربار میں مشروب ِ خاص اور
کنیزیں رقص کرتی تھیں‘‘ کتنی عجیب بات ہے کہ ایاز امیر صاحب نے مضمون میں
تاریخ اسلام کا جو بھی حوالہ دیا وہ مغربی ، غیر مسلم مؤرخ کا اور اس میں
بھی صرف ناچ گانے، راگ رنگ کی مثالیں پیش کرسکے ہیں۔ یہ ساری باتیں ان کی
دین بیزاری ،ذہنی بیماری اور منافقت و عیاری کو ظاہر کررہی ہیں لیکن پھر
بھی منافقت کی بھپتی دوسروں پر کسی جاتی ہے۔
کالم کے آخر میں آپ لکھتے ہیں کہ ’’ اگر ہم نئے پاکستان کو طالبان سے بچانا
چاہتے ہیں ہمیں وہ سب کچھ کرنا ہوگا جس سے طالبان بدکتے ہیں‘‘ حالانکہ
اصولی طور پر یہ بات سراسر غلط اور خلافِ حقیقت ہے۔ اگر ہم پاکستان یا نئے
پاکستان کو طالبان سے بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں شریعت کا نفاذ کرنا ہوگا،
دینی تعلیم کو عام کرنا ہوگا اوربالخصوص نوجوانوں کو دین کی جانب راغب کرنا
ہوگا تاکہ وہ غلط ہاتھوں میں جانے سے بچ سکیں، اچھے برے میں تمیز کرسکیں ۔جب
ایسا ہوگا تو لوگ از خود طالبان، داعش یا کسی بھی غلط گروہ کے پاس جانے
بچیں گے اور خود ہی ان کا محاسبہ کریں گے ، لیکن اگر ہم لوگوں کو دین سے
دور کریں گے ، تو اس کا لازمی نتیجہ یہی نکلے گا کہ کوئی بھی انہیں دین کے
نام پر استعمال کرسکے گا۔
ہماری تمام لکھاریوں سے یہی گذارش ہے کہ اپنی دین بیزاری،، ناآسودگی اور
ذہنی بیماری کو روشن خیالی اور لبرل ازم کے پردے میں نہ چھپائیں اور منافقت
کو چھپانے کے لیے عام مسلمانوں کو منافق کہنے سے گریز کریں۔ |
|