تاریخ کا جبر
(Tariq Hussain Butt, UAE)
عمران خا ن پر آجکل ایک اعتراض
بڑے تواتر کے ساتھ لگایا جا رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ جس جماعت کا قائد
انقلاب اور تبدیلی کی بات کر رہاہو اسے سب سے پہلے یہ دیکھنا ہو گا کہ وہ
لوگ جو اس کے دائیں بائیں کھڑ ے ہیں وہ کون ہیں،ان کا ماضی کیا ہے ،ان کی
حقیقی زندگی کیسی ہے اور ان کی پہچان کیاہے ؟ یہ سوال بڑا اہم ہے اور آئیے
تاریخ کے صفحات سے اس کا جواب لینے کی کوشش کریں کیونکہ تاریخ کا کوئی دور
ایسا نہیں گزرا جس میں اس طرح کا سوال نہ اٹھا یا گیا ہو اور تاریخ نے خود
اس کا کوئی جواب نہ دیا ہو۔سچ تو یہ ہے کہ جب انقلاب اپنا راستہ بنانے لگتا
ہے تو وہ لوگ جو اس انقلاب کا ہراول دستہ بنتے ہیں وہ اسی معاشرے سے تعلق
رکھتے ہیں جس میں استحصال،نا انصافی ،دولت پرستی اور ظلم و جبر روز مرہ کا
معمول ہوتا ہے۔دوسرے افرادِ معاشرہ کی طرح انقلابی لوگ بھی ان معاشرتی
برائیوں کا شکار ہوتے اور انھیں برداشت کرتے ہیں لیکن ان کا حریت پسند دل
اس طرح کی نا انصافیوں پر کڑھتا رہتا ہے اور انھیں دل سے قبول کرنے کیلئے
تیار نہیں ہوتا۔جس طرح کی سوسائٹی ہوتی ہے اس طرح کے انسان بھی ہوتے ہیں،یہ
وصف صرف نبیوں کو حاصل ہوتا ہے کہ وہ سوسائٹی کے دوسرے افراد کی طرح نہیں
ہوتے بلکہ اپنی الگ پہچان اور کردار رکھتے ہیں اور ے راہرووں کی بستی میں
بھی وہ پاکباز، صادق،امین اور شرک سے پاک ہوتے ہیں۔ہاں یہ ضرور ہے کہ اسی
بے راہ رو معاشرے میں کچھ لوگ انسان دوستی اور تکریمِ انسان کے اعلی و ارفع
جذبوں کے حواہاں ضرور ہوتے ہیں لیکن معاشرے کے اندر رائج رسموں کا شکار ہو
کر اسی رنگ میں رنگ جاتے ہیں کیونکہ ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا
لہذا وہ بھی وقت کی رو میں بہتے چلے جاتے ہیں لیکن ان کا دل کسی ایسی آواز
کا منتظر ضرور ہوتا ہے جو ان قباحتوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے میدان
میں نکلے تاکہ وہ اس کے شانہ بشانہ اپنا حصہ اس میں ڈال سکیں ۔کسی قائد ،مصلح
یا ہادی کا کام اسی معاشرے میں دستیاب افراد سے نیا معاشرہ تشکیل دیناہو تا
ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ اسے امراء روسا ،غرباء ،کمزوروں اور محروموں کی
مدد سے ہی اپنے پروگرام کو عملی جامہ پہنانا ہوتا ہے لیکن اس کی تحریک کو
اسی وقت ہی کامیابی ملتی ہے جب معاشرے کے با اثر افراد اس کے کارواں کا حصہ
بنتے ہیں۔ہر قائدکو سب سے پہلے مخصوص افراد کی تربیت کیلئے پنی عمر کا ایک
طویل حصہ صرف کرنا پڑ تا ہے تاکہ ایک نیا معاشرہ قائم کیا جا سکے اور جب
ایسے کچھ افراد تیار ہو جاتے ہیں تو پھر ساری منزلیں آسان ہو جاتی ہیں۔یہ
پہلا مرحلہ بڑا جان لیوا ہوتا ہے کیونکہ افراد ِ معاشرہ نئی سوچ اور فکر کو
قبول کرنے اور اپنی لہو و لعب کی زندگی کو چھوڑنے کیلئے آمادہ نہیں ہوتے ۔زندگی
کی کشش اور موج مستیاں صراطِ مستقیم کی جانب قدم اٹھا نے کی راہ میں روک بن
کر کھڑی ہو جاتی ہیں اور وہ نئی سوچ کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہونے
دیتیں۔ہادی انھیں راہِ راست پر لانے کی کوشش کرتا ہے لیکن یہ لوگ مخالف سمت
میں نکل جاتے ہیں کیونکہ ان کے مفادات کا یہی تقاضہ ہوتا ہے کہ وہ اسے نظر
انداز کر دیں۔چند با اثر افراد کو اپنی فکر کا ہمنوا بنانا ہی کسی قائد کی
سب سے بڑی فتح ہوتی ہے۔ اور یہی چند افراد نئے معرکے کو فتح میں بدل دیتے
ہیں۔،۔
سرکارِ دو عالم حضرت محمد مصطفے ﷺنے اپنی زندگی کا پیشتر حصہ مکہ میں گزارا
اور تیرہ سال کی تبلیغ اور سخت جدو جہد کے بعد ایک انتہائی مختصر جماعت نے
ان کی آواز پر لبیک کہنے کیلئے آمادہ ہوئی۔ ان کی ایذا رسانیاں جب حدود نا
آشنا ہو گئیں تو انھیں اپنے ساتھیوں کے ساتھ مکہ کی جانب ہجرت کرنی پڑی اور
پھر وہاں پر وہ جماعت تیار ہوئی جس نے آنے والے زمانوں کیلئے اسلام کی فتو
حات کی بنیادیں رکھیں۔مدنی زندگی صرف ۱۰سالوں پر محیط ہے جبکہ اس کے نتائج
حیرت انگیز ہیں حالانکہ مکی زندگی ۵۰ سالوں پر محیط ہے لیکن اس میں مدنی
زندگی کے بر خلاف چند افراد ہی دولتِ اسلام سے بہرہ ور ہوئے ۔ مکی زندگی
میں وہ لوگ جو لوگ اسلام کی دولت سے سرفراز ہوئے ان میں غریبوں اور غلاموں
کے ساتھ ایسے لوگ بھی تھے جو اپنے معاشرے میں سرداروں کی حیثیت رکھتے
تھے۔ان میں حضرت عثمانِ غنی اور حضرت خد یجہ اۃلکبری اور حضرت ابو بکر صدیق
کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ان متمول افراد کی دولت نے اسلام کی اشاعت میں بڑا
اہم کردار ادا کیا۔غلاموں کو آزاد کروانا اور چاہِ آبِ زم زم کو مسلمانوں
کے لئے وقف کرنا اس کی نادر مثالیں ہیں۔کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو حلقہ بگوشِ
اسلام ہونے سے اس کے شدید مخالفین میں شمار ہوتے تھے لیکن بعد میں جب انھوں
نے اسلام قبول کر لیا تو ان کی ذات اسلام کی قوت میں بے پناہ اضا فہ کا
باعث بنی ۔حضرت خالد بن ولید،حضرت عمر بن ا لعاص،سعد بن ابی وقاص،ابو عبیدہ
بن جراح،ابو سفیان،حضرت عباس اور حضرت عمربن خطاب اس کی واضح مثالیں
ہیں۔سرکارِ دو عالم حضرت محمد مصطفے ﷺ نے جن دو افراد کے مشرفِ اسلام ہونے
کی حوا ہش کا اظہار کیا تھا وہ تھے عمرو بن ہشام اور عمر بن خطاب اور یہ
دونوں افراد معاشرے کے انتہائی با اثر افراد تھے۔ابو جہل تو سردارِ مکہ تھے
او ر مکہ میں اہم فیصلے ان کی رضا کے بغیر سر انجام نہیں پاتے تھے۔بعد میں
بہت سے متمول افراد اسلام کے دامن میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے لیکن ان
ساروں نے اسی فکر کے سامنے سرِ تسلیم خم کیا جسے اسلام لے کر آیا تھا اور
جس کا حکم خدااور اس کے پیغمبرنے دیا تھا۔ قائد کی زندگی چونکہ سب کیلئے
ماڈل ہوتی ہے لہذا کسی کا بڑا یا چھوٹاہونا کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ سب کو
قائد کی ہدائت پر عمل پیرا ہونا ہوتا ہے اور اسے ہی انقلاب کہتے ہیں-
چین کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔چین کے ماؤزے تنگ کے انتہائی قریبی ساتھیوں
میں ایک ساتھی کا نام چواین لائی تھا جن کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ چین
کے سب سے بڑے جاگیر دار تھے لیکن انقلاب کی حواہش ان کی سرشت میں تھی اس
لئے وہ ماؤزے تنگ کے ساتھ انقلابی کارواں کا حصہ بنے اور اس انقلا ب کو
برپا کرنے میں اپنی دولت کے منہ کھول دئیے جس کی حواہش ان کے دل میں کروٹیں
لے رہی تھی۔ روس کے مردِ آہن سٹالن کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کا تعلق ایک
انتہائی مفلوک الحال گھرانے سے تھا لیکن انقلاب سے اپنی کمٹمنٹ اور جرات سے
وہ لینن کے بعد سویت روس کے حکمران بنے۔ایک دفعہ روس کے اسی مردِ آہن سٹالن
کی ملاقات چین کے عظیم راہنما چواین لائی سے ہوئی تو چواین لائی نے روس کے
مردِ آہن سٹالن سے کہا کہ ہم دونوں نے اپنے اپنے قبیلے سے بے وفائی کی
ہے۔میں نے جاگیردار ہونے کے با وجو اپنے قبیلے سے بغاوت کی ہے جبکہ آپ نے
اپنے قبیلے سے بے وفائی کی ہے اور اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔پی پی پی کے
چیرمین ذولفقار علی بھٹو با ئیں بازو کے راہنما تھے جو غریبوں کو اقتدار
میں حصہ دار بنانا چاہتے تھے حالانکہ وہ خود بھی جا گیر دارتھے جبکہ ان کی
جماعت جاگیرداروں کے خلاف تھی اوزرعی اصلا حات نافذ کرنا چاہتی تھی ۔ ان کے
دائیں بائیں ایسے افراد تھے جو ملک کے بڑے بڑے جاگیر دار تھے جن میں غلام
مصطفے جتوئی،غلام مصطفے کھر،رسول بخش تالپو،مخدوم طالب المولی،احمد رضا
گیلانی اور مخدوم آفتاب جیلانی بڑے نمایاں تھے ۔تاریخ کا یہ جبر ہے جب کہ
ایک خاص کلا س کے لوگ عوامی امنگوں کی خاطر اپنی ہی کلاس کے خلاف جدوجہد
کرتے تو انقلاب کی منزل قریب تر ہو جاتی ہے۔اگر یہ لوگ انقلاب کا حصہ نہ
بنیں تو انقلاب کا سفر مزید دشوار گزار ہو جا تا ہے۔ذولفقار علی بھٹو کے یہ
سارے ساتھی سوشلسٹ پروگرام کے نفاذ میں اس کی ساری جدو جہد میں ان کے ساتھ
رہے ۔زرعی اصلاحات بھی ہوئیں اور صنعتوں کو قومیانے میں بھی لیا گیا لیکن
وہ سب ذولفقار علی بھٹو سے دور نہ ہوئے لہذا ثابت ہوا کہ کسی جماعت میں کون
کون شامل ہے اتنا اہم نہیں اگر اہم میں تو یہ کہ ان کا قائد کیا سوچتا ہے
کیونکہ آخری فیصلہ اس کی سوچ کے مطابق ہی ہونا ہوتا ہے۔ عمران خان کے دائیں
بائیں کون کھڑا ہے اہم نہیں ہے بلکہ اہم یہ ہے کہ عمران خان کا پروگرام کیا
ہے کیونکہ ان سب کو عمران خان کی سوچ کے سامنے انھیں سرِ تسلیم خم کرنا
ہے۔عمران خان کی سوچ ہی وی آئی پی کلچر کا خاتمہ اور نئے پاکستان کا قیام
ہے اور ان سب کو اس کے اس نعرے میں اس کا ساتھ دینا ہے،ان کی اپنی حیثیت
ثانوی ہے کیونکہ عوام کا تعلق ان سے نہیں بلکہ عمران خان کے ساتھ ہے۔،۔ |
|