جمہوریت وہ طرز حکومت ہے جس میں آئین کی
بالا دستی اور عوامی نمائندگان کے زریعے اختیارات کی تقسیم ہوتی ہے ۔ اس
نظام کے تحت عوام کو تمام بنیادی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ ہمارا وطن عزیز
پاکستان بھی اس جمہوری طرز عمل کے نتیجے میں دنیا کے عظیم نقشے پر ابھرا۔
لیکن سرسٹھ برس گزرنے کے باوجود بدقسمتی ہی سمجھ لیجئے ہمیں قائد اعظم کا
بدل نہ مل سکا اس طرح یہ جمہوری ملک اپنی اصل منزل کی طرف اسی طرح گامزن نہ
ہوسکا جو کہ قائد اعظم کی سوچ تھی۔ مسائل کے طوفان نے گھیرے ڈال لیے ۔
آخرکار وطن عزیز کو یک لخت دو ٹکروں کے شدید صدمے سے دوچار ہونا پڑا۔
جمہوری اقتدار حکمرانوں کو راس نہ آسکا اسی وجہ سے ملک کو مارشل لاء کے کئی
جھٹکے برداشت کرنا پڑے۔ ہمارے ملک میں جمہوی اقدار کیسے محفوظ ہوں جہاں
سیاست کو کاروبار کی حیثیت سے سمجھا جائے۔
ملک عزیز میں جاگیرداری کا عنصر بہت طاقت پکڑ چکا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے
جسے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ہماری معاشرت اور معیشت پر صدیوں سے جاگیرداری
نظام مسلط ہے۔ جہاں یہ نظام رائج ہو وہاں سیاسی سطح پربادشاہت یا آمریت ہی
قائم ہوتی ہے۔
اس طرح کا ماحول سیاست میں جمہوریت کے نام پر ایک سیاہ نشان کی حیثیت رکھتا
ہے۔جاگیرداروں کی اس جمہوریت سے جمہور کو ،کوئی فائدہ نہیں پہنچتا کیونکہ
خوش فہمی ہوتی ہے کہ ان کو اس نظام کے تحت فائدہ حاصل ہوگا۔انصاف کی بات تو
یہ ہے پاکستا ن کو وہ قیادت میسر نہ آسکی جو قوم کی نبض شناس ہوتی، ان کے
دکھ کا مداوا ہوتی اور انہیں ایک منزل کی طرف گامزن کرتی۔ افسوس یہ سب کچھ
ایک خواب رہا۔
حالاتِ حاضرہ پر نظر ڈالیں تو ایک طرف یہ شور سنائی دے رہا ہے کہ ہمیں
جمہوریت چلانے کے لیے وقت نہیں دیا جارہا۔۔۔ جمہوریت خطرے میں ہے۔ دوسری
طرف عوام اپنا حق مانگے کے لیے گھروں سے باہر نکلی ہوئی ہے۔ بہرحال فیصلہ
تو عوام ہی نے کرنا ہے۔۔۔۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو وقت انہیں میسر آیا دوسرے لفظوں میں انہیں جو
عوامی مینڈیٹ دیا گیا اس کے بدلے میں عوام کے لیے کیا وسائل بروے کار لائے
گئے اس سے بڑھ کر اور کیا ہوتا کہ غریب عوام کو باعزت طریقے سے دو وقت کا
کھانا مہیا ہوتا۔ان کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھاجاتا۔ صد افسوس ہمارے
ملک کی جمہوریت نے غریب عوام کے لیے کچھ نہ کیا اور حالات اس حدتک پہنچ چکے
ہیں کہ جان ومال کا تحفظ محال ہوچکا ہے۔ میری ناقص رائے کے مطابق موجودہ
دورمیں مثالی جمہوری طرزِ حکومت اگر دیکھنے کا موقع ملا ہو تو وہ مغربی
جمہوریت ہے لا کھ ا ختلاف سہی مگر عوام کو ان کے بنیادی حقوق میسر ہیں عملا
جمہوری حکومت ان کے ہاں ہے کہ ملک کا وزیر اورعوام ایک ہی بس میں سفر کر نا
پسندکرتے ہیں اور ایک وزیر کو سرکاری خزانے کا ایک ورق ذاتی استعمال میں
لانے پر وزارت سے ہاتھ دہونا پڑا۔ اس طرح کی سینکڑوں مثالیں تاریخ میں
محفوظ ہیں۔
ٓاصل جمہوریت یہ ہے کی عوام کو اوّلین ترجیح حاصل ہو ۔ان کے مفادات کا خیال
رکھا جائے لیکن ہمارے ملک میں تو الٹی گنگا بہ رہی ہے۔یہ کیسی جمہوریت ہے
کہ ملک میں عوام سیلاب کی زد میں اپنے گھربار ،جان و مال قربان کر رہے ہیں
اور ایک طبقہ اپنے کاروبار کو پچانے کے لیے حفاظتی بند باندھ رہا ہے اور
سینکڑوں نفوس پر مشتمل آبادی بے یارومدگار اپنی بے بسی کو رو رہی ہے۔ دل
خون کے آنسو نہ روے تو اور کیا کرے؟ ملک میں عوام کے حقوق کی آواز بلند
کرنے والوں پر بغاوت کا الزام لگایا جا رہا ہے۔۔۔۔۔ قومی ادارے خاموش
تماشائی کا کردار ادا کررہے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ عوام کے حقوق کا فیصلہ
پارلیمنٹ میں ہونا چاہے اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں ہونا چاہیے! درست ہے
لیکن اگر پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگ اتنے اہل ہوتے تو آج ملک کو یہ حالات
دیکھنا نصیب نہ ہوتے! قصوروار پھر عوام کہ انہی کے منتخب نمائندگان ہیں۔کیا
عوام نے اپنا ووٹ قومی امانت سمجھ کر اس مقصد کے لیے استعمال کیا تھا کہ ان
کے حقوق پہ ڈاکہ ڈالا جائے ،ان سے جینے کا حق بھی چھین لیا جائے ؟
غیرملکی قرضے اس حد کو پہنچ چکے ہیں کہ نسلیں اس بوجھ تلے دب چکی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان پر دس ہزا ر ارب ڈالر بیرونی قرضہ ہے اور اس
کا سود 6سے 7 ارب ڈالرہے مگر ان حکمرانوں کو اپنے کاروبار یعنی نام نہاد
جمہوریت کی فکر مسلسل کھائی جارہی ہے بے چاری غریب عوام کہاں جائے؟ غریب کا
بچہ بھوک سے مرجائے تو کوئی فکر نہیں لیکن ان کے گھر کا ایک مور مر جائے تو
پولیس افسران معطل ہوجائیں۔ عوام کو ایسی جمہوریت سے کیا سروکار جس سے
انہیں حقوق میسر نہ ہوں۔ عوام دو وقت کے کھانے کے لیے اپنی اولاد فروخت
کرنے پر مجبور ہو چکی ہے۔ ملکی معیشت بہت کمزور ہو چکی ہے کرپشن نے ملکی
اداروں کی کمر توڑ ڈالی ہے ۔ نیب کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں روزانہ10
سے 12 ارب روپے کی کرپشن ہو رہی ہے۔معیشت تباہی کے دہانے کھڑی نہ ہو تو اور
کیا ہو؟ہمارے پڑوسی ممالک ہم سے بعد میں آزاد ہوئے لیکن معاشی حوالہ سے
ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں کمی پیشی تو ہر جگہ رہتی ہے مگر یہ قومیں اپنے
اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتیں۔ اپنے وسیع تر قومی مفادات کو ذاتی مفاد
پر ترجیح دیتی ہیں تو پھر خوشحالی ان کا مقدر کیوں نہ بنے؟ وہ صحیح معنوں
میں اپنے ملک کی ترقی کے لیے ہر لمحہ کوشاں رہتے ہیں اور مشکل حالات کاڈٹ
کر مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔یہی ان کی کامیابی کا اصل راز ہے!
اگر ہمیں بھی پاکستان کو صحیح راہ پر گامزن کرنا ہے تواس کے لیے کڑوے گھونٹ
پینا ہونگے ماضی کی تلخ حقیقتوں سے سبق حاصل کرنا ہوگا۔ملکی وسائل کی
منصفانہ تقسیم کرنا ہوگی۔ طبقاتی نظام تعلیم، غربت اور دہشت گردی کے خلاف
مضبوط پالیسی بنانا ہوگی اور پھر اس کو عملا نافذ بھی کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنے
جمہوری رویوں پر نظرِ ثانی کرنا ہوگی اس لیے مملکت خداد ا د اسلامی جمہوریہ
پاکستان کو ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو اس کشتی کوتباہی کے بھنور سے
نکال سکے۔ وہ قیادت ہمارے اندر موجود ہے! افسوس ہمیں اس کی قدر نہیں ہے۔
ہماری اخلاقی قدریں انحطاط کا شکار ہوچکی ہیں ۔ہمیں تنقید سے فرصت ہی نہیں
ملتی باقی امور پر کیسے توجہ مبذول کریں گے؟ ہمیں اپنے آپ پر غور کرنا ہوگا
کہ ہم اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑے ہیں۔
جس دیس میں لٹ جائے غریبوں کی کمائی
اس دور کے حاکم سے کوئی بھول ہوئی ہے |