صحافت کی پرخاروادی میں قدم رکھنے سے پہلے
عمران خان ہمارے بھی سیاسی لیڈرتھے ۔زمانہ طالب علمی میں فرصت کے اکثرلمحات
میں اورمیرابھائی عمران خان کے اردگرد گزارتے ۔اسلام آباد میلوڈی میں
بازارروڈ پرقائم تحریک انصاف کامرکزی آفس توہمارپکا ٹھکانہ تھا ۔جب بھی
ٹائم اورموقع ملتا اس دفتر کارخ کرلیتے ۔بوسنیا کے متاثرین سے اظہاریکجہتی
سمیت اسلام آباد میں ہونے والے کئی مظاہروں میں ہم شریک ہوئے۔ یہ وہ وقت
تھا جب نوابزادہ محسن علی خان پی ٹی آئی کے اکلوتے ایم پی اے تھے ۔پھر
صحافت کے شوق میں ہمارا رخ دوسری طرف مڑااورپی ٹی آئی کے دن بھی بدل گئے
۔مینارپاکستان پرہونے والے عمران خان کے تاریخ ساز جلسے نے توملکی سیاست
کاپورانقشہ تبدیل کردیا اورعمران خان راتوںرات ہزاروں اورلاکھوں نہیں
کروڑوں عوام کے لیڈر بن گئے ۔کچھ کرپٹ لوگوں کوساتھ ملانے سمیت عمران خان
سے کئی غلطیاں ہوئیں لیکن پھر بھی عام انتخابات میں عوام نے پی ٹی آئی
پربھرپوراعتماد کااظہار کیا جس کی بدولت خیبرپختونخوامیں تحریک انصاف
برسراقتدار آئی۔ انتخابات میں اگردھاندلی نہ ہوتی توشائد کہ پورے ملک میں
پی ٹی آئی کی حکومت ہوتی ۔میں آج بھی عمران خان کواس بدقسمت قوم کیلئے ایک
مسیحا سمجھتاہوں لیکن انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کے خلاف تحریک انصاف
کے چیئرمین نے احتجاج کاجوطریقہ اپنایا اس سے میرے سمیت عمران خان کے کئی
خیرخواہوں کودکھ پہنچا۔ ایک منتخب حکومت کے خلاف اس طرح کا دھرنا اوراحتجاج
کسی بھی طورپرمناسب نہیں کیونکہ کل کواگر عمران خان کی حکومت آتی ہے توپھر
مسلم لیگ ن ،پیپلزپارٹی یاکسی بھی جماعت کے لوگ اس طرح دھرنا دینے
اوراحتجاج کرنے سے بھی ہرگزگریز نہیں کرینگے ۔اسلام آباد میں تحریک انصاف
کے دھرنے کومیں عمران خان کی چھوٹی نہیں بلکہ بہت بڑی سیاسی غلطی سمجھ
رہاتھا اوردھرنے میں جب بھی گونوازگو کے نعرے لگتے میرابلڈپریشر ہائی اوردل
کی دھڑکنیں غصے کی وجہ سے تیز ہوجاتیں لیکن ایک دوواقعات کے ساتھ میرے
چارسالہ بیٹے عبدالرحمن عمر نے تومیری نیند کیساتھ میرے ہوش بھی اڑادیئے
۔چند دن پہلے کی بات ہے میں صبح نماز کے بعد گہری نیند سورہاتھا کہ اچانک
نیند میں گونوازگو کے نعرے میرے کانوں سے ٹکرانے لگے ۔ایک دوبار جب
گونوازگو کانعرہ میں نے سنا توفوراً میری آنکھ کھلی ۔کیادیکھتاہوں کہ
میراوہ بچہ جس سے میں بہت زیادہ پیار کرتاہوں ۔میرے سرہانے بیٹھ کرگونواگو
کانعرہ لگارہاہے یہ منظردیکھ کرنہ تو میرابلڈپریشرہائی ہوااورنہ ہی میرے دل
کی دھڑکنیں تیزہوئیںبلکہ میں اپنے معصوم بچے کی طرف دیکھتے ہوئے صرف
مسکرایا۔ اس سے اگلے دن میں شام پانچ بجے کے قریب آفس جارہاتھا کہ راستے
میں ایک جگہ شور کی آوازیں آرہی تھیں اورآہستہ آہستہ آوازوں کی تیزی اورشور
کی رفتار بڑھتی جارہی تھی تھوڑی دیر بعد کیادیکھتاہوں کہ ایک تعلیمی ادارے
کی بڑی بس سامنے سے آرہی ہے اوراس میں پہلی کلاس سے لیکرپانچویں کلاس تک کے
بچے گاڑی کی کھڑکیوں سے سرباہر نکال کراورکچھ درمیان میں کھڑے ہوکر
گونوازگو کے نعرے لگارہے ہیں ۔گھر میں سر کے سرہانے اورایک معروف شاہراہ
پربغیر کسی دھرنے،مظاہرے ا وراحتجاج کے گونوازگو کے نعروں کے یہ مناظر دیکھ
کرمیں سمجھ گیا کہ نامناسب طریقہ اپنانے کے باوجود عمران خان اپنے مقصد میں
کامیاب ہوگئے ہیں۔آج وہ بچے جوروٹی کوروٹی بھی نہیں کہہ سکتے اوروہ لوگ
جوعمران خان اورنوازشریف میں تفریق بھی نہیں کرسکتے ان کی زبان پرگونوازگو
کے نعرے جاری وساری ہیں۔ عمران خان کے دھرنے کی وجہ سے آج ملک میں گونوازگو
کانعرہ ان علاقوں تک بھی پہنچ گیا ہے جہاں 64سالوں میں بجلی اورگیس بھی
نہیں پہنچی۔ آج کسی بھی سیاسی جماعت کے جلسے اور جلوسوں میں کوئی اورنعرہ
لگے یانہ لیکن گونوازگو کانعرہ ضرورلگ رہاہے ۔غیرتوغیر اپنوں کی زبانیں بھی
اب اس نعرے سے خالی نہیں۔ اسی وجہ سے روعمران رو کے نعرے لگاتے ہوئے
گونوازگو کے نعرے لگ رہے ہیں۔ ن لیگ کی پشاور میں ہونے والی تقریب میں یہ
نظارہ پہلے ہی دیکھاجاچکا ہے۔ نوازشریف استعفیٰ دیں یانہ ۔۔اس کی حکومت پی
ٹی آئی دھرنے کی وجہ سے ختم ہویانہ ۔۔لیکن عمران خان نے نوازشریف کاکام
تمام کردیاہے ۔اب نوازشریف ملک کی جس گلی اورمحلے سے بھی گزریں گے اسے
گونوازگو کے نعرے سنیں پڑیں گے اوراس کی ہرجگہ ان معصوم اورپھول جیسے بچوں
سے واسطہ پڑے گاجن کی لبوں پرگونوازگوکانعرہ ہوگا۔اب ملک کے کسی بھی کونے
میںاحتجاج،دھرنا یاکوئی بھی تقریب چاہے کسی بھی سیاسی جماعت کی ہواس کی
پوری فضا میں گونوازگو کی گونج سنائی دے گی ۔عمران خان نے نوجوان نسل کے
ساتھ چھوٹے بچوں کوبھی گونوازگو کے نعروں پرلگادیا ہے اب آنے والی کئی
نسلیں اس نعرے کویقینی طورپربھول نہیں پائیں گی ۔ |