مودی سرکارکی مسلمانوں پر مظالم کی نئی داستانیں

مودی سرکار ایک طرف پاکستان کو دھمکیاں دے رہی ہے تو دوسری طرف بھارت کی کئی ریاستوں میں مسلمانوں کا جینا دو بھر کر دیا گیا ہے۔قصاب وزیراعلیٰ کے نام سے مشہور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دور میں ہی مسلمانوں کو زندہ جلایا گیا تھا اب جب وہ وزیر اعظم ہیں تو پھر ماضی کے ہی نقش قدم پہ چل رہے ہیں۔کنٹرول لائن پر فائرنگ سے بے گناہ پاکستانیوں کی شہادتیں،مقبوضہ کشمیر میں سیلاب متاثرین کی امداد نہ کرنا اور بھارت کی ریاستوں میں مسلمانوں کا جینا دو بھر کرنا یہ مودی حکومت کو سرفہرست ایجنڈہ ہے۔بھارتی شہر گجرات کے قصبہ ڈابھیل میں عید الاضحیٰ کے موقع پر گائے ذبح کرنے کے واقع پر مقامی مسلمانوں کی زندگی پولیس نے اجیرن کر دی،روزانہ گھروں میں چھاپے مار کر چادرو چاردیواری کا تقدس پامال کیا جاتا ہے۔اب تک 46مسلمانوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔پولیس کے چھاپوں کے خوف سے مقامی مسلمانوں نے علاقہ چھوڑنا شروع کر دیا۔ گجرات کے معروف قصبہ ڈابھیل جو قدیم دینی درسگاہ کے سبب کافی مشہور ہے میں عیدا لاضحیٰ کے موقع پر گائے ذبح کرنے کے واقعہ کے بعد مسلمانوں کی اندھا دھند گرفتاریاں جاری ہیں۔پولیس نے مدرسہ تعلیم القرآن ڈابھیل کے اساتذہ مولانا محمد عثمان،مولانا عبدالمقتدر اور جامع مسجد کے امام مولانا محمود الحسن سمیت46مسلمانوں کو گرفتار کر لیا ہے ۔گزشتہ روز بھی 15مسلمانوں کو حراست میں لیا گیا جن میں10خواتین بھی شامل ہیں۔گجرات پولیس کا دعویٰ ہے کہ گرفتار شدگان ملزمان ہیں لیکن مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ گرفتار شدگان بے قصور ہیں ۔ قصبہ ڈابھیل کے حالات بہت زیادہ خراب ہو چکے ہیں اور پولیس کے مظالم سے تنگ آ کر بیشتر لوگ قصبہ چھوڑ کر دیگر دیہاتوں میں اپنے رشتے داروں کے ہاں پناہ لئے ہوئے ہیں ۔علاقہ کی دکانیں بھی بند ہیں جس کے سبب اشیائے خوردونوش کا حصول بھی بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔علاقہ مکین گھروں سے دور ہجرت کر کے جا چکے ہیں۔جو موجود ہیں انہیں ہر وقت پولیس کا خوف لگا رہتا ہے کیونکہ پولیس بغیر کسی تصدیق کے کسی کو بھی اٹھا کے لر جاتی ہے ۔صرف مسلمانوں کے گھروں پر چھاپے مارے جاتے ہیں اور خواتین کا لحاظ بھی نہیں رکھا جاتا ۔انہیں بھی گرفتار کیا جاتاہے۔بھارتی وزارت داخلہ اور مختلف سکیورٹی ایجنسیوں نے ہائی الرٹ جاری کیا ہے جس کے تحت مغربی اترپردیش میں سخت سکیورٹی انتظامات کی ہدایا ت جاری کی گئی ہیں۔ انٹیلی جنس بیورو کا کہنا ہے کہ درگاہ پوجا اور عید الاضحی کے موقع پر کئی مقامات پر ماحول کشیدہ رہا اس لئے دیوالی پر ماحول خراب ہونے کے پیش نظر یہ الرٹ جاری کیا گیا ہے۔ وزارت داخلہ نے خاص طور پر دہلی، ممبئی، ناگپور، پونے، حیدرآباد، بنگلور، احمد آباد، چنئی اور بڑودرا میں ہائی الرٹ جاری کیاہے۔آئی بی کی رپورٹ کے مطابق، پورے مغربی یوپی میں تہوار کے دوران تشدد کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ رپورٹ میں میرٹھ، مظفرنگر اور شاملی ضلع کو حساس قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ وارانسی کے آس پاس کے علاقے غازی پور، مؤ اور اعظم گڑھ میں بھی انتظامیہ کو الرٹ رہنے کی وارننگ دی گئی ہے۔ خفیہ ایجنسیوں نے ان علاقوں میں ہتھیاروں کا ذخیرہ بھی جمع کئے جانے کا خدشہ ظاہر ہے۔بھارتی ریاست آندھرا پردیش کے ضلع نلنگنڈہ میں ہندو انتہا پسندوں نے مسلمانوں کی عید گاہ اور چند قبروں کو مسمار کر کے وہاں بھگوا(ہندو انتہاپسندوں کا ) جھنڈا لگا دیا ہے۔ حلقہ اسمبلی حضور نگر میں واقع گریڈے پلی منڈل کے موضع گانو کا بنڈا میں مسلم قبرستان اور عید گاہ کے لئے ایک ایکڑ اراضی مختص ہے۔مذکورہ واقعہ کے بعد مقامی مسلمانوں میں شدید غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ہے۔ نلگنڈہ ضلع کے موضع گانوکا بنڈا جہاں عید گاہ شہید کی گئی ہے اس میں مسلمانوں کے تقریبا90مکانات ہیں۔سروے نمبر97گرام پنچایت کی ملکیت ہے اور اراضی پر سڑک تعمیر کی جا رہی تھی جس کے دوران قبرستان سے چند قبروں کو مسمار کیا گیاجس پر مقامی مسلمانوں نے احتجاج کرتے ہوئے تعمیرات رکوا دی تاہم بعد ازاں جب مقامی مسلمان ضلع کلکٹر سے ملاقات کی غرض سے نلنگنڈہ آئے تو ہندو انتہا پسندوں نے چند قبروں اور عید گاہ کو شہید کر دیا اور زعفرانی پرچم لگا دیا۔ مقامی مسلمان جب شہید کی جانے والی عید گاہ کی طرف جا رہے تھے تو انہیں روک دیا گیا اور دھمکی دی گئی کی سرکاری کاموں میں مداخلت پر انکے خلاف مقدمات درج کئے جائیں گے۔مقامی مسلمانوں نے ضلع کلکٹر اور ضلعی سپرنٹنڈنٹ پولیس سے واقعہ کانوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ شہید کردہ مقام پر ہی دوبارہ عید گاہ تعمیر کروائی جائے ۔بھارت میں ناسک ضلع کے ایک قصبہ میں ہندو انتہا پسندوں نے شیو سینا کو ووٹ نہ ڈالنے پر 65 سال کی ایک ضعیف العمر خاتون کوآگ لگانے کے جرم میں تین افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔پیش آنے والے خوفناک واقعہ میں زخمی ہونے والی بوڑھی خاتون ناسک صدر ہسپتال میں تاحال اپنی زندگی کی جنگ لڑرہی ہے۔ اس واقعہ کے بارے میں مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ خاتون نے ہندو انتہا پسندوں کی بات ماننے اور شیو سینا کو ووٹ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ گرفتا رکئے گئے انتہا پسندوں میں اشوک بورنارے، پانڈورنگ بورنارے اور نند کشور بھورک کو گرفتار کر لیا ہے۔ تینوں کے خلاف قتل کی کوشش اور دھمکی دیے جانے کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ گرفتاری کے بعد پولس نے تینوں کو عدالت میں پیش کیا جہاں سے انھیں 20 دنوں کی پولس حراست میں بھیج دیا گیا ہے۔ اپنے بیان میں وابلے نے بتایا تھاکہ جب وہ ووٹ ڈالنے کے لیے جا رہی تھیں تبھی تینوں ملزم ان سے ملے اور کہاکہ انھوں نے وابلے کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا تیسرا بٹن دبانے کے لیے کہا تاکہ ان کا ووٹ شیو سینا امیدوار سنبھا جی پوار کو ملے اور یہ کہہ کر جان سے مارنے کی دھمکی دی کہ انھوں نے دوسرا بٹن دبا کر سینئر این سی پی لیڈر چھگن بھجبل کو ووٹ دیتے ہوئے وابلے کو دیکھ لیا ہے۔ خاتون کے مطابق اگلی ہی شام تقریباً 8 بجے تینوں وابلے کے گھر آئے اور ان کے ساتھ گالی گلوچ کرنے لگے۔ بعد میں بھورک نے وابلے کو پکڑا، پھر اشوک نے کیروسین کا ڈبہ وابلے پر انڈیل دیا اور پانڈورنگ نے آگ لگا دی۔بھارتی شہر میرٹھ میں ایک ہندو لڑکی کے اسلام قبول کرنے کے بعد مسلم نوجوان سے شادی کرنے پر ’’لو جہاد‘‘ کا پروپیگنڈا کرکے فسادات برپا کرنے کی کوششوں کو پول کھل گیا ہے اور ایک ایسی ویڈیوسامنے آئی ہے جس میں بی جے پی کا ایک لیڈر متاثرہ لڑکی کے گھر والوں کو پیسے دیتے ہوئے دکھائی دے رہا ہے تاکہ وہ اس پروپیگنڈا میں ان کا ساتھ دے۔ بی جے پی لیڈر کی اس ویڈیو کے سامنے آنے کے بعد ہنگامہ کھڑا ہو گیا ہے۔ اس سے قبل لڑکی نے اپنے بیان میں الزام عائد کیا تھا کہ’’لوجہاد‘‘ کا معاملہ کھڑا کرنے کے لیے اس کے گھر والوں کوبی جے پی لیڈروں نے پیسے دیے ہیں۔ لڑکی نے کسی لیڈر یا پارٹی کا نام نہیں لیا تھا، لیکن اس نے اپنے گھر والوں کے خلاف مار پیٹ کی شکایت درج کرائی ہے۔ لڑکی نے کہا کہ اس کے گھر والوں کو لیڈروں سے پیسے مل رہے تھے اور انھوں نے ہی لَو جہاد کا معاملہ کھڑا کیا تھا جب کہ وہ اپنی مرضی سے ملزم ثناء اﷲ کے ساتھ گئی تھی۔ اس بیان کے درج کیے جانے کے اگلے ہی دن مذکورہ ویڈیو سامنے آیا ہے جس میں میرٹھ بی جے پی کے تجارتی سیل کے صدر ونیت اگروال لڑکی کی ماں کے ہاتھ میں 25 ہزار روپے رکھتے نظر آ رہے ہیں۔ وہ ویڈیو میں کہہ رہے ہیں کہ آگے بھی مدد کی جائے گی جبکہ اترپردیش میں بی جے پی صدر لکشمی کانت واجپئی نے کہاہے کہ اب لڑکی الگ حالات میں بیان دے رہی ہے اور معاملے کی سی بی آئی سے تحقیقات ہونی چاہیے۔ ہم نے جو پیسے دیے وہ متاثرہ کی مدد کرنے کی روایت کے تحت دیے ہیں۔
Mumtaz Awan
About the Author: Mumtaz Awan Read More Articles by Mumtaz Awan: 267 Articles with 197212 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.