سیاسی لیڈروں سے توقعات

جب سیاسی لوگ جلسوں اور دھرنوں سے خطاب کرتے ہیں توقوم کو اونچی توقعات کی دنیا میں لے جاتے ہیں۔بڑے بڑے وعدے کئے جاتے ہیں۔ہم آئیں گے اور ملک کو درپیش مسائل پلک جھپکنے میں حل ہوجائیں گے۔ان کے کہنے کے مطابق موجودہ حکمران مسائل حل کرنا ہی نہیں چاہتے۔صرف اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں۔پیسہ بنا رہے ہیں اور باہر منتقل کررہے ہیں۔ہمارے آنے سے ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہوجائیں گی۔ایشیائی جمہورتیوں میں وعدے کرنے کا یہی ڈھنگ ہے۔آجکل الیکشن کے دن تو نہیں ہیں لیکن دھرنا لیڈروں نے عوام کے ذہنوں کو بہت اونچا کردیا ہے۔ہمارے دونوں دھرنا لیڈروں نے عوام کے جذبات کو خوب بھڑکایا۔ان کے نزدیک آج کل ہر طرف ظلمت کے سائے ہیں۔ہمارے آنے سے چمکدارصبح طلوع ہوجائے گی۔
ان شب کی ظلمتوں میں کہیں آس پاس ہی
صبح کے اہتمام ہیں تو جاگ تو سہی

ایسی اور بے شمار باتیں بتا کر عوام کو اونچی توقعات کی طرف لے جایا جاتا ہے۔جونئے لیڈر ہوتے ہیں ان سے عوام بہت اونچی امیدیں باندھ لیتے ہیں۔ آخر لوگوں نے توقعات کے سہارے جینا بھی ہوتا ہے۔نوجوان لوگ توقعات باندھنے میں بہت جلدی کرتے ہیں۔کچھ ایسی ہی اونچی توقعات جناب عمران خان سے بھی باندھی ہوئی ہیں۔جوانی میں عقل پرجذبات غالب ہوتے ہیں۔سیاسی لیڈروں کی باتوں پر جلد یقین کرلیاجاتا ہے۔پاکستان کی تاریخ میں اس سے پہلے بھی ایسے مواقع آئے۔جلسوں میں دھواں دھار تقریروں نے ایسا سما ء باندھا کہ لوگوں نے سمجھ لیا کہ بس جس مسیحا کا انتظارتھا وہ آگیا ۔مجھے 1969ء اور1970ء کے حالات یادآرہے ہیں۔تب ذولفقار بھٹو بہت اونچا اڑ رہے تھے۔اسی طرح بڑے جلسے ہورہے تھے۔جیسے آجکل طاہرالقادری اور عمران خان کے ہورہے ہیں۔تب ائیر مارشل اصغر خان بھی میدان سیاست میں تھے۔وہ تو1970ء کے الیکشن میں بری طرح پٹ گئے۔لیکن بھٹو کے وعدوں پر لوگوں نے یقین کرلیا۔اور مغربی پاکستان میں کراچی سے اسلام آباد تک نتائج کے بعد تلوار چمک رہی تھی۔جذباتی تقریریں کرکے عوام کے جذبات سے کھیلنا بھٹو کے لئے معمولی بات تھی۔انکا منشور بھی بالکل سیدھا اور سادہ ۔مذہب اسلام،معیشت سوشلزم اور حکومتی نظام جمہوری۔اقتدار مل گیا اور1973ء کا آئین بھی جلد بن گیا۔ملک میں استحکام سا آگیا۔زرعی اصلاحات میں ایسی دھاندلی ہوئی کہ بھٹو نے اپنے تمام سندھی وڈیروں کو بچا لیا۔لوگوں کی توقعات پر پانی پھرگیا۔صنعتیں قومی ملکیت میں لے لی گئیں۔نتیجہ پرائیویٹ سیکٹر سرے سے غائب ہوگیا۔معیشت صرف افسر بابوں کے رحم وکرم پر رہ گئی۔60 ء کی دہائی میں ہماری معیشت تیزی سے موجیں مارتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی۔اب اسکی رفتار سکٹر گئی۔تب کی قومیائی گئی صنعت اب تک ہمارے گلے کی ہڈی بنی ہوئی ہے۔نہ کسی کو روٹی ملی،نہ کپڑا اور مکان تو دور کی بات تھی۔اور پھر 5سال بعد لوگ سڑکوں پرتھے۔نتیجتاً ملک مارشل لاء کے سپرد ہوا۔بھٹو سے بھی لوگوں نے بہت ہی اونچی توقعات باندھ لی تھیں۔بعد میں نواز شریف اور بے نظیر سے بھی لوگ بہت کچھ توقع کررہے تھے۔جوبات میں اب بتانا چاہتا ہوں۔وہ یہ ہے کہ لوگ توقعات لگاتے وقتObjective realitiesکو سامنے نہیں رکھتے۔ذوالفقار بھٹو نواز شریف اور بے نظیر بھی عوام کے لئے نئے تھے۔اور اب عمران خان کی بھی وہی حیثیت ہے۔پاکستانی معیشت اس وقت انتہائی پست سطح پر ہے۔اس میں بنیادی خرابیاں پیدا ہوچکی ہیں۔ان خرابیوں کو دور کرنے کی کوشش سوا سال پہلے صرف شروع ہوئی تھی۔دھرنوں اور جلسوں نے ان کوششوں کو کھیروبیرو کردیا ہے۔جو ملک 150۔ارب روپے ڈالر قرضوں کے بھوج تلے دبا ہوا ہو۔ان میں 65۔ارب ڈالر صرف بیرونی قرض ہو۔جنکی قسطوں کی ادائیگی ہر3۔ماہ بعد کرنی ہو۔اور اکثر یہ ہوتا ہے کہ IMF سے نئے قرض وصول ہوتے ہیں اور فوری طورپر پرانی قسط ادا ہوجاتی ہے۔نئے قرض سے پرانے قرض کی قسط اداکرنے پر پاکستان مجبور ہوگیا ہے۔ملک کے اندرونی قرض بھی اب85۔ارب ڈالر تک بڑھ چکے ہیں۔ملکی قرض بھی واپس ادا کرنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔پاکستان میں2خسارے اب بہت بڑھ چکے ہیں۔بجٹ خسارہ اور تجارتی خسارہ۔بجٹ خسارہ گزشتہ مالی سال میں کچھ نیچے تو ضرور آیا ہے۔لیکن باقی ماندہ خسارہ کو پر کرنے کے لئے اندرونی قرض کی ضرورت ہر وقت موجود رہتی ہے۔باہر سے آنے والے قرض جو ڈالروں کی شکل میں ہوتے ہیں۔وہ تجارتی خسارہ اور بیرونی قرض کی اقساط کے لئے استعمال ہوجاتا ہے۔اور افواج پاکستان کے اخراجات کے بعد سالانہ بجٹ میں بہت ہی کم رقم رہ جاتی ہے۔کیا اس سے فوری طورپر پاکستان کے معاشی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ایسا ہرگز نہیں۔مالیاتی کرپشن بے شک ہوتی ہے لیکن لوگ اسے عدالتوں میں جاکر ثابت کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔عوام کو لیڈروں کی طرف سے کئے گئے وعدوں کے بارے سوچنا بھی چاہیئے۔کہ موجودہ پاکستانی حالات میں یہ پورے بھی ہوسکتے ہیں یا نہیں۔قارئین پاکستان واقعی مشکل مالی اور معاشی حالات سے گزر رہا ہے۔ کوئی بھی لیڈر آجائے ملک کے مسائل کو تیزی سے حل نہیں کرسکتا۔سٹیج پر کھڑے ہوکر لوگوں کو اونچی توقعات دلائے رکھنے کو لالی پاپ ہی کہاجائے گا۔یہاں نوازشریف،عمران خان اور بلاول میں سے کوئی بھی آجائے۔پاکستان کی زمینی حقیقتیں تبدیل نہیں ہوسکتیں۔بیرونی اور اندرونی قرض ایک بڑی حقیقت ہے۔اس کے بغیر پاکستان چلایا نہیں جاسکتا۔دوسری بڑی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو ایک بڑی فوج رکھنا پڑتی ہے۔مشرقی اور مغربی سرحدوں پر ہر وقتTension رہتی ہے۔اس کے لئے وسائل کا ایک بڑا حصہ مختص کرنا یہ ہماری مجبوری ہے۔دہشت گردی سالہاسال سے پرورش پاتے پاتے طاقت ور ہوچکی ہے۔مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو اس کے لئے کافی فنڈز مختص کرنے پڑتے ہیں۔اور دہشت گردی سے ہوتا ہوا نقصان ہم سب دیکھتے رہتے ہیں۔4 دن پہلے کوئٹہ میں بہت ساجانی اور مالی نقصان ہوا۔مرنے والوں اور زخمی ہونے والوں کو ادائیگیاں کرنا ضروری ہوتا ہے۔اور یہ حقیقت اب ہر ایک کو تسلیم کرنی پڑرہی ہے۔ہر صوبائی حکومت اس عفریت سے نکلنے کے لئے بڑی مقدار میں فنڈز مختص کرتی ہے۔اور نقد رقومات کی ادائیگی بھی اب لازمی بنتی جارہی ہے۔ایسے حالات میں عمران خان کے وعدے اور عوام کی توقعات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ہر نیا لیڈر وعدے کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔کیونکہ نیا لیڈر عوام سے کسی بڑی بات کا وعدہ کرے گا۔تو عوام اس کی طرف آئیں گے۔لیکن اوپر بیان کردہ حالات کے ہوتے ہوئے پاکستان کو درپیش سماجی اور معاشی مسائل فوری حل نہیں ہوسکتے۔کہنے والا کوئی بھی ہو۔ہم پاکستانی عوام جذباتی تقریروں سے اونچی توقعات باندھ لیتے ہیں۔انتخابی جلسوں میں نواز شریف نے بھی وعدے کئے۔بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لئے کبھی چھ ماہ اور کبھی ایک سال کا وعدہ کیا۔لیکن جب ان لوگوں نے اقتدار سنبھالا۔لوڈشیڈنگ کے مسلۂ کا تجزیہ کیا۔ تو ان کو پتہ چل گیا کہ یہ مسلۂ تو4تا6سال سے پہلے حل نہیں ہوسکتا۔اس عرصے میں بھی تب حل ہوگا جب بجلی کے کئی بڑے بڑے پروجیکٹ مکمل ہوچکے ہونگے۔مہنگائی کو فوری طورپر نیچے لے آنا یہ صرف دیوانے کی بڑ ہی ہوسکتی ہے۔برآمدات بھی کئی سالوں سے25۔ارب اور درآمدات 40۔ارب ڈالر سے بھی اوپر ہوتی ہیں۔تجارتی خسارہ ایک بڑی حقیقت ہے۔یہ خسارہ کم کرنے کے لئے کئی سال درکار ہوتے ہیں۔البتہ حکومتی توجہ سے چھوٹے موٹے انتظامی مسائل ضرور حل ہوسکتے ہیں۔حکومت کو ایسے مسائل کی طرف توجہ کرنی چاہیئے۔آج کا موضوع سیدھا عوام سے تعلق رکھتا ہے۔کہ نئے اور پرانے سیاسی لیڈروں سے اونچی توقعات مت رکھیں۔پاکستان کی سماجی اور معاشی صورت حال جیسی اس وقت ہے۔اسے بدلنے میں لمبا عرصہ درکار ہوگا۔عوام لیڈروں کی تقریریں سن کر یہ بھی سوچیں کہ کیا پاکستان میں یہ ہوسکتا ہے۔مسائل کے حل کے لئے وقت اور وسائل دونوں درکار ہوتے ہیں۔لہذا سیاسی لیڈروں سے اونچی توقعات رکھنا درست نہیں ہوتا۔

Prof Jamil Chohdury
About the Author: Prof Jamil Chohdury Read More Articles by Prof Jamil Chohdury: 18 Articles with 10958 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.