وزیرستان: موسم سرما کی آمد....آئی ڈی پیز مسلسل نظر انداز

ملک میں موسم سرما شروع ہوچکا ہے۔ مختلف علاقوں میں سردی کی شدت میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا ہے۔ سال رواں کے ماہ اکتوبر کے ابتدائی دنوں میں بارشوں کی وجہ سے پہاڑوں پر برفباری بھی شروع ہوئی، جس کی وجہ سے سردی میں تیزی آنا شروع ہوگئی ہے اور 14 اکتوبر سے ملک کے مختلف حصوں میں عوام نے گرم کپڑوں، جرسیوں اور سویٹروں کا استعمال شروع کر دیا ہے، جبکہ رات کے وقت کمبل، لحاف اور رضائیاں استعمال کی جا رہی ہیں۔ محکمہ موسمیات کے مطابق آئندہ دنوں سردی میں اضافہ تیزی کے ساتھ ہوگا۔ ان حالات میں پریشان کن اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے دس لاکھ سے زاید افراد ابھی تک بے یارو مددگار دربدر ہیں اور تقریباً پانچ ماہ کے بعد بھی ان کی باعزت و بحفاظت واپسی کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا، جس سے موسم سرما میں شدت آنے کی وجہ سے ان کی مشکلات میں دن بدن اضافہ ہوگا اور سردی میں شدت آنے کی وجہ سے ان کے دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ بیماریوں میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے، جو انتہائی قابل تشویش بات ہے۔ شمالی وزیرستان کے آئی ڈی پیز میں روز بروز بے چینی اور بے اطمینانی بڑھتی جارہی ہے، کیونکہ اس وقت تک یہ بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ شمالی وزیرستان آپریش کب تک جاری رہے گا اور اپنے ہی ملک میں نقل مکانی کرنے والے شہری کب تک اپنے گھروں سے باہر زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے۔ شمالی وزیرستان کے آئی ڈی پیز کے مسائل انتہائی گھمبیر شکل اختیار کرچکے ہیں اور ہر نکلتے سورج کے ساتھ ان کے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسلام آباد میں دھرنوں کی وجہ سے شمالی وزیرستان کے آئی ڈی پیز کے مسائل پس پردہ چلے گئے اور حکومت کو آئی ڈی پیز پر جو توجہ دینی چاہیے تھی، وہ نہیں دی گئی، جس کی وجہ سے متاثرین کے صبر کا پیمانہ لبریزہو رہا ہے، جوکہ ایک تشویشناک بات ہے، حکومت شمالی وزیرستان کے متاثرین کے مسائل سے غافل ہوگئی ہے اور میڈیا نے بھی آئی ڈی پیز کے حوالے سے اپنی آنکھیں بند اور ہونٹ سی لیے ہیں۔ حالانکہ آئی ڈی پیز کی واپسی کو جلد از جلد ممکن بنانا اور اس کے لیے آواز اٹھانا میڈیا کی بھی ذمہ داری ہے۔ حکومت نے بار بار کہا ہے کہ شمالی وزیرستان کا اسی فیصد علاقہ کلیئر کیا جاچکا ہے اور آرمی چیف بھی متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ آئی ڈی پیز بہت جلد اپنے گھروں کو واپس لوٹ جائیں گے، تو پھر کم از کم کلیئر کیے گئے علاقوں میں تو آئی ڈی پیز کو واپس جانے کی اجازت ہونی چاہیے۔ لہٰذا آئی ڈی پیز قبائل اس حوالے سے کافی فکر مند ہیں اور کئی ماہ سے مسلسل آئی ڈی پیز کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ گزشتہ روز بھی بنوں میں آئی ڈی پیز قبائل کے مشترکہ گرینڈ جرگے سے آئی ڈی پیز مشران کا کہنا تھا کہ وہ با عزت طریقے سے واپسی چاہتے ہیں۔ ہمارے قبائلیوں کی تعداد 1 کروڑ 20 لاکھ ہے، جنہوں نے 18 کروڑ عوام کے لیے قربانی دی ہے۔ اپنے گھر بار چھوڑ کر آج آئی ڈی پیز کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، ہمارے مسائل بہت زیادہ ہیں، ہمیں جو راشن دیا جا رہا ہے، وہ جانوروں کے کھانے کا بھی نہیں ہے۔ ہمیں ایف ڈی ایم اے جیسے کرپٹ محکمے کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ موسم کی تبدیلی کی وجہ سے ہمیں کوئی پیکج نہیں دیا گیا۔ آپریشن کا ہمیں ٹائم فریم دیا جائے، کیونکہ اس جنگ کی وجہ سے ہم 10 لاکھ سے زاید لوگ بے گھر ہوئے ہیں۔ ہمارے بچوں کی تعلیم ضائع ہو رہی ہے۔ ایسا ہی آپریشن جنوبی وزیرستان میں بھی شروع کیا گیا تھا، آج 7 سال ہوگئے، مگر وہ آئی ڈی پیز بھی ابھی تک واپس نہ جا سکے۔ ہماری واپسی پر پہلے مشران کو وہاں کا وزٹ کرایا جائے، تاکہ نقصان کا تخمینہ لگایا جاسکے، کیونکہ ہم پاکستان کی بقا کی خاطر ہجرت کرکے آئے ہیں۔ اگر ہمارے مطالبات پر عمل نہ کیا گیا تو محرم کے بعد متحد قبائل کا لاکھوں افراد کا دھرنا پشاور اور اسلام آباد میں ہوگا۔ واضح رہے کہ ماہ رواں کے دوسرے ہفتے پشاور میں منعقدہ قبائلی جرگے نے بھی حکومت سے شمالی وزیرستان کے متاثرین کی جلد از جلد اپنے گھروں میں واپسی کے لیے انتظامات اور شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن ضربِ عضب سے تباہ ہونے والے مکانات کی ازسرِ نو تعمیر کے لیے معاوضے کا بھی مطالبہ کیا تھا۔ اس کے ساتھ قبائلی عمائدین نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ شمالی وزیرستان کی تحصیل شوال کے نام سے یونیورسٹی اور ہر تحصیل میں ہیڈکوارٹر ہسپتال بنائے جائیں، جب کہ حکومت کی جانب سے بنائی جانے والی کمیٹی میں قبائلی عمائدین کو بھی شامل کیا جائے۔ سیکورٹی فورسز 80 فیصد علاقے کو کلیئر کرنے کا دعویٰ کرچکی ہیں، لہذا حکومت کو چاہیے کہ وہ متاثرہ خاندانوں کی واپسی کے لیے فوری انتظامات کرے اور اس سے پہلے اسی ماہ محسود قبیلے نے بھی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وزیرستان کے جن علاقوں کو کلیئر کر لیا گیا ہے، ان علاقوں کے آئی ڈی پیز کو باعزت طور پر گھروں کو واپس جانے کی اجازت دی جائے اور ساتھ قبائلی عمائدین نے یہ دھمکی بھی دی تھی کہ اگر حکومت نے ان کے جائز مطالبات منظور نہ کیے گئے تو وہ اسلام آباد کے ریڈ زون میں دھرنا دیں گے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ متاثرین کے متعدد بار واپسی کے مطالبے کے باجود آئی ڈی پیز کی واپسی کا بندوبست نہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔

گزشتہ روز عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خان نے بھی کہا ہے کہ شمالی وزیرستان میں کلیئر کیے گئے علاقوں میں لوگوں کی واپسی کا فوری اعلان کیا جائے۔ شمالی وزیرستان میں آپریشن کے آغاز کے ساتھ ہی اسلام آباد میں کرسی کی لڑائی چل پڑی، اس دوران حکومت کو آئی ڈی پیز یاد نہ رہے اور میڈیا بھی انہیں بھول گیا۔ افسوس ہوتا ہے کہ وفاقی اور خیبر پختونخوا حکومت نے اتنے بڑے انسانی المیے کو مکمل طور پر نظر انداز کیا ہے۔ یہ مسئلہ اتنا گھمبیر ہے کہ اسے حل نہ کیا گیا، تو اس کے نتائج وہی ہوں گے جو 1971 میں بنگلا دیش میں ہوئے تھے۔ پرانے پاکستان میں بھی قبائلی علاقوں سے آئی ڈی پیز آئے تھے، لیکن جس طرح وفاقی اور صوبائی حکومت نے انہیں عزت سے رکھا اور پھر اسی عزت کے واپس ان کے گھروں کو بھجوایا وہ قابل تحسین ہے۔ ماضی کی غلطیوں پر رونے کا کوئی فائدہ نہیں، اب ہمیں مستقبل کی بات کرنی ہے، حکومت کو چاہیے کہ وہ ان عوامل پر توجہ دے، جو شمالی وزیرستان کے آئی ڈی پیز کی آمد پر نظر انداز کردیے گئے تھے، تاکہ ان کی واپسی پر کوئی کوتاہی نہ ہو۔ پاک فوج نے شمالی وزیرستان کے جن علاقوں کو کلیئر کردیا ہے، ان علاقوں کے لوگوں کی واپسی کا فوری اعلان ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ طالب علم ہی پاکستان کا مستقبل ہیں، صورت حال یہ ہے کہ فاٹا میں ایک بھی یونیورسٹی نہیں، جس طرح گزشتہ دور حکومت میں اس وقت کے آئی ڈی پیز کے لیے درسگاہوں میں خصوصی نشستیں رکھی گئیں تھیں، اسی طرح آج بھی ان کے لیے خصوصی نشستیں مختص کی جائیں۔ خیال رہے کہ اس سے پہلے جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام سمیت متعدد جماعتیں آئی ڈی پیز کی باعزت واپسی کا مطالبہ کر چکی ہیں اور ایک ماہ میں آئی ڈی پیز کی واپسی کو یقینی نہ بنانے کی صورت میں جماعت اسلامی نے اسلام آباد میں دھرنے اور پارلیمنٹ ہاﺅس کے گھیراﺅ کی دھمکی بھی دی تھی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ آپریشن شروع کرنے سے پہلے حکومت نے یہ وعدہ کیا تھا کہ آپریشن کو رمضان المبارک کے دوران مکمل کر کے عید الفطر تک تمام آئی ڈی پیز کی واپسی کو یقینی بنایا جائے گا، بار بار اس حوالے سے یقین دہانی بھی کروائی جاتی رہی، لیکن عید الفطر کے بعد عیدقرباں بھی گزر گئی اور اب موسم سرما آگیا ہے، لیکن حکومت نے آئی ڈی پیز کی واپسی کا کوئی انتظام نہیں کیا۔ موسم سرما میں دس لاکھ افراد کا بے یارومددگار کیمپوں میں زندگی گزارنا صرف مشکل ہی نہیں، بالکل تقریباًناممکن ہے اور ابھی بھی کچھ معلوم نہیں کہ یہ آپریشن کب تک چلتا ہے اور آئی ڈی پیز کی واپسی کب تک ممکن ہوتی ہے، لیکن حکومت آئی ڈی پیز کی مشکلات اور مسائل کو مسلسل نظر انداز کر رہی ہے، جس سے یقینا بہت سے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں، لہٰذا حکومت کی ذمہ داری ہے کہ جتنی جلدی ہو سکے، آئی ڈی پیز کی واپسی یقینی بنائے، وزیرستان آپریشن کے نتیجے میں بے گھر ہونے والوں کی مشکلات پر قابو پانا اور ان کی باعزت واپسی کا انتظام کرنا وفاقی و صوبائی حکومت دونوں کی ذمہ داری ہے، لیکن حکومت اپنی ذمہ داری سے پہلو تہی کر رہی ہے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701288 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.