کچھ غور سے قاتل کا ہنر دیکھ رہے ہیں

بزرگوں کا قول ہے کہ پہلے تولو، پھر بولو، مگر مسئلہ یہ ہے کہ اچھے خاصے سمجھدار لوگ بھی بے تکان بولتے چلتے جاتے ہیں اوربولتے ہوئے سوچتے ہی نہیں کہ ان کی کسی بات یا جملے کے اثرات کیا ہونگے۔ کسی دل آزاری نہیں تو نہیں ہوگی، اوراسی حوالے سے وہ شخص یاد آگیا تو جوظاہری شکل و صورت سے تواچھا خاصا بھلامانس نظرآتا تھا مگر اس کے دوست اس کی بے محل گفتگو سے تنگ تھے۔ آخر میں ان میں سے ایک دوست نے جرائت رندانہ سے کام لیتے ہوئے اسے ایک روز کہہ ہی دیا کہ دیکھو یار، تم ویسے تو ماشاء اﷲ بہت ہی اسمارٹ اوروجہیہ شخصیت کے مالک ہواوردیدہ زیب لباس بھی نہایت ہی سلیقے سے پہنتے ہو۔ یوں تمہاری شخصیت کو چار چاند لگ جاتے ہیں اسی طرح جب کسی محفل میں شریک ہوتے ہو توتمہاری ظاہری وضع قطع سے لوگ پہلی نظر ہی میں خاصے مرعوب ہوجاتے ہیں مگر افسوس ہے کہ تمہاری شخصیت کا بھرم اس وقت کھل جاتا ہے بلکہ تمہاری شخصیت کا سحر چکنا چور ہوجاتا ہے جب تم بے مقصد اوربے محل فضول گفتگو کرنا شروع کردیتے ہو، اس لئے خدا کے بندے یا تو خاموش رہا کرو پھر بولنے سے پہلے سوچ لیا کرو تاکہ تمہاری شخصیت کا بھرم تو قائم رہے۔

پیپلزپارٹی کے سید خورشید شاہ قائد حزب اختلاف ہونے کے ناتے جس منصب پر فائز ہیں اصولی طور پر ان کا بولتے رہنا جائز ہے کیونکہ اگر وہ بولیں نہیں تو عوام کے مسائل کا حکومت کو کیسے پتہ چلے گا، مگر بولتے بولتے وہ معقولیت کے دائرے سے باہر چلے جائیں، کم از کم اس بات کا انہیں استحقاق حاصل نہیں ہے اور اگردیکھا جائے توان پر بھی برصغیر کے انگریز حکمرانوں سے آزادی کے بعد اس واقعے کا اطلاق ہوتا ہے (بلکہ اس کا اطلاق تو ہرشخص پر لازم ہے) جو کچھ یوں ہے کہ ایک شخص اپنی چھڑی گھماتے ہوئے فٹ پاتھ پر ٹہل رہا تھا اچانک اس کی چھڑی سامنے سے آنیوالے شخص کی ناک سے جا ٹکرائی۔ مقابلے کو تکلیف کا احساس ہوا ہے تو وہ چھڑی والے شخص پر برس پڑا چھڑی والے نے کہا اب میں آزاد ملک کا آزاد شہری ہوں اورآزادی سے گھومنا پھرنا میرا حق ہے۔ چوٹ کھائے ہوئے شخص نے جواب دیا حضور آپ کی آزادی وہاں ختم ہوجاتی ہے جہاں میری ناک شروع ہوتی ہے۔

سید خورشید شاہ نے چند روز پہلے جو کچھ کہا تھا اگرچہ اسے اپنے منصب کا تقاضا سمجھتے ہوں گے مگر ان کی ’’چھڑی‘‘ گھومتے گھومتے ایم کیو ایم کی ’’ناک‘‘ سے جا ٹکرائی اورمتحدہ کے رہنما سے لیکر دیگر کئی سیاسی رہنماؤں نے جس شدت سے اس سارے معاملے کو محسوس کیا اور اس کے نتیجے میں حالات نے جو کروٹ لی اسے کسی طور بھی اونٹ کی کروٹ سے تشبیہ نہیں دی جاسکتی۔ شاید یہ وجہ ہے کہ بعد میں شاہ صاحب نے معذرت بھی کی، معافی بھی مانگی مگر جو تیر کمان سے نکل چکا تھا اسے واپس لانے کی ساری تگ ودوعبث ثابت ہوئی بلکہ اس نے ایم کیو ایم کے علاوہ ملک میں عمومی طورپر دل آزاری کی ایک کیفیت کو جنم دینے میں اہم کردار ادا کیا۔

خورشید شاہ نے لفظ ’’مہاجر‘‘ کو گالی قراردیتے ہوئے ایم کیو ایم کے رہنماؤں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے لئے اپنے لفظ مہاجر کا استعمال نہ کریں کیونکہ یہ ایک گالی ہے۔ ’’مہاجر وہ ہوتا ہے جس کا کوئی گھر نہ اور اس کو واپس اپنے ملک جانا ہو‘‘۔ جس پر پر ایم کیو ایم کی صفوں میں شدید رد عمل ہوا اورانہوں نے سید خورشید شاہ کے خلاف محاذ کھولا توموصوف کو بولنے سے پہلے نہ تو لئے کی غلطی کا احساس ہوا۔ اگرچہ انہوں نے بعد میں ادھر ادھر کی تاویلات سے صورتحال پر قابو پانے کی بہت کوشش کی مگر جو گھاؤ ان لوگوں کی اولاد کو لگ چکا تھا جنہوں نے 1947 ء میں بعد تقسیم ہند کے بعد اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پاکستان کا رخ کیا جانوں کی تڑپ اورایک نئے وطن کا خواب آنکھوں میں بسائے کسمپرسی کی حالت میں واہگہ بارڈر کراس کرتے ہوئے کوئی دکھ محسوس نہ کیا کیونکہ ان کے خوابوں کی تعبیر ان کے سامنے تھی پاکستان کی صورت جہاں انہوں نے ایک نئی زندگی کا آغاز اورملک کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیا مگر اتنی مدت بعد انہیں مہاجر ہونے کا طعنہ دیا جارہا ہے توظاہر ہے ان کے زخم ہرے ہونا فطری امر ہے۔ بقول خاطر غزنوی
کیا قیامت ہے کہ خاطر کشتہ شب بھی تھے ہم
صبح جب آئی تومجرم ہم ہی گردانے گئے

شاہ صاحب نے اتنا بھی احساس نہ کیا کہ اسلام میں مہاجرت کی کتنی وقعت ہے اور جب مذہب کے نام پر کوئی اپنا گھر بارچھوڑتا ہے تواس کی قدرومنزلت کا تعین کیا ہی نہیں جاسکتا۔ شاہ صاحب جس خوانودے کے چشم و چراغ ہیں یعنی اپنے نانا جان، ہادی برحق ﷺ خود انہوں نے اﷲ کے حکم سے مدینہ ہجرت کرکے مسلمانو کو جودرس دیا اورانصار مدینہ نے اس دور میں آنیوالے مسلمانان مکہ کو سر آنکھوں بلکہ دل میں بیٹھاکر جومثال قائم کی اس کا نتیجہ ہے کہ دنیا بھر میں آج جہاں بھی کہیں مقامی آبادی پر کوئی افتاد پڑتی ہے تو وہاں سے نقل مکانی کرنیوالوں کو دنیا بھر کے لوگ امداد و تعاون پیش کرتے ہیں اوراقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ یواین ایچ سی آر کی داد رسی کے لئے آگے آجاتا ہے۔ برصغیر کی آزادی کے موقع پر توہجرت کرنیوالے دین مبین کے نام پر اپنے گھرچھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے اوریہاں انصار بھی انصار مدینہ کی پیروی کرتے ہوئے ان مہاجرین کیلئے پورے پاکستان کے عوام نے دل کھول لئے تھے مگر آج ان مہاجرین خوانخواستہ گالی ہے توپھر سید خورشید شاہ خود فیصلہ کریں کہ انہوں نے جو کہا ہے کہ اس اشارے کہاں کہاں جاسکتے ہین تاہم اچھا ہے کہ انہیں اپنی غلطی کا احساس جلد ہی ہوگیا۔ انہوں نے اپنے الفاظ پر اظہار ندامت کیا اورمعذرت کرلی تاہم ایم کیو ایم کی صفوں میں کشیدگی کا جو عنصر پنپ رہا ہے اس کی وجہ صرف لفظ مہاجر کو گالی قراردینا نہیں بلکہ اب اصل بات سامنے آگئی ہے یعنی ایک جانب بلاول کی تقریر کا لہجہ اوردوسری طرف سندھ اسمبلی میں بلدیاتی نظام کا قانونی بل جو پیش کرکے پاس بھی کروالیا گیا۔ یوں اصل معاملہ اسی کو کوکھ میں موجود تھا اورپیپلزپارٹی کے ساتھ بلدیاتی نظام کے مسئلے پر جو اختلاف ایک عرصے سے چلے آرہے تھے۔ بلآخران اختلافات نے دونوں جماعتوں یعنی پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم نہ صرف سندھ کی صوبائی حکومت سے علیحدہ ہونے پر مجبور ہوئی بلکہ اس کے ممبرز نے قومی اسمبلی میں سید خورشید شاہ کے خلاف درخواست جمع کرادی ہے تاکہ انہیں قائد حزب اختلاف کے منصب سے علیحدہ کیا جائے۔ شنید ہے کہ اسلام آباد میں ایک نئی کھچڑی پک رہی ہے کہ یعنی کچھ حلقوں نے شاہ صاحب کی جگہ عمران خان کو قائد حزب اختلاف بنانے کیلئے کمر کس لی ہے، ان میں شیخ رشید بھی شامل ہیں جبکہ کچھ حلقوں نے وزیراعظم نوازشریف کو بھی اس حوالے سے رام کرنے کی کوشش شروع کردی ہے۔ اگرچہ دوسری جانب سابق صدر آصف زرداری نے ایک بار پھر رحمن بابا کی ڈیوٹی لگادی ہے کہ وہ ایم کیو ایم کو راضی کرلے تادم تحریر بابا کو کامیابی نہیں ملی سکی۔
نتیجہ نہ نکلا، تھکے سب پیامی
وہاں جاتے جاتے، یہاں آتے آتے

بحرحال اگر پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم کے مابین اختلافات یونہی برقرار رہے اوراس کے نتیجے میں سید خورشید شاہ سے قائد حزب اختلاف کا منصب چھین کر عمران خان کو دیدیا گیا۔ اگرچہ عمران خان استعفیٰ واپس نہ لینے پر اب بھی بضد ہیں توصورتحال میں ڈرامائی تبدیلی کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا، یعنی اس کے بعد پیپلزپارٹی بھی نواز حکومت کی یعنی ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ کا منصب چھوڑ کر حقیقی اختلاف کا کردار نبھاتے ہوئے نواز حکومت کے لئے شدید خطرات پیدا کرسکتی ہے اور وہ جو یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ مڈ ٹرم انتخابات کی کنجی پیپلزپارٹی کے پاس ہے توکچھ غلط بھی نہیں کہا۔
کچھ دیکھ رہے ہیں دل بسمل کا تڑپنا
کچھ غور سے قاتل کا ہنر دیکھ رہے ہیں
Syed Majid Ali
About the Author: Syed Majid Ali Read More Articles by Syed Majid Ali: 4 Articles with 2377 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.