تحریر ۔۔۔نبیل صابر چوہدری
اﷲ رب العزت اس بات کو پسند فرماتے ہیں کہ اس کے بندے نیک اعمال کو اپنا
کردنیا میں اس کی خوشنودی اور عاقبت میں اس کی جنت کے حقدار ٹھہریں۔ ہر
بندہ اپنی استطاعت اور دائرہ کار کے مطابق نیک اعمال کرکے اپنی عاقبت سنوار
سکتا ہے۔ ایک عام آدمی اپنی ذات سے متعلق جوابدہ ہے تو ایک حکمران پوری قوم
سے متعلق؛ اس لئے حکمران کا معاملہ زیادہ سنجیدہ ہے البتہ اس کا انعام بھی
اسی قدر بڑا ہے۔ حدیث پاک ﷺہے کہ عادل حکمران قیامت کے دن عرش کے سایے تلے
ہوگا اوراس دن اس سایے کے سوا کوئی اور سایہ نہ ہوگا۔ اب یہ حکمران پر ہے
کہ وہ اپنے لئے کونسا مقام پسند کرتا ہے ۔ وطن عزیز جس طرح سے مسائل کی
آماجگاہ بنا ہوا ہے اور ہر طرف مایوسی چھائی ہوئی ہے اس کی اصلاح کا بیڑہ
اٹھانا بلاشبہ عظمت کی راہ کو اختیار کرنا ہے۔ محترم وزیراعظم نے اپنی
۱۱مئی۲۰۱۳ء کی وکٹری سپیچ میں اسی خواہش کا اظہار کیا تھا جس کی کہ یہاں
تمہید باندھی گئی ہے کہ وہ قوم کی خدمت کرکے اپنی عاقبت سنوارنا چاہتے ہیں
۔ ملک کے مسائل اس قدر زیادہ اور الجھے ہوئے ہیں کہ ایک وقت میں تمام کی
طرف توجہ کرنا اور انہیں حل کرنا ایک مشکل کام ہے۔اگرچہ دہشت گردی ، ملکی
سلامتی، توانائی کے بحران جیسے بڑے مسائل کے حل کیلئے تو یقینا ہمارے
حکمران سنجیدگی اور خلوص نیت سے کوشاں نظر آتے ہیں ۔ مگر بہت سے بنیادی
مسائل ایسے ہیں جو انتظامی بدنظمی کو دور کرکے دستیاب وسائل کو بروے کار
لاتے ہوئے ،واجبی سی توجہ اورسادہ طریقہ کار اختیار کرکے حل کئے جاسکتے ہیں
۔ اس طرح سے خوامخواہ مصیبت میں الجھے ہوئے لوگوں کو آسائش اور راحت میسر
آسکتی ہے جو بلاشبہ حکمرانوں کیلئے عاقبت کا سامان ہوگی۔
سب سے بنیادی مسئلہ ترجیحات کا ہے۔ ملکی و سائل کی منصفانہ تقسیم کا ہے
۔زمینی حقائق سے آگہی کا ہے۔ ہمیں لوگوں سے عدل وانصاف کرنا ہوگا۔مساوات
قائم کرنا ہوگی ۔چند جگہوں پر جدید سہولتیں مہیا کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے
کہ تمام لوگوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کیاجائے ۔ اگر لوگوں کی بنیادی
ضروریات کو پورا کئے بغیر کوئی کام کیا جاتا ہے تو اس سے ترقی کا خواب پورا
نہیں ہوسکتا ۔ یہ طرز عمل ہر شعبے میں اپنانا ہوگا انفراسٹرکچر ہویا تعلیم
بنیادی ضروریات کی فراہمی کے بعد ہی جدیدسہولیات کی طرف توجہ کرنا بالغ
نظری ہوگی۔
بنیادی ضرورتوں اور مسائل کی بات چل نکلی تو ارباب اختیار اس سے آگاہ رہیں
کہ ملک میں موجود ہزاروں سرکاری سکول، بے شمار ہسپتال اور مراکز صحت میں
انتہائی بنیادی سہولتوں کا فقدان ، حکمرانوں کی ترجیحات پر سوالیہ نشان
ہیں۔ ملک کی بیشتر آبادی پینے کے صاف پانی سے ہی محروم ہے غذا اور دیگر
اشیاء میں ملاوٹ ایسے بھیانک طریقوں سے کی جاتی ہے کہ روح کانپ اٹھے۔ دودھ
میں صرف پانی ہوتو قابل قبول ہے لیکن اس میں کھاد اور دیگر زہریلے کیمیکلز
تک کی ملاوٹ کی جاتی ہے۔زہریلے سپرے والی سبزیاں اور پھل ، ملاوٹ شدہ گرم
مصالحہ جات ۔ دالیں ، گھی، چائے کی پتی، بیمار حتیٰ کہ مردہ جانوروں کا
گوشت ، مضرصحت جعلی مشروبات، انسانی زندگی بچانے والی غیر معیاری اور
زائدالمعیاد ادویات ، جعلی زرعی ادویات کھاد اور بیج ملک میں قائم انتہائی
غیر معیاری اور مہنگے ترین ،ہسپتال ، لیبارٹریاں اور سکول ،آمدورفت کے
ذرائع جگہ جگہ کوڑا کرکٹ ، گندگی کے ڈھیر،ابلتے گٹر، ٹوٹی سڑکیں لوگوں
کیلئے کسی عذاب سے کم نہ ہیں۔مٹھائی کی دکانیں ، بیکریاں، سکول کالج
وہسپتالوں کی کینٹین ، فائیو اسٹار ہوٹلوں کے ریستورانوں سے لیکر ریڑھی پر
بکنے والے نان چنے سمیت کسی جگہ پر بھی حفظان صحت کے اصولوں کی پاسداری
نہیں کیجاتی۔ ظلم کی انتہا ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اور ادارے خواہ وہ
اشیائے خوردو نوش یاکاسمیٹکس مہیا کررہے ہیں خواہ گاڑیاں یا الیکٹرونکس،
سبھی ہمارے ملک میں جدید ممالک کے برعکس غیر معیاری اشیاء مہنگے داموں
فروخت کرکے عوام کا استحصال کررہی ہیں ۔ یہ سب کچھ یقینا حکومتی اداروں کی
نا اہلی اور حکمرانوں کی عدم توجہی کے باعث ہی ممکن ہورہا ہے ۔جعلی ، ملاوٹ
شدہ اشیاء کو تیار کرنے اور فروخت کرنے والوں کو عبرتناک سزائیں ملنی
چاہیں۔ا شیاء کی قیمتوں کا تعین ان کی لاگت اور معیارکے مطابق ہونا چاہیے
۔ہر قسم کی غیر معیاری مصنوعات کے بنانے اور ان کی درآمد پر مکمل پابندی
ہونی چاہیے۔
ملاوٹ کا یہ سلسلہ تعلیم تک پھیلا ہوا ہے۔ کئی قسم کے نظام تعلیم ملک میں
رائج ہیں ۔تعلیم و تربیت کے بغیر مہذب معاشرے کا قیام کیسے ممکن ہوسکتا ہے
۔اگر تمام طبقو ں کے لئے یکساں تعلیمی ادارے ممکن نہیں تو نظام تعلیم کا
یکساں ہونا نہ صرف یہ کہ ناممکن نہیں بلکہ ایک قوم کے لئے بہت ضروری ہے۔
قوم کے شعور کا ایک ہونا ان کے رہن سہن کے فرق کو بھلا دے گا۔ اس ملک کے
باشندوں کو ایک قوم بنانا آپ کی عاقبت کے لئے خزانہ ہوگا۔ کم از کم میٹرک
کا امتحان تو ایک ہی سلیبس کے تحت ہونا چاہئیے ۔ خواہ کوئی بچہ کھلے آسمان
تلے بیٹھ کرتعلیم حاصل کرے یا کسی ایئر کنڈیشنڈ کلاس روم میں ۔نقائص سے بھر
پور تعلیمی نظام فوری اصلاحات کا متقاضی ہے ۔
ہمارے ہاں قانون شکنی ایک فیشن کا درجہ اختیار کر چکی ہے۔ قانون شکنی تو
چاہیے موٹرسائیکل یا گاڑی پر لگی غیر قانونی نمبر پلیٹ کی ہو یا نیلی بتی
اور قومی جھنڈے کے غیر قانونی استعمال کی، جوئے شراب پر پابندی کی ہو
یاغیرقانونی اسلحہ کی ، جب ہمارے صاحب اقتدار اور صاحب اختیار لوگ ہی اس پر
عمل پیرا نہ ہوں تو پھر قانون شکنوں کی حوصلہ افزائی تو ہوگی۔ ہم اپنی قومی
شناخت یعنی اپنے قومی پرچم کے مخصوص رنگ اور ڈیزائن کی خلاف ورزی پر بھی
خاموش تماشائی کا کردار ہی ادا کرتے ہیں ۔ لاقانونیت کی انتہا ہے کہ پورے
ملک میں گلی بازاروں میں بدترین اینکروچمنٹ کی بھر مار ہے۔ جعلی اور غیر
معیاری مصنوعات کھلے عام تیار اور فروخت ہورہی ہیں ۔ قبضہ گروپوں،
اغواکاروں ، منشیات فروشوں ، قاتلوں، ڈاکوؤں ، جعلی ڈگری والوں ، رشوت
خوروں ،جعلی پیروں ،عاملوں،ذخیرہ اندوزوں ، ملاوٹ کاروں اور جعلسازوں نے نہ
صرف عوام کی زندگی اجیرن کی ہوئی ہے بلکہ مصلحتوں کے شکار حکمرانوں سے عرش
کا سایہ بھی دور کیا ہوا ہے۔
سروسز کے معیار کی بات کی جائے تو بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے ہاں
اس قسم کا شاید رواج ہی نہیں ہے ۔ آج کے آئی ٹی کے دور میں بھی یہاں نہ صرف
بوڑھے لوگ اپنی پنشن کے حصول کے لئے لائنوں میں لگ کر ذلیل و خوار ہوتے ہیں
بلکہ عوام اپنے شناختی کارڈ ، پاسپورٹ ، ڈرائیونگ لائسینس کے حصول کیلئے
بھی رشوت اور سفارش کا سہارا لیتے نظر آتے ہیں ۔ بینکوں میں یوٹیلیٹی بلز
کی ادائیگی بھی ایک عذاب سے کم نہیں ۔سرکاری و غیرسرکاری اداروں اور دفاتر
میں لوگوں کے ساتھ انتہائی غیر مساوی سلوک کیا جاتا ہے۔ ایسی جگہوں پر تو
عوام کی صحیح معلومات تک رسائی ہی نہیں ہے سادہ لوگوں کو بے وقوف بنا کر
لوٹا جاتا ہے۔ کسی بھی کمپیلنٹ سنٹر ، کال سنٹر ، انفار میشن ڈیسک پر رابطہ
کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ واضح ملکی قوانین کے باوجود انعامی سکیموں کا
لالچ دیکر لوگوں کی جیبیں خالی کرتے ہوئے مختلف پرائیوٹ ادارے ، موبائل فون
کمپنیاں ، انٹر نیٹ پرووائیڈرز، ملکی و غیر ملکی بنک ، معیاری سروسز مہیا
کرنے سے گریزاں ہیں ۔
آج کے سائنس و ٹیکنالوجی کے دور میں بھی ہم اپنے سب سے بڑے مذہبی تہواروں
یعنی عیدالفطر اور عید الاضحی کے مواقع پر بروقت قومی چھٹیوں کا فیصلہ کرنے
میں بھی ناکام ہیں ۔ آخری لمحے تک لوگوں کو ذہنی کشمکش میں مبتلا رکھا جاتا
ہے۔ مادر پدر آزاد الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا نہ صرف عریانی اور فحاشی کو فروغ
دے کرنوجوان نسل کو تباہ کررہا ہے لوگوں کی عزت نفس کو مجروح کررہا ہے بلکہ
عالمی سطح پر ایک اسلامی ریاست کے تشخص کو بھی مجروح کررہا ہے۔انڈین اور
مغربی ممالک کی تہذیب و ثقافت کو فروغ دے رہا ہے ۔ معاشرتی برائیوں کو ایسے
بھونڈے انداز میں بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے کہ دنیا کا مہذب معاشرہ
شاید ہمیں انسانی مخلوق ہی نہ سمجھے ۔ کچھ نام نہاد این جی اوز بھی معاشرتی
بگاڑ کا سبب ہیں۔
VIPکا لفظ اور پروٹوکول سیکورٹی کے نام پر ایک ایسی بیماری ہے جو معاشرے کو
گھن کی طرح کھائے جارہی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس نے معاشرے کو کھوکھلا کر
دیا ہے۔ ہر شخص پر وٹوکول چاہتا ہے کیونکہ اسی میں ہر شخص اپنی عزت خیال
کرتا ۔ کچھ کہنے سے پہلے بانی پاکستان کا ایک واقعہ سن لیں ۔ ریلوے پھاٹک
پر گورنر جنرل پاکستان محمد علی جناح کی کاررکی، ٹرین ابھی دور تھی تو
قائداعظم کے اسسٹنٹ نے اتر کر پھاٹک کھلوادیا۔قائداعظم فوراً کار سے اترے
اور پھاٹک بند کروادیا اور کہا کہ اگر میں قانون کی پابندی نہیں کروں گا تو
دوسروں سے اس کی توقع کیسے کرسکتا ہوں ۔حتیٰ کہ سکندر مرزا جیسا مطلق
العنان حکمران بھی ٹریفک سگنل پر اپنے پروٹوکول کو استعمال نہیں کرتا تھا
اوراسکی گاڑی اشارے پر رکتی تھی ۔آج حکمرانوں کے پر تعیش، بلٹ پروف ، دھول
اڑاتے ہوئے کانوائے جب بنیادی انسانی ضرورتوں سے محروم عوام کے درمیان سے
گرزتے ہیں تو حاکم اور محکوم کا فرق مزید واضح ہوجاتا ہے۔ بنیادی ضروریات
سے محروم طبقہ کو اس طرح کی شان و شوکت ، رعب دبدبہ دکھا کر ہم اپنے
پروردگار کی خوشنودی کیسے حاصل کرسکتے ہیں ؟یہ سیکورٹی کے نام پر پروٹوکول
ہی ہے۔ جوکسی بھی حکمران کو عواالناس سے دور کرکے زمینی حقائق جاننے سے
محروم رکھتا ہے اور حکمران کے گرد مفاد پرست خوشامدی ٹولہ حکمران کو اپنے
حصار میں جکڑے رکھتا ہے۔ اور حکمران کی کسی خامی کی نشاندہی کرنے کی بجائے
سب اچھا ہے کی خیالی تصویر ہی دکھاتا ہے نتیجتاً نیک نیت، پر جوش اور اپنی
عاقبت کے بارے میں فکر مند حکمران بھی اسی غلط فہمی کا شکار ہو کر اپنی
حقیقی منزل سے دور ہوتا چلاجاتا ہے ۔یاد کیجئے کہ حضرت عمرؓ گورنر کو نامزد
کرتے وقت یہ شرط رکھا کرتے تھے کہ دروازے پر دربان نہ ہو،تا کہ لوگ آسانی
سے گورنر کومل سکیں اور اپنی شکایات پیش کرسکیں۔بد قسمتی سے آج گورنر تو
دور کی بات افسر شاہی کے اس دور میں عام آدمی تو براہ راست ضلعی افسران
یعنی کسی ڈی سی اویاڈی پی او سے ملاقات ہی نہیں کرسکتا ۔ایکٹروں رقبہ پر
محیط ان افسران کی سرکاری رہائش گاہیں یقینا دور غلامی کی یادکو تازہ رکھے
ہوئے ہیں لامحدود مراعات اور اختیارات کی حامل انتظامی مشینری عوامی شکایات
اور مشکلات کو دور کرنے میں مکمل ناکام ہے ۔یاد رہے کہ کسی بھی صاحب اختیار
یا صاحب اقتدار شخص کا صرف رشوت نہ لینا ہی اسکی ایمانداری کی دلیل نہیں
ہوسکتا لازم ہے کہ وہ اپنے فرائض منصبی بلا خوف وخطر ،دیانت داری سے ادا
کرے ۔ آج بھی اس ملک میں آقا اور غلام کا نظام ہی چل رہا ہے ۔یہ نظام ، یہ
افسر شاہی یہ پروٹوکول ختم کردیں عرش کا سایہ آپ سے دور نہیں رہے گا۔
بدقسمتی سے ہم ایک ایسی قابل رحم مسلمان قوم ہیں کہ جو غیروں کے مرہون
احسان ہوگئے ہیں ۔مغربی تہذیب نے ہماری نئی نسل کے وہ تمام ولولے اور جذبات
ختم کردیئے ہیں جو کبھی اسلام نے پیدا کئے تھے اور اسطرح ہم اپنی عزت اور
غیر ت دونوں ہی سے محروم ہوگئے ہیں ۔ کبھی ہم دنیا میں معزز ہوا کرتے تھے۔
جہاں انصاف نہیں وہ انسانوں کا معاشرہ نہیں ۔ انصاف خداکی دی ہوئی ایک بہت
بڑی نعمت ہے اور جو لوگ اس نعمت کا غلط استعمال کرتے ہیں ان کیلئے عذاب
عظیم مقرر ہے ۔لہذا ہم میں سے ہر شخص انصاف کرنے کا پابند ہے انصاف نہ
ہونیکی وجہ سے آج بھی تھانے، کچہری میں معاملہ پڑنے کو عذاب خداوندی سے
تشبیہ دی جاتی ہے ۔ بدترین تھانہ کلچر ، بوسیدہ عدالتی نظام ، صاحب اختیار
لوگوں کے غیر مساوی،غیر منصفانہ، غیر انسانی رویے حکمرانوں کی عاقبت
سنوارنے کی خواہش کی تکمیل میں بلاشبہ رکاوٹ ہیں ۔ آج بھی حاکم وقت اپنی
تقاریر میں لوگوں کی بے بسی ، لاچاری ، مجبوری اور ناانصافی کے قصے سناکر
انہیں انصاف دلانے کی یقین دہانیاں ہی کرواتے ہیں ۔یاد رہے کہ وقت یقینا
واپس نہیں آسکتا ۔کسی کے مال کا حساب تو شاید چکا دیا جائے مگر کسی کی عمر
کا حساب کون چکائے گا۔
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے
منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
جناب والہ! معاملہ عاقبت کا ہے تو سنجیدگی اور بڑھ جانی چاہیئے ۔ چونکہ وقت
بہت تیزی سے گزر رہا ہے عاقبت سنوارنے کے مواقع جلد کھو جائیں گے۔ |