قومی مصالحتی آرڈیننس المعروف این آر او کا
سیاسی پس منظر یہ ہے کہ امریکہ اور برطانیہ کی حکومتوں نے بینظیر بھٹو اور
سابق صدر مشرف کے درمیان ”کچھ لو کچھ دو“ کی بنیاد پر آپس میں مصالحت کرانے
کی کوششوں کا آغاز 2006ء کے اختتام پر شروع کیا اس سلسلے میں ابوظہبی میں
بینظیر اور مشرف کے درمیان 3 ون ٹو ون ملاقاتیں ہوئیں جبکہ 2 ملاقاتوں میں
گارنٹر ممالک امریکہ اور برطانیہ کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔ بعد ازاں
مشرف کی طرف سے ان کے معتمد خاص طارق عزیز اور ان کے ملٹری سیکرٹری جنرل
(ر) حامد جاوید جبکہ بینظیر کی طرف سے امین فہیم اور پرویز اشرف پاکستان کے
اندر اور باہر ملاقاتیں کرتے رہے۔ مذاکرات کے نتیجے میں طے پایا کہ مشرف
بینظیر کی راہ میں تیسری دفعہ وزیراعظم بننے کی رکاوٹ کو ختم کریں یا پھر
ان کے اور ان کی پارٹیوں کے خلاف سیاسی مقدمات کو ختم کریں٬ یہ بھی طے پایا
کہ اس ریلی کے بدلے پیپلز پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ صدارتی الیکشن کے موقع
پر استعفے نہیں دیں گے٬ وہ مشرف کو ووٹ نہیں دیں گے تو اس کے خلاف بھی ووٹ
نہیں دیں گے٬ اس ڈیل کی حتمی منظوری کے لئے مشرف نے اپنے سیاسی حلیفوں کا
اجلاس طلب کیا اور ان کے سامنے دو آپشنز رکھے، یا تو این آر او آرڈیننس کا
نفاذ کرنا پڑے گا یا پھر تیسری دفعہ وزیراعظم بننے کی شرط کو ختم کرنا ہوگا۔
اس پر (ق) لیگ کے صدر شجاعت حسین نے کہا کہ تیسری دفعہ وزیراعظم نہ بننے کی
شرط ہم ختم نہیں کریں گے٬ آپ این آر او کے تحت ریلیف دینا چاہتے ہیں تو دے
دیں٬ تاہم حکومت نے قومی دولت لوٹنے والوں پر معافی نامہ جاری کیا جس کی آڑ
میں بیرون ملک مقیم جلا وطن پا کستانی سیاستدان زندہ باد کے نعرے لگاتے
ہوئے پاکستان تشریف لے آئے۔ اس ہنگامے میں بہت کم لوگوں نے این آر او یعنی
قومی مصالحتی آرڈیننس کو یاد کیا اور بات جیسے آئی گئی ہوگئی۔ بعد میں قومی
الیکشن ہوا۔ پیپلز پارٹی نمبر ون اور مسلم لیگ (ن) دو کی حیثیت سے اسمبلی
میں پہنچ گئیں جہاں بعد میں ان دونوں نے مخلوط حکومت قائم کرلی اور نمائشی
احتجاج کرتے ہوئے یعنی بازوں پر کالی پٹیاں باندھ کر مسلم لیگ (ن) کے
وزیروں نے جنرل پرویز مشرف سے حلف لے لیا اور وفاقی وزیر بن گئے۔ سیاست کا
یہ پورا ڈرامہ این آر او کی برکت اور اسکے پردے میں ہوا۔ کسی سیاسی لیڈر کو
این آر او یاد نہ آیا۔ جنرل پرویز مشرف نے 5 اکتوبر 2007ﺀ کے دن یہ آرڈیننس
جاری کیا۔ اس کی میعاد ختم ہونے تک پارلیمنٹ نے اس کو قبول یا رد نہیں کیا
اور عدالت نے ایک مختصر سی مہلت دیدی۔ 28 نومبر 2009 تک کی اور قرار دیا کہ
پارلیمنٹ اس بارے میں کوئی فیصلہ دیدے۔
اس دوران اس رسوائے زمانہ قانون پر بحث شروع ہوگئی کیونکہ اسے عنقریب
پارلیمنٹ میں پیش کیا جانا تھا۔ چنانچہ چند دوسرے آرڈیننسوں کیساتھ اسے پیش
کر کے ایک کمیٹی کے سپرد کردیا گیا۔ قومی اسمبلی کی اس کمیٹی کے ارکان میں
سے 7 نے اس کے حق میں اور 6 نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔ اب کمیٹی نے اپنی
سفارشات اسمبلی کو بھجوانی تھیں لیکن عین اس موقع پر ایک ہنگامہ برپا ہوگیا۔
حکومت کیلئے ایک نہایت ہی خطرناک ہنگامہ۔ حکومت کے ساتھی جو اس مخلوط حکومت
میں شامل تھے، اس کا ساتھ چھوڑ گئے۔ مولانا فضل الرحمان تک نے مخالفت سے
انکار کردیا۔ اسمبلی میں سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی مسلم لیگ (ن) نے اس بل کی
مخالفت کا پرجوش اعلان کردیا۔ ایک اور بڑی پارٹی (ق) لیگ نے بھی مخالفت کا
فیصلہ کیا۔ اس طرح سوائے پیپلز پارٹی کے کوئی پارٹی اس کی حمایت میں نہ رہی
اور آخری وار ایم کیو ایم نے کردیا جس کے بعد حکومت نے اسمبلی سے یہ بل
واپس لے لیا۔ ابھی تک تفصیل کے ساتھ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اس شرمناک
قانون سے کتنے ہزار افراد نے فائدہ اٹھایا۔ اب ان سب کے سروں پر یہ تلوار
لٹک رہی ہے اور ان سروں میں حکمرانوں کے سر سب سے بلند اور نمایاں ہیں۔
قانونی ماہرین ان دنوں سر کھپا رہے ہیں کہ اس قانون کے تحت اب کوئی
کارروائی کیسی ہوگی، کس طرح ہوگی اور عدالتیں کیا کریں گی؟ ماضی کی طرح
حکومت ایک اور مرحلے پر پسپا تو ہوگئی ہے لیکن لگتا یوں ہے کہ حکومت کو اس
پسپائی کی قیمت ادا کرنی پڑیگی جو شاید وہ ادا نہ کرسکے۔ اس بل کی زد پر
جناب صدر آصف علی زرداری کی ذات ہے۔ ان کے مخالف کہہ رہے ہیں کہ اب انہیں
اس منصب سے جانا پڑیگا۔ اس قانون کے بعد وہ اپنی ذات کو بچا نہیں سکتے جبکہ
پیپلز پارٹی کو امید ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح اس بحران سے بچ نکلے گی۔ اس
بارے میں انتظار ہی مناسب ہے۔ حکومت وقت کی مؤثر ترین اپوزیشن مسلم لیگ (ن)
کے قائدین کا یہ مؤقف ہے کہ کوئی رہے یا جائے، جمہوریت کو ہر حال میں رہنا
چاہئے۔ جمہوریت کو کسی صورت میں بھی کوئی نقصان نہیں ہونا چاہئے۔ پاکستان
میں کسی جمہوری حکومت کو فوج کی طرف سے نقصان اٹھانا پڑتا ہے لیکن فوج اس
وقت حالت جنگ میں ہے اور جنگ بھی ایسی کہ اسکے ختم ہونے کا کوئی وقت نہیں
ہے کیونکہ یہ دو فوجوں کے درمیان مقابلہ نہیں۔ ایک طرف فوج ہے تو دوسری طرف
چھاپہ مار اور گوریلے ہیں جنہوں نے ملک بھر میں دہشت پھیلا دی ہے۔ دو فوجیں
آمنے سامنے ہوں تو جنگ کا کوئی فیصلہ بھی ہو، لیکن یہاں فوج صرف ایک طرف ہے
اور ہماری فوج اس طرح ایک مشکل ترین جنگ میں الجھ گئی ہے۔
دہشت گردوں کے اڈوں اور مراکز کو تباہ کیا جا رہا ہے اور ان کی مرکزیت ختم
ہونیوالی ہے لیکن وہ تتر بتر ہو کر ملک بھر میں پھیل کر وارداتیں کررہے ہیں۔
ملک کے پاس دو ہی منظم اور ڈسپلن والے ادارے ہیں۔ فوج اور پولیس ایک طرف،
فوج معرکہ زن ہے تو دوسری طرف پولیس ملک بھر میں ایک جنگ میں مصروف ہے۔ ان
حالات میں جمہوریت کو فوج کی طرف سے کوئی خطرہ نہیں ہے اور اگر یہ صورتحال
نہ بھی ہوتی تب بھی جنرل اشفاق کیانی اپنے اس عزم پر مضبوطی کیساتھ قائم
ہیں کہ وہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں برباد ہونیوالی فوج کی ساکھ کو بحال
کر کے دم لیں گے اور اس کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ فوج سیاست سے دور
رہے۔ انہوں نے فوج کی کمان سنبھالتے ہی جو احکامات جاری کئے تھے ان کے
مطابق فوج کو سیاستدانوں کیساتھ علیک سلیک سے بھی روک دیا گیا تھا۔ ایک وہ
زمانہ تھا مشرف کا جب فوجیوں کو وردی کیساتھ آبادیوں میں جانے کی ممانعت
تھی اور ایک یہ زمانہ ہے کہ آج فوجی وردی کو پیار اور محبت کی نظروں سے
دیکھا جاتا ہے۔ فوج قومی حالات سے لاتعلق نہیں رہ سکتی خصوصاً اس صورت میں
کہ کوئی حکومت این آر او جیسے قانون کی تائید کررہی ہو اور اس کی محافظ بنی
ہوئی ہو۔ ماضی میں فوج قومی امور میں جس طرح ملوث رہی ہے اس کے پیش نظر وہ
آج لاتعلق نہیں رہ سکتی، مثلاً گزشتہ دنوں جب اہم بیرونی شخصیات پاکستان کے
دورے پر آئیں تو ان کیساتھ ملاقاتوں اور کانفرنسوں میں قوم کو قائداعظم کی
تصویر دکھائی نہ دی۔ فوج نے جو ان دنوں اقبال اور جناح کے پاکستان کی حفاظت
کی عملی جنگ میں مصروف ہے، اس پر اعتراض کیا۔
چنانچہ بے نظیر بھٹو کی تصویر ہٹا کر قائداعظم کی تصویر رکھ دی گئی لیکن
قیاس یہی ہے کہ فوج جمہوریت کو خطرے میں نہیں ڈالے گی۔ صدر کے پاس اسمبلی
توڑنے کا اختیار ضرور ہے لیکن 17 ویں ترمیم کے بعد وہ محدود ہوگیا ہے۔ اب
کسی صدر کو اپنا حکم سپریم کورٹ میں بھیجنا ہوگا اور اگر عدالت عظمیٰ اس
حکم کو جائز قرار دیگی تب وہ نافذ ہوگا یا پھر منسوخ کردیا جائیگا لیکن
کوئی حکومت اور حکمران اگر نہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دینگے پر اتر آئے تو وہ
مشکلات پیدا کرسکتا ہے اور اس میں جمہوریت کو خطرہ ہوسکتا ہے، خصوصاً اس
صورت میں جب نئی جمہوریت کی عمر ابھی دو برس بھی نہیں ہوئی اس لئے اگر بعض
سیاستدان یہ خطرہ محسوس کرتے ہیں کہ جمہوریت کو نقصان ہوسکتا ہے تو وہ غلط
نہیں کہتے، لیکن سب باتوں کے باوجود اب جناب صدر کا اقتدار کئی سوالات کا
نشانہ بن چکا ہے۔ خطرہ ہے کہ کل کلاں ان سے مستعفی ہونے کے مطالبے پر تحریک
بھی چلا دی جائے۔
اگرچہ ایم کیو ایم کے قائد نے یہ مطالبہ کر بھی دیا تھا جس کی بعد میں
تردید ہوگئی لیکن ان کی طرف سے ایک پیغام ضرور تھا۔ پیپلز پارٹی کے حلقوں
میں یہ خطرہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ یہ این آر او کہیں ان کی حکومت کو نہ
لے ڈوبے۔ غیرجانبدار مبصرین نے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ حکومت کو اس بل سے
جان چھڑانے کی کوئی ترکیب نکالنی تھی لیکن وہ اس کی حفاظت پر تل گئی جو ایک
غلط پالیسی تھی اور اس غلطی کی سزا شروع ہوچکی ہے۔ |