کشتہ جات، زہریلے حلوے اور این آر او

اکیسویں صدی میں نئی نسل تو کشتہ جات کے بارے میں کم جانتی ہوگی مگر اسکے نئے روپ (ورژن) جو کہ ملٹی وٹامن کی شکل میں موجود ہیں، انکو ضرور جانتے ہونگے۔ کالج لائف میں، زندگی میں پہلی بار ضلع جہلم کے علاقے ڈومیلی کے عمر رسیدہ مگر تندرست و توانا حکیم صاحب جو سید خاندان کے بزرگ بھی تھے، ان سے کشتہ کا لفظ سنا، جناب اپنے فن میں یکتا تھے۔ انکے بقول کشتہ مارنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں اور نہ ہی خالہ جی کا گھر ہے کہ ہر کس و ناکس طبع آزمائی کرتا پھرے، اگر کشتہ کچہ رہ جائے تو انسانی صحت کو برباد کر دیتا ہے۔

چشمے کا پانی معدنیات ( قدرتی تیار شدہ کشتہ جات) سے لبریز ہوتا ہے مگر شہری زندگی میں یہ نعمت کہاں نصیب ہوتی ہے، کچھ عرصہ قبل میں نے گھر کے نل میں آنے والے پینے کے پانی کو ایک لیبارٹری میں ٹیسٹ کرنے کیلئے دیا کہ چلو دیکھیں اس پانی میں کتنے کشتہ جات ہیں، جب رپورٹ آئی تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گیں، معدنیات اور کشتہ جات تو دور کی بات، پانی میں سیوریج اور فضلہ جات جیسے “نمکیات” منہ چڑا رہے تھے۔ اسی دن سے “گھر کے سرکاری پانی” کو خدا حافظ کہا اور “منرل واٹر ” سے دوستی کر لی۔ ان نمکیات میں سنکھیا جیسا کشتہ زمین میں پایا جانیوالا وہ کیمیکل ہے جس کا استعمال انسان کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے ۔ یہ زیر زمین موجود معدنیات میں بھی پایا جاتا ہے اور انکے ذریعے پانی میں شامل ہوتا ہے۔ سنکھیا والا پانی پینے سے جو مضر اثرات انسان پر ظاہر ہو سکتے ہیں ان میں سے چند ایک یوں ہیں: قے کا ہونا، پیٹ کا شدید درد، اور خون آلود دست آنا۔ تاہم اگر طویل عرصہ تک ایسا پانی پیا جائے جس میں سنکھیا موجود ہو تو اس سے مختلف نوعیت کے مضر اثرات ظاہر ہو سکتے ہیں جیسے جلد، مثانے، گردوں، اور پھیپھڑوں کے کینسر کے علاوہ یہ کئی اور طرح کے جلدی و دیگر امراض کا باعث بن سکتا ہے۔

"بات پہنچی تیری جوانی تک” اب اگر اتنے اعلٰی کشتہ جات آپکو گھر بیٹھے مل رہے ہوں تو ہم انسانی گردوں کو کیسے بھول جائیں؟ ویسے حلوہ کھانے سے گردوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا چاہے ہو زہریلہ ہی کیوں نہ ہو !! آج کی ایک خبر یہ بھی ہے کہ اسلام آباد میں علماء کانفرنس کے دوران چیئرمین رویت ہلال کمیٹی مفتی منیب الرحمان، مولانا عبد الغفور حیدری اور دیگر علماء کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی ہے، جس کے بعد انہیں اسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق علماء کرام کا مولانا عبد الغفور حیدری کے پارلیمنٹ لاجز میں واقع رہائش گاہ میں اجلاس ہورہا تھا، جس میں دہشت گردی کے خلاف متفقہ اعلامیہ جاری کرنے کے حوالے سے مشاورت کی جارہی تھی۔ اس دوران انہیں ناشتا، حلوہ پیش کیا گیا، جس کے بعد علماء کرام کی طبیعت خراب ہوگئی ہے، جس پر انہیں پولی کلینک اسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔ جبکہ ہسپتال میں علماء کرام کی صحت اب بہتری کیطرف گامزن ہے ، اللہ تعالیٰ ہمارے علماء کرام جو جلد صحت یاب کرے ، آمین!!

جی تو بات ہو رہی تھی گردوں کی، ایک اطلاع کے مطابق پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی اور غیر معیاری و ملاوٹ شدہ اشیائے خورد و نوش کے باعث پاکستان میں گردے کے امراض حیرت انگیز طور پر بڑھ رہے ہیں۔ مرض سے آگاہی اور عوامی شعور کے فقدان کے باعث ان امراض کی پیچیدگیوں میں بھی اضافہ رہا ہے۔ البتہ مرض کو ابتدائی سطح پر کنٹرول کرنے کیلئے یورالوجسٹ اور نیفرالوجسٹ میں باہمی رابطے ناگزیر ہیں۔ ہمارے ملک میں عالمی ” کڈنی ڈے” منانے اور انسانی صحت میں گردوں کی افادیت پر سیمینارز کا رواج پانا ایک خوش آئین بات ہے جبکہ پاکستان ایسوسی ایشن آف یورالوجیکل سرجنز کے مطابق امراض گردہ میں تیزی سے اضافے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ جن میں نیم حکیموں اور عطائیوں سے علاج، جنسی ادویات اور کشتہ جات کا استعمال، ناقص پانی، غیر معیاری و ملاوٹ، شدہ اشیائے خوردونوش، بلڈ پریشر اور شوگر کے امراض قابل ذکر ہیں۔ اکثر علاقوں میں پینے کا صاف پانی میسر نہیں، ایسی صورت میں گردے کے نئے مریضوں میں اضافے کو روکنے کیلئے بنیادی مراکز صحت اور رورل ہیلتھ سنٹرز پر پرائمری ہیلتھ کیئر سسٹم کو موثر اور مربوط بنانا ہو گا۔

ایک تازہ خبر کے مطابق سپریم کورٹ نے قومی مفاہمتی آرڈیننس (این آر او) کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے اس کو ابتداء سے ہی کالعدم قانون قرار دے دیا ہے اور قرار دیا ہے کہ این آر او کا اجراء قومی مفاد کے منافی ہے اور آئین کی مختلف شقوں کی خلاف ورزی کرتا ہے جبکہ عدالت نے این آر او کے تحت ختم کئے گئے مقدمات کو این آر او کے اجراء کے دن 5اکتوبر 2007ء سے پہلے والی پوزیشن پر بحال کر دیا ہے اور ہدایت کی ہے کہ ان تمام مقدمات کو اُسی جگہ سے دوبارہ شروع کیا جائے جہاں پر این آر او کے تحت کاروائی روک دی گئی تھی جبکہ عدالت نے صدر آصف علی زرداری کے بیرون ملک مقدمات کی بحالی کا بھی حکم دیا ہے اور حکومت کو ہدایت کی ہے کہ سوئس مقدمات کی بحالی کیلئے درخواست دے۔ فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل کو یہ اختیار نہیں تھا کہ وہ سوئس مقدمات ختم کرنے کے لیے خط لکھتے۔ فیصلے میں وفاقی حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کے خلاف کارروائی کریں۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نیب کے چیئرمین نیب، پراسیکیوٹر جنرل اور ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل کو تبدیل کر کے نئی تعیناتیاں کی جائیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 17رُکنی بنچ نے متفقہ طور پر مختصر فیصلہ سنایا۔

آئینی حلقوں میں یہ بات گردش کر رہی ہے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ نے صدر کی اہلیت کا معاملہ اوپن کردیا ہے کیونکہ آرٹیکل 62 کے تحت صدر مملکت کا ایماندار، پاسدار اور امین ہونا لازمی ہے ۔ دریں اثنا اوباما انتظامیہ کیطرف سے کہا گیا ہے کہ پاکستان کو فراہم کی جانے والی ساڑھے سات ارب ڈالر امداد کا پورا حساب رکھا جائے گا اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ یہ امداد شدت پسندوں کے ہاتھ نہ لگے جبکہ اوباما انتظامیہ نے خبردار کیا کہ امداد میں بدعنوانی ثابت ہوئی تو پاکستان کی حکومت کو دی جانے والی امداد معطل کر دی جائے گی۔

این آر او کو کالعدم قرار دیا جانا پاکستان میں انصاف کے سورج کا طلوع ہونا ہے جس کے باعث ملک بھر میں ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے، ہر حلقہ نے اس فیصلہ کا خیر مقدم کیا جبکہ یہ ایک آزاد عدلیہ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ملک ٹوٹنے کے 38 برس بعد ایک انصاف کا سورج ایک نئی تاریخ رقم کرتا ہوا طلوع ہوا۔ اس فیصلہ کے ملکی حالات پر مثبت اثرات مرتب ہونگے، اور ملک و قوم کیلئے نئی راہیں متعین کرے گا، احتساب کا عمل شفاف ہوگا البتہ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ وزیر اعظم سپریم کورٹ کے اس فیصلہ پر سختی سے علم درآ مد کرائیں۔

اس دور میں سنیاسی تو چلے گئے جو اصلی کشتے ماریں البتہ کچے کشتے اپنا اثر تو دکھاتے ہیں، چلیں عوامی کشتوں کی بات چھوڑیں، دیکھیں “کرپشن” اب “قومی کشتہ” کے طور پر نمایاں ہوئی ہے، ایک طرف اگر بین الاقوامی طور پر جگ ہسائی ہو رہی ہے تو دوسری طرف ہمارا مجموعی قومی تاثر اپنا وقار “بلند ” کر رہا ہے۔
Muhammad Altaf Gohar
About the Author: Muhammad Altaf Gohar Read More Articles by Muhammad Altaf Gohar: 95 Articles with 175802 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.