بسم اﷲ الرحمن الرحیم
برطانیہ میں مقیم کشمیریوں نے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اْجاگر کرنے اور
کشمیریوں کے حق خودارادیت کے حق میں لندن شہر کے تاریخی ٹریفالگر سکوائر سے
برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی رہائش گاہ تک ایک بہت بڑا احتجاجی مارچ
کیاجس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ملین مارچ کی وجہ سے سڑکیں انسانوں سے
بھر گئیں اور بدترین ٹریفک جام کے دوران لندن کی گلیاں آزاد ی کشمیر کے
نعروں سے گونج اٹھیں۔شرکاء میں زبردست جوش و جذبہ دیکھنے میں آیا۔ مارچ میں
پاکستا ن کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے علاوہ آزاد و مقبوضہ
کشمیر سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں، برطانوی ممبران پارلیمنٹ ، تمام جماعتوں
کے قائدین ، میئرز، کونسلرز اوردیگر اہم شخصیات کی کثیر تعدادنے شرکت
کی۔ادھر مقبوضہ کشمیر پر بھارتی قبضہ کے 67سال مکمل ہونے پر کشمیر سمیت
دنیا بھر میں یوم سیاہ منایا گیا۔ بھارتی فوج کی جانب سے احتجاجی مظاہروں
پر قابو پانے کیلئے حریت قیادت کو گھروں میں نظربند رکھا گیا تاہم اس کے
باوجودکشمیریوں نے سڑکوں پر نکل کر شدید احتجاج کیااور اس عزم کا اظہا رکیا
کہ وہ غاصب بھارت کے کشمیر پر قبضہ کو کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔
تقسیم ہند کے بعد سے پیدا ہونے والا مسئلہ کشمیر پچھلی سات دہائیوں سے حل
طلب ہے۔ یہ وہ پہلا متنازعہ مسئلہ ہے جس کے حوالہ سے اقوام متحدہ نے
باضابطہ طور پر کئی قراردادیں پاس کر رکھی ہیں۔ 1947ء سے کشمیری مسلمان اس
بات کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ اقوام متحدہ بھارت سے اپنی پاس کردہ قراردادوں
پر عمل درآمد اور اس مسئلہ کو حل کروائے جسے خود بھارت ہی یواین میں لیکر
گیا اور کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دینے کا وعدہ کیا تھا۔ حالیہ برسوں
میں سکاٹ لینڈ، مشرقی تیمور اور ساؤتھ سوڈان کے عوام کو بغیر کسی جبر کے
اپنے مستقبل کے تعین کا حق دیاجاسکتا ہے تو مظلوم کشمیری اس سے محروم کیوں
ہیں؟ان کے مطالبات پر توجہ کیوں نہیں دی جارہی؟کیا محض مسلمان ہونے کی وجہ
سے انہیں آٹھ لاکھ بھارتی فوج کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ جس طرح
چاہے ان کا قتل عام کرے، ان کی املاک تباہ اور عزتیں و عصمتیں پامال کرے؟۔
یہ وہ سوچ ہے جو صرف کشمیریوں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے ہر انصاف پسند شخص
کے ذہن میں ابھررہی ہے۔مسئلہ کشمیر چونکہ برطانیہ کا ہی پیدا کر دہ ہے اس
لئے خاص طورپر اسے تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے کہ وہ انڈیا سے تعلقات
خراب ہونے کے ڈرسے اس سلسلہ میں کوئی کردار ادا نہیں کر رہا جس پر اسے
مدافعانہ طرز عمل اختیار کرنا پڑ رہا ہے۔اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے
کشمیری جماعتوں کی جانب سے برطانیہ میں ترجیحی بنیادوں پر اس مسئلہ کو
اٹھانے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔ چند ماہ قبل برطانوی پارلیمنٹ میں اس
حوالہ سے ایک قرارداد جمع کروائی گئی جس میں چالیس اراکین پارلیمنٹ نے
کشمیری عوام کو ان کا حق خودارادیت دینے اور مسئلہ کشمیر کے فوری حل کا
مطالبہ کیا۔ برطانوی پارلیمنٹ کے رکن ڈیوڈوارڈ نے پارلیمنٹ کی بزنس کمیٹی
میں قرارداد کا متن جاری کرتے ہوئے واضح طور پر کہا کہ یہ ایوان محسوس کرتا
ہے کہ مسئلہ کشمیر علاقائی و عالمی امن کیلئے شدید خطرہ ہے اس مسئلہ سے نہ
صرف کشمیری عوام کے انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں بلکہ آٹھ لاکھ بھارتی فوج
ہر وقت ان پر مسلط ہے جن کے مظالم کی وجہ سے پانچ لاکھ سے زائد کشمیری اب
تک اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں۔ یہ ایک اہم انسانی مسئلہ ہے اس
لئے بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی ان پامالیوں پر ضرور بحث ہونی چاہیے۔
اس دوران مختلف نظریات رکھنے والے برطانوی اراکین پارلیمنٹ جنہوں نے اس
قرارداد پر دستخط کئے ‘ نے اس مسئلہ کو بھی اٹھایا کہ پاکستان اور بھارت
دونوں ایٹمی قوت ہیں اور اگر یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا تو مستقبل میں اس کے
خطرناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔اراکین پارلیمنٹ کی پیش کردہ اس قرارداد پر
ستمبر میں بھارت کی شدیدمخالفت کے باوجود برطانوی پارلیمنٹ میں بحث ہوئی جس
میں سترہ اراکین پارلیمنٹ نے حصہ لیا اور برطانوی حکومت پر زور دیا کہ وہ
کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت دلوانے کیلئے کردار اد اکرے اور یہ کہ
پاکستان اور بھارت مسئلہ کشمیر سے متعلق جو فیصلہ بھی کریں اس میں کشمیریوں
کی مرضی بھی شامل ہونی چاہیے۔بحث کے دوران بھارت پر اپنی آٹھ لاکھ فوج
کشمیر سے نکالنے اور پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے کالے قوانین کے خاتمہ پر زور دیا
گیا۔ برطانوی پارلیمنٹ میں اس قسم کی بحث یقینا لندن میں موجود کشمیریوں کی
زبردست محنت کا نتیجہ تھی جس سے نہ صرف پوری دنیا پر مسئلہ کشمیر اجاگر ہوا
بلکہ انہیں خود بھی حوصلہ ملا اور پھر انہوں نے اس عمل کو جاری رکھتے
ہوئے26اکتوبر کو لندن میں کشمیر ملین مارچ کا اعلان کیا۔ اس اعلان کے بعد
جہاں تمام کشمیری جماعتوں نے بھرپورتیاریاں اورلابنگ شروع کردی وہیں بھارت
کی طرف سے اسے رکوانے کیلئے زبردست کوششیں کی گئیں۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما
سوراج ہنگامی طورپر نئی دہلی سے لندن پہنچیں اور اپنے برطانوی ہم منصب سے
ملاقا ت کر کے کشمیر ملین مارچ کی منسوخی کا مطالبہ کیاتاہم برطانوی وزیر
خارجہ کی معذر ت کے بعد سشما نے برطانوی نائب وزیر اعظم نک کلیگ سے ملاقات
کر کے بھارتی موقف سے آگاہ کیاتاہم انہوں نے بھی ان کے اس مطالبہ کو مسترد
کر دیا اور کہا کہ ہم اس ملین مارچ پر کوئی پابندی نہیں لگا سکتے۔اسی طرح
بھارتی سفیر کی جانب سے برطانوی اراکین پارلیمنٹ کو ایک خط بھی لکھا گیا جس
میں ان سے درخواست کی گئی کہ وہ اس پروگرام میں شریک نہ ہوں کیونکہ اگر وہ
اس میں شریک ہوتے ہیں تو اس سے بھارت کی عالمی سطح پر بدنامی ہو گی لیکن
بھارت کی جانب سے یہ سب کوششیں رائیگاں گئیں اور یہ تاریخی ملین مارچ
انتہائی کامیاب رہا۔بیرسٹر سلطان محمود اور برطانوی ہاؤس آف لارڈز کے پہلے
مسلمان رکن لارڈ نذیر احمدنے اس کشمیر مارچ کو کامیاب بنانے کیلئے زبردست
کردار ادا کیا ۔کشمیر مارچ میں پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو بھی شریک
ہوئے۔ ان کی سٹیج پر موجودگی کے دوران بھارتی انتہا پسندوں کی طرف سے
ہنگامہ آرائی کی کوششیں کی گئیں۔ اسی طرح تحریک انصاف کے سربراہ عمران خاں
کے بھانجے حسن نیازی نے سٹیج پر بوتلیں پھینکیں جسے میٹروپولیٹن پولیس نے
گرفتار کر کے کچھ دیر بعد رہا کر دیا لیکن یہ باتیں بہت معمولی نوعیت کی
ہیں جس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔کشمیر مارچ کے شرکاء نے بعد ازاں ایک بہت بڑے
جلوس کی شکل میں برطانوی وزیر اعظم کی رہائش گاہ پہنچ کر انہیں ایک یادداشت
پیش کی جس میں مسئلہ کشمیر کے حل پر زور دیا گیا۔ کشمیریوں کی جانب سے
27اکتوبر کو برسلز میں بھارتی سفارت خانے کے سامنے بھی احتجاج کیا گیا جبکہ
29اکتوبر کو پیرس میں بھی بھارتی سفارت خانہ کے سامنے مظاہرہ کیاجائے
گا۔کشمیر ی تنظیموں کی جانب سے ملین مارچ جیسے پروگرام لائق تحسین ہیں۔
برطانیہ کی جانب سے مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے دفاعی پوزیشن میں ہونے کی وجہ
سے ایسے پروگراموں پر پابندی تو نہیں لگائی گئی تاہم اس سے مسئلہ کشمیر کے
حل کیلئے کسی بڑے اقدام کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔ بہرحال ہم سمجھتے ہیں کہ
ایسے پروگرام بھرپور انداز میں ہونے چاہئیں اور اس مسئلہ کو ہر عالمی فورم
پر اٹھانا چاہیے تاکہ بھارتی ظلم و ستم اور بربریت کو عالمی سطح پر بے نقاب
کیا جاسکے۔ کشمیریوں کا یہ مطالبہ بھی درست ہے کہ سکاٹ لینڈ، ایسٹ تیمور
اور ساؤتھ سوڈان کی طرح مسئلہ کشمیر بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق
حل کروایا جائے وگرنہ یہ بات طے شدہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں کسی صورت امن کا
قیام ممکن نہیں ہے۔ مقبوضہ کشمیر پر بھارتی قبضہ کے 67سال پورے ہونے پر
آزاد و مقبوضہ کشمیر سمیت پوری دنیا میں یوم سیاہ منایا گیا۔ پورے کشمیر
میں تاریخی ہڑتال کی گئی اور جلسے، جلوس و احتجاجی مظاہروں کا انعقاد کیا
گیا جن میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کشمیری جہاں کہیں
بھی ہیں اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ حکومت پاکستان جو اس مسئلہ کی اہم
فریق ہے اسے بھی چاہیے کہ وہ بھارتی ناراضگی کی پرواہ کئے بغیر اس مسئلہ کو
عالمی سطح پر بھرپور انداز میں اجاگر کرنے کا فریضہ سرانجام دے۔ مظلوم
کشمیری الحاق پاکستان کی خاطر سبز ہلالی پرچم لہراتے ہوئے اپنے سینوں پر
گولیاں کھا سکتے ہیں تو ہمیں بھی تحریک آزاد میں ان کے کندھے کے ساتھ کندھ
ملا کر کھڑ اہونا چاہیے اور اس بات کا پیغام دینا چاہیے کہ پاکستانی قوم ان
کی جدوجہد کو بھلانے والی نہیں ہے ۔ وہ شہ رگ کشمیر پر سے بھارتی قبضہ
چھڑانے کیلئے کشمیری بھائیوں کی عملی طور پر ہر ممکن مددوحمایت کا سلسلہ
جاری رکھے گی۔ یہ ہمارا اخلاقی و مذہبی فریضہ ہے جسے ہر صورت ادا کیاجانا
چاہیے۔ |