دھرے کا دھرا، دھرنا

 ہر بے گھر کو گھر دیا جائے گا اور متوسط خاندانوں کو گھر کی تعمیر کے لیے 25سال کی اقساط پر بلاسود قرض دیا جائے گا، ہر بے روزگار شخص کو مناسب روزگار فراہم کیا جائے گا یا روزگار الاؤنس دیا جائے گا، قلیل آمدنی والوں کو ضروری اشیائے خوردونوش آدھی قیمت پر فراہم کی جائیں گی، لوئر مڈل کلاس کے لیے بجلی ، پانی اور گیس کے بلوں پر ٹیکس ختم کر دیے جائیں گے اور مذکورہ یوٹیلٹیز نصف قیمت پر فراہم ہوں گی،سرکاری انشورنس کا نظام بنایا جائے گا جس کے تحت غریبوں کا علاج مکمل طور پر فری ہوگا، یکساں نظام کے تحت میڑک تک تعلیم مفت اور لازمی ہوگی، غریب کسانوں اور ہاریوں کو پانچ سے دس ایکڑ زرعی زمین برائے کاشت مفت فراہم کی جائے گی، مستحق گھرانوں میں خواتین کو گھریلوصنعتوں کے ذریعے روزگار فراہم کیا جائے گا، سرکاری و غیر سرکاری چھوٹے بڑے ملازمین کے درمیان تنخواہوں کے فرق کو ممکنہ حد تک کم کیا جائے گا،فرقہ واریت اور دہشت گردے کے خاتمے کی انقلابی پالیسی بنائی جائے گی۔

یہ وہ دس نقاط پر مشتمل ایجنڈا ہے جس پر قادری صاحب دو بار دھرنا دے چکے ہیں مگر یہ نقاط عوام کو متاثر نہ کرسکے اورجہاں تک حکمرانوں کی بات ہے تو ان سے تو عوام کی اس طرح کی فلاح وبہبود کی توقع رکھنا بے سود ہی ہے ۔ایک لمحہ کے لیے اپنی پارٹی ، اپنی پسندیدہ شخصیات، قادری صاحب کی پارٹی اور قادری صاحب کی شخصیت کو بالائے طاق رکھ کر مذکورہ بالا نقاط کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو میرا نہیں خیال کہ کوئی بھی محب وطن اور فرسودہ نظام میں پِستا پاکستانی ان دس نقاط پر عمل درآمد ہوتا نہ دیکھنا چاہتا ہو۔موجودہ بگڑتے حالات کے تناظر میں ان نقاط پرعمل درآمد کی ضرورت دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔اب سوال ملکی اور غیر ملکی ایجنڈا کا بھی آتا ہے تو میرے خیال میں یہ نقاط خالصتاً پاکستانی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ہیں تو ان نقاط کو بنانے والے اور ان نقاط پر عمل درآمد کرانے کا دعویٰ کرنے والے پاکستانی ایجنڈا پر کام کررہے ہیں یا غیر ملکی ایجنڈاپر؟اسی طرح ان نقاط پر عمل درآمد ہونے پر رکاوٹیں کھڑی کرنے والے کس ملکی ایجنڈا پر ہیں یا غیر ملکی ایجنڈا پر؟ ایک آزاد اور باشعورقوم کے فردکے لیے یہ غور طلب سوال ہے مگر یہ سوچنے کے لیے ذاتی پسند و نا پسند کو چند لمحوں کے لیے ایک طرف رکھنا پڑے گا جو اس قوم کے لیے مشکل ترین کام ہے۔

14اگست سے 22اکتوبر تک قادری صاحب کا جاری رہنے والا دھرنا جہاں دس نقاط پر مشتمل تھا وہاں ہی ماڈل ٹاؤن میں چودہ قتل ہونے والے افراد کے لواحقین کو انصاف دلوانے کے لیے بھی تھا مگر افسوس کے دو ماہ اور کچھ دن گھر بار چھوڑ کر آئے ہوئے افراد کو انصاف نہ مل سکا ۔جیسے ہی دھرنا ختم ہوا رونے والے خوب روئے اور ہر کسی نے اپنی ذہنیت اور پسند و ناپسند کے مطابق اس رونے کا مطلب نکالاانھی رونے والوں میں وہ متاثرین بھی شامل تھے جن کے بھائی، بہنیں، والدین ماڈل ٹاؤن میں تشدد کا شکار ہوئے۔دھرنا دینے والوں کا قصور یہ تھا کہ انھوں نے بے انصافی کے اس دور دورہ میں انصاف ملنے کی توقع رکھ لی تھی حالاں کہ انھیں لال مسجد کا واقعہ ذہن نشین کرنا چاہیے تھا، سیالکوٹ میں دو بھائیوں کے قتل پرملنے والے انصاف کا جائزہ لینا چاہیے تھا،ریمنڈڈیوس کی ظلم و بربریت کو سامنے رکھنا چاہیے تھا، کراچی میں سرفراز کے قتل کو یاد رکھنا چاہیے تھا ،پنڈی اور اسلام آباد میں قتل ہونے والے نوجوانوں کے واقعہ کو سامنے رکھنا چاہیے تھاجن میں شاہ زیب اپنی بہن کی عزت بچانے کی خاطر تو دوسراعثمان فاروق ا اس فرسودہ نظام کے خلاف بولنے کی خاطرقتل ہوا،یا کم از کم یہ یاد رکھنا چاہیے تھا کہ آئے دن نوجوان بچیاں انصاف نہ ملنے کی خاطر کبھی تھانوں اور کبھی گھروں میں خود کشیاں کر کے اس دار فانی سے رخصت ہوجاتی ہیں ۔

دو ماہ اور کچھ دن دھرنا دینے والوں کے آنسوؤں سے جہاں مایوسی امڈ امڈ کر باہر آرہی تھی وہاں ہی ان کے آنسو ایک پیغام ان لوگوں کے لیے چھوڑ رہے تھے جن کے عزیز و اقارب لال مسجد میں ، ریمنڈڈیوس کے ہاتھوں ، رینجرز کے ہاتھوں، سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والوں کے ہاتھوں ، ہوس پرستوں کے ہاتھوں اور ماڈل ٹاؤن میں پولیس کے ہاتھوں بچ گئے ۔دھرنے سے بظاہر ناکام اٹھنے والوں کی آنکھوں سے چھلکنے والے آنسو ایک سوال چھوڑ گئے وہ سوال ان لوگوں کے لیے ایک سوچ ہے جو اس دھرنے سے اٹھنے والوں کا مذاق اڑا رہے ہیں وہ سوال کیا ہے وہ ایک پریشان کن سوچ ہے کہ اس بار دو ماہ اور کچھ دن دھرنا بھی انصاف نہ دلا سکا تو کل کلاں تمھارے ساتھ ایسا ہوا تو دھرنا کون دے گا انصاف کیسے ملے گا؟مجھے ان لوگوں پر حیرت ہے جویہ مانتے ہیں کہ ماڈل ٹاؤن میں قتل ایک ظلم ہوا اور جب اس ظلم پر دھرنا دے کر انصاف کی امید لگائی گئی تو انصاف حسب سابق نہ ملنے پرجب دو ماہ اور کچھ دن دھرنا دے کرختم کیا گیا تو یہی لوگ ان دھرنے والوں پر ہنس رہے تھے اور طعنہ زنی کر رہے تھے حالاں کہ یہ تو مقامِ سوچ ہے بل کہ اس پوری قوم کے لیے شرم کا مقام ہے کہ دو ماہ اور کچھ دن بعد بھی مقتولین کو انصاف نہ ملا اور وہ بھی اس ملک میں جس کی بنیاد اسلام کے روشن اصول و ضوابط پر رکھی گئی ہے ۔شرم کا مقام ہے تمام پاکستانیوں کے لیے کہ اس بار بھی انصاف نہ مل سکا اور دھرنا ، دھرے کا دھرا رہ گیا۔
Nusrat Aziz
About the Author: Nusrat Aziz Read More Articles by Nusrat Aziz: 100 Articles with 86119 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.