انقلاب یا آزادی مارچ مارچ کا
آغاز یوم آزادی یعنی ۱۴ اگست سے ہوا ، مختلف شہروں سے ہوتے ہوئے پی ٹی آئی
اور پی اے ٹی کے کارکنان اسلام آباد پہنچے۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار
درالحکومت اسلام آباد کو احتجاج کے لیئے چنا گیااور مارچ کے بعد دھرنا بھی
اسلام آبادکے ریڈ زون ایریا میں دیاگیا ہے ۔۔یہ دھرنا جو 14 اگست کواسلام
آباد سے شروع ہوا تھا اب جلسے جلسوں کی شکل اختیار کر کے پورے ملک میں پھیل
چکا ہے ۔پی ٹی آئی اور پی ٹی اے کا یہ دھرنا قریبادو ماہ تک جاری رہا ۔ پی
ٹی آئی ابھی تک اپنے مطالبات سے دسبردار نہیں ہوئی جبکہ مولانا طاہر
القادری نیچند دن پہلے اپنے مطالبات سے دستبردار ہوتے ہوئے دھرنے کو ختم
کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ پی ٹی آئی اب دھرنے کے علاوہ پورے ملک میں جلسے کر
رہی ہے ۔یہ دھرنا تو ختم ہو گیا لیکن اس دھرنے نے ملک کے معاشی اور معاشرتی
حالات پر کیا اثرات مرتب کیئے اور کر رہے ہیں ۔ آیئے ایک نظر ان پر بھی
ڈالیں ۔
۱۔ان دھرنوں کا سب سے بڑا فائدہ پاکستان تحریک ِانصاف کو یہ ہوا یہ جماعت
ایک عوامی طاقت بن کر ابھری ہے ۔ ملکی سیاست میں پہلے صرف دو پارٹیاں( پی
پی پی اور مسلم لیگ ن )ہی بڑی پارٹیاں تھی ۔ دو دہایوں سے یہی دو پارٹیاں
ملکی سیاست پر قابض رہی ۔ یہی دونوں پارٹیاں یا تو حکومت میں رہی یا
اپوزیشن میں ۔ ان دھرنوں کی بدولت سیاست میں بہت بڑی تبدیلی یہ آئی ہے کہ
ان دو پارٹیوں کے علاوہ بھی سیاست میں چھایا ہو اجمود ٹوٹ گیا ہے ۔ملکی
تاریک میں پہلی بار لوگ اتنی بڑی تعداد میں اکٹھے ہو ئے جن میں نوجوانوں کی
ایک کثیر تعداد دیکھنے میں آئی ۔ لوگوں میں بیداری کی لہر دوڑ گئی ہے ۔ ان
دھرنوں میں کئے گئے مطالبات اگرچہ پورے نہیں ہو سکے تاہم ملکی سیاست میں
چھایا ہو اجمود ٹوٹ چکا ہے ۔تجزیہ نگارچاہے ان دھرنوں کو مفید یا غیر
مفیدقرار دیں لیکن اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ان دھرنوں کی
بدولت عوام کو احتجاج کی ایک پر امن راہ دکھا دی گئی ہے ۔
دوسرا اہم فائدہ یہ ہوا ہیکہ عوام کویہ اندازہ ہو گیا ہے کہ اگر وہ اکٹھے
ہو جائیں ، احتجاج کی راہ اپنائیں تو ان کی بات سنی جائے گی ۔ پہلے لوگ کسی
نہ کسی لیڈر کے پیچھے چلتے تھے اب لوگوں ایک نظریے کی پیروی کریں گے کیونکہ
عمران خان ایک شخصیت نہیں بلکہ اس نے عوام کو ایک نظریہ دیا ہے ۔عمران خان
کے سیاست کیریر میں یہ دھرنا ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس دھرنے نے
عمران خان کی شہرت میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے اور آگے آنے والے الیکشن میں
یہ دھرنا پی ٹی آئی کو ببہت حد تک فائدہ بھی دے گا لیکن اس کے برعکس دھرنے
کو ختم کرنے کے اعلان سے علامہ طاہر القادری جو کہ عالمی شہرت یافتہ مذہبی
عالم ہیں ۔ اور ایک عالم کے طور پر لوگ ان کی بے حد تعظیم و تکریم کرتے تھے
ان کی شہرت میں کمی واقع ہوئی ہے۔
تیسرا اہم فائدہ یہ ہوا ہے کہ صدیوں سے رائج وی آئی پی کلچرکا اب خاتمہ
ہوتا نظر آتا ہے۔عوام نے اب وی آئی پی کلچر کے دلدادہ سیاست دانوں کو ریجک
کر دیا ہے ۔ اور اب عوام اپنے جائز حق کے لیے لڑنے کے لیے گھروں سے باہر
آرہے ہیں اور وہ لوگ جو کبھی احتجاج کی راہ اختیار نہیں کرتے وہ بھی اس میں
شامل ہیں ۔
ان تما م فوائد کے ساتھ ساتھ ان دھرنوں سے ملکی معیشت کو چند نقصانات سے
بھی پالا پڑا ۔ جن میں سے چند ایک کا ذکر یہا ں کرنا لازم ہے -
دونوں مارچ ( انقلاب مارچ اور آزادی مارچ ) کے آغاز سے ہی اسلام آباداور
دوسرے شہروں کو ملانے والی سڑکوں پر جابجا کنٹینر لگا کر انھیں بند کر دیا
گیا۔اس صورت حال سے صرف عوام نہیں کنٹینر مالقان نے بھی نقصان اٹھا یا۔ ۔
یہ کنٹینر کئی کئی روز تک سڑکوں پر کھڑے رہے کنٹینر مالکان کو خود یہ
کنٹینر ہٹانا پڑے ۔ایک کنٹینر کا ایک دن کا کرایہ قریبا ۱۵۰۰۰ ہے اور یہ
کرایہ کسی کو ادا نہیں کیاگیا۔کرایہ کے علاوہ یہ کنٹینر سامان کی ترسیل کے
کام سے ہٹا کر سٹرکوں پر کھڑے کر دیئے گئے اس سے سامان چاہے وہ کسی بھی طرح
کا ہو اس کی ترسیل بری طرح متاثر ہوئی ہے ۔
آمد ورفت کی مشکلات کے سبب اسلام آباد کے گرد ونواح میں کھانے پینے کی
اشیاء کی ترسیل میں کمی ہوئی اور یہ اشیاء مہنگے داموں فروخت ہوتی رہی
۔مارکیٹ میں آٹے سمیت ہرچیزغائب ہوتی جا رہی ہے ۔اس صورت حال کا فائدہ
ذخیرہ اندوزوں نے اٹھایا اور اشیائے خوردونوش کی مصنوعی قلت پیدا کر دی ۔اس
صورت حال کا شکار نہ صرف عوام میں بلکہ دھرنوں میں موجود کارکنان کو بھی
اسی طرح کے حالات کا سامنا رہا ۔ اشیائے خوردونوش کے ساتھ ساتھ چھتریاں اور
ڈسپوزبل کلاس وغیرہ کی قیمتوں بھی آسمان کو چھونے لگی ہیں ۔۔
حالیہ دھرنوں نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی پوزیشن کو مزید خراب کیا
ہے ۔ عالمی اداروں کے چونکہ دفاتر زیادہ تر اسلام آباد میں اس لیے ان
اداروں کا کام بھی بری طرح متاثر ہوا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ دونوں دھڑوں
آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کا آپس میں ضم نہ ہونا اقوام عالم کو یہ دکھا
تا رہا کہ ہمارے مطالبات تو ایک ہیں لیکن ہم متحد نہیں ۔دونوں دھرنوں میں
موجود شراکاء بھی ایک مشرقی اقدار کے پابند جبکہ دوسرے مغربی اقدار کے
دلدادہ ۔ عالمی سطح پر اس وقت پاکستان ایک سیاسی محاظ آرائی کا شکار ملک
نظر آتا ہے اور یہ جمہوریت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔
ٓ
ان دھرنوں کی وجہ سے سٹاک ایکس چینج میں واضع مندی نظر آئی اور روز بزوز اس
مندی میں اضافہ دیکھنے کو مل رہاہے ۔چین کے صدر جو اس دوران ہندوستان کے
دورے کے بعد پاکستان آنے کا ارادہ رکھتے تھے انھوں نے اپنا یہ دورہ ملتوی
کردیا ۔ اور اس طرح کئی تر قیاتی معاہدوں پر دستخط نہ ہو سکے ۔
ان دھرنوں کی وجہ سے راولپنڈی اسلام آباد میں شروع ہونے والے ترقیاتی کام
بھی رک گئے ہیں ۔اور ان کاموں سے وابسطہ افراد بے روزگار ہوتے نظر آئے ۔(
یہ کام اب تاخیر سے دوبارہ شروع کئے گئے) -
اگران حالات کا معاشی جائزہ لیا جائے تو اعداد وشمار مزید پریشان کن نظر
آتے ہیں ۔ملکی معیشت کو ان چند دونوں میں ۱۹ ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہو
۔اور اس میں دن بدن اضافہ ہو گا ۔ ۔بیرونی سرمایہ کاری پہلے ہی دہشت گردی
کی بدولت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے ان حالات کے مدنظر ملکی سرمائیہ کا ر
بھی بدظن ہو کر اپنا سرمائیہ دوسرے ممالک میں منتقل کرنے لگے ہیں ۔جتنا
نقصان سرمایہ کاروں کو ان دنوں ہوا ہے اتنا پہلے کبھی نہیں ہوا ۔ پنڈی
اسلام آباد میں دوکان دار اور دھاڑی دار مزدوروں کو روزی نہ ملنے کی وجہ سے
یہ لوگ ملازمت پیشہ افراد سے کہیں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ
دھاڑی دار مزدور وں کی روزری روٹی انھی مارکٹیوں سے منسلک ہوتی ہے
۔مارکیٹیں بند ہونے کی وجہ سے یہ لوگ دو وقت کی روٹی حاصل کرنے سے قاصر رہے
۔
یہاں یہ واضع کر دینا چاہوں گی کہ میں کسی پارٹی کو سپورٹ نہیں کرتی ۔ نہ
تو میں حکومت کی حمایت کرتی ہوں نہ ہی کسی اور سیاسی پارٹی کی ۔ میرا مطمع
نظر صرف یہ ہے کہ جب سیاسی محاظ آرائی میں ملکی معیشت کو نقصان پہنچتا ہے
اور اس طرح پہلے سے کمزور معیشت مزید کمزوری کی جانب پڑھتی ہے ۔ملک میں
احتجاج ہونا چاہیے ، بہتری آنی چاہیے لیکن اس انداز سے کہ معیشت کا پیہ جام
نہ ہو۔ ملکی معیشت کو کسی قسم کا معاشی نقصان نہ اٹھا نا پڑے ۔ |