ہم توسیاست پہ کالم لکھ لکھ کے خود چھوٹے موٹے سیاستدان
بَن گئے لیکن ’’اصلی تے وڈے‘‘سیاستدانوں کی صحتِ سیاست پر ہمارے کالموں
کا’’کَکھ اثرنہ ہوا ۔باوجودیکہ ہم نے اُنہیں سمجھانے کی سرتوڑ کوشش کی کہ
ہم ’’ارسطوِ دوراں‘‘ ہیں اور صرف ہمارا فرمایا ہوا ہی مستند ہے لیکن کسی کے
کان پر جوں تک نہ رینگی۔ویسے اگر جوں رینگتی بھی تو کسی کو پتہ نہ چلتا
کیونکہ اُن کے کان تو صرف سِکّوں کی جھنکار سُننے کے لیے ڈیزائن کیے گئے
ہیں ۔جب ہم نے وجہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ آخر ہمارے ’’ارسطوانہ فرمودات
کا اُن پر اثر کیوں نہیں ہوتا، تو انکشاف ہوا کہ وہ خود افلاطون یعنی ارسطو
کے اُستاد ہیں اِس لیے ہم نے عافیت اسی میں جانی کہ اپنے مفت مشوروں کی
پٹاری کو بند کرکے بیٹھ رہیں ۔ویسے بھی ہمارے ایک مہربان نے مشورہ دیا ہے
کہ ’’ہُن ایناں دی جان چھَڈ وی دیو‘‘۔ اُن کا مشورہ ہمارے لیے ایسے ہی حکم
کا درجہ رکھتا ہے جیسے عقیدت مندوں کے لیے شیخ الاسلام ،سونامیوں کے لیے
عمران خاں اور متحدہ کے لیے الطاف بھائی کاحکم۔اپنے مہربان کے مشورہ نما
حکم کے مطابق ہم توکمبل چھوڑنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں لیکن کمبل ہی ہمیں
نہیں چھوڑتا ۔اب یہی دیکھئے ناں کہ ہمارے شیخ الاسلام نے پاکستان آتے سمے
یہ اعلان کیا تھا کہ وہ کینیڈا سے اپنی جرابیں تک سمیٹ لائے ہیں اِس لیے اب
کبھی واپس نہیں جائیں گے لیکن وہ ہم جیسے عقیدت مندوں کو بلکتا چھوڑ کر
یورپ اور امریکہ کے سفر پر روانہ ہوگئے ۔ویسے ہمارا حُسنِ ظن یہی ہے کہ اُن
کی جرابوں کا ایک آدھ جوڑا کینیڈا میں رہ گیا ہوگا جسے وہ واپس لانے گئے
ہیں۔ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وہ ’’انقلاب‘‘ کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کی
خاطر بیرونِ ملک جا رہے ہوں ۔ویسے بھی ڈالروں میں چندہ اکٹھا کرنے کا مزہ
ہی کچھ اور ہے ۔بہرحال ہم نے چونکہ سیاست پر’’ قلم درازی‘‘ نہ کرنے کا عہد
کر رکھا ہے اِس لیے اِس موضوع کو یہیں چھوڑتے ہیں۔
جب ہم یہ طے کربیٹھے کہ اب سیاست پر ’’مُنہ ماری‘‘ نہیں کرنی تو یہ سوال
ہمارے سامنے پہاڑ بَن کے کھڑا ہو گیاکہ لکھیں تو لکھیں کیا۔ ہمیں تو سوائے
سیاست کو ’’ٹھونگے‘‘ مارنے کے اور کچھ آتا ہی نہیں ،وجہ یہ کہ ہمارے ہاں
سیاسی موضوعات ایک تو تھوک کے حساب سے دستیاب ہیں اور دوسرے یہ موضوعات
ہوتے گرماگرم ہیں ۔اب تو ہم بھی بڑے لکھاریوں کی طرح چائے کی پیالی میں
طوفان اٹھانے کا گُر سیکھتے جا رہے ہیں اور اﷲ بھلا کرے الیکٹرانک میڈیاکا
جس نے پوری قوم کو اِس فَن میں طاق کر دیاہے ۔اب تو یہ عالم ہے کہ ہر کوئی’’
لنگوٹ کَس کے‘‘ مناظرے کے لیے تیار نظرآتا ہے۔ چائے کی پیالی میں طوفان
اٹھانے کا ایک مظاہرہ ایم کیوایم کے ہاں اُس وقت دیکھنے کو ملا جب اُس نے
لفظ ’’مہاجر‘‘ پر طوفان بپا کردیا۔ہمارے مرنجاں مرنج قائدِحزبِ اختلاف
سیّدخورشیدشاہ نے لفظ مہاجر کو جس تناظر میں گالی قراردیا وہ اُس سے یکسر
مختلف تھا جس کا شور ایم کیوایم مچا رہی ہے ۔شاہ صاحب نے بات ہندوستان سے
آئے ہوئے مہاجرین کے متعلق کی لیکن ایم کیوایم نے اِس کی کڑیاں ہجرتِ مدینہ
سے ملاکر پھڈا ڈال دیا۔سبھی جانتے ہیں کہ جہاں آقاﷺ کا ذکر آتاہے وہاں ہر
مسلمان جذباتی ہو جاتاہے۔ایم کیوایم مطالبہ تو مہاجر صوبے کا کرنا چاہتی
تھی جس کے لیے کوئی سندھی بھی تیار نہیں اِس لیے اُس نے پیپلزپارٹی کو ’’نُکرے‘‘
لگانے کے لیے ’’کیہڑا تے کیہڑا سہی‘‘ کر دیا ۔سیّدخورشیدشاہ صاحب کی باربار
کی وضاحت اور معذرت کے باوجود متحدہ قومی موومنٹ پر’’کَکھ‘‘ اثر نہ ہوا اور
وہ اب رائی کا پہاڑ بنانے پہ تُلی بیٹھی ہے ۔ایم کیوایم کو نہیں چاہیے کہ
وہ مہاجرصوبے کی خواہش کی تکمیل کے لیے مذہبی انتہاپسندی کا راستہ اختیار
کرے ۔ویسے بھی مہاجرین تو پورے پاکستان میں پھیلے ہوئے ہیں اور ہمارے اجداد
بھی ہندوستان سے ہی ہجرت کرکے پاکستان آئے۔ایم کیوایم مہاجرین کی ایک محدود
اور’’مخصوص‘‘ تعداد کی نمائندہ جماعت ہے اِس لیے وہ سارے مہاجرین کی ’’ٹھیکیداری‘‘
چھوڑ دے ۔ویسے اکابرینِ ایم کیوایم کو اتنا تو پتہ ہی ہوگا کہ خورشیدشاہ
صاحب خود بھی مہاجر ہیں اور خانوادۂ رسولﷺ سے تعلق رکھنے والے شاہ صاحب کے
اسلاف نے تو صدیوں پہلے ہندوستان ہجرت کی تھی اوراِس حوالے سے کراچی میں
بسنے والے مہاجرین کا سیّدخورشیدشاہ سے کوئی مقابلہ ہی نہیں کیونکہ وہ
قدیمی مہاجر ہیں جبکہ ایم کیوایم کو پاکستان ہجرت کیے ہوئے جمعہ جمعہ آٹھ
دِن ہوئے ہیں ۔اگر شاہ صاحب کا وہی مطلب ہوتا جو ایم کیوایم زورزبردستی اُن
کے سَر تھوپنے کی کوشش کر رہی ہے تو ہم بھی ایم کیوایم کے کندھے سے کندھا
ملا کر کھڑے ہوتے لیکن یہاں تو صاف عیاں ہے کہ یہ سب کچھ مہاجر صوبے کی تگ
ودَو کا حصّہ ہے ۔جہاں تک مہاجر صوبے کے مطالبے کا سوال ہے تو یہ مطالبہ
ہرگز ناجائز نہیں اور ایم کیوایم کو آئینی طور پر نئے صوبے کے مطالبے کا حق
بھی پہنچتا ہے لیکن یہ حق آئین میں درج طریقِ کار کے مطابق ہی مِل سکتاہے ۔
کہتے ہیں کہ ’’چور چوری سے جائے ،ہیراپھیری سے نہ جائے‘‘۔ ہم بھی کچھ ایسی
ہی اُلجھن میں مبتلاء ہیں ۔بیٹھے تھے اِس عزمِ صمیم کے ساتھ کہ سیاسی
دسترخوان کا ایک لقمہ بھی نہیں توڑنا لیکن پوری روٹی ’’ڈکار‘‘ گئے ۔چلیں
اپنے کالم کا رُخ پھر’’غیرسیاسی باتوں‘‘ کی طرف موڑتے ہیں کیونکہ اگر ایم
کیوایم پیپلزپارٹی سے پھڈا لیے بیٹھی ہے ’’تے سانوں کی‘‘۔خوش ہو تو نوازلیگ
کہ دھرنے بھی کمزور ہوگئے اور آنکھیں دکھانے والی پیپلزپارٹی بھی ’’وَخت‘‘میں
پڑ گئی ۔لیکن نوازلیگ کو اتنا بھی خوش نہیں ہونا چاہیے کیونکہ آج کے دشمن
گزرے ہوئے کل میں دوست تھے اور آنے والے کل کو اُن کا دوست بننا اظہرمن
الشمس کیونکہ ایک تو ’’سریح الحرکت‘‘ رحمٰن ملک ’’اِن ایکشن ‘‘ ہیں اور
دوسرے منظور وسان صاحب کو بھی دوستی کے خواب آنے لگے ہیں ۔ |