مہاراشٹر اور ہریانہ میں کہنے کی حد تک بھارتیہ جنتا
پارٹی کے وزرائے اعلیٰ کی حلف برداری ہو گئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہریانہ
میں جو کچھ ہوا وہ مہاراشٹر میں نہ ہوسکا۔ہریانہ کےاندر پانچ ماہ قبل
پارلیمانی انتخاب میں بی جے پی کو ۹ میں سے ۷ نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی
تھی اس لئے امیت شاہ کو امید تھی کہ اسمبلی انتخاب میں انہیں ۹۰ میں سے ۷۰
نشستیں مل جائیں گی اس لئے انہوں نے ہریانہ وکاس کانگریس کے بشنوئی کو رسوا
کر کے بھگا دیا ۔ اس کے باوجود بی جے پی کو ۷۰ نہ سہی تو ۴۷ پر کامیابی مل
ہی گئی ۔ یہ اور بات ہے کہ ان ۴۷ منتخبہ ارکان میں ۲۷ سابق کانگریسی ہیں۔
ہریانہ ویسے بھی اپنے ’’ آیا رام گیا رام‘‘ کیلئے معروف ہے جس کا فائدہ
ماضی میں کانگریس اٹھاتی رہی ہے اس بار بی جے پی اس سے مستفید ہوگئی ۔ایسے
میں سوال پیدا ہوتا ہے کہفی الحال’’ کانگریس مکت بھارت بن رہا ہے یا
کانگریس یکت بھاجپ وجود میں آرہی ہے؟’’ سچ تو یہ ہے کہ ملک میں ایک حکمراں
طبقہ ہے جو حسبِ ضرورت اپنا چولہ بدلتا رہتا مگر اقتدار نہیں چھوڑتا ۔
ہریانہ میں تو یہ ہوا کہ اتوار کو نتائج کا اعلان ہوا اور پیر کی شام کو
وزیر اعلیٰ منوہر لال کھتر کا نام ساری دنیا کو معلوم ہو گیا اس کے ایک
ہفتہ بعد کھتر کی حلف برداری تک ہوگئی مگر مہاراشٹر کا نیا وزیر اعلیٰ
ندارد تھا۔ ایاا اس لئے ہوا کہ مہاراشٹر میں مودی جی حسب وعویٰ ۱۶۵ نشستوں
پر کامیابی درج کرانے میں ناکام رہے ۔ کیا وزیراعظم ہونے کے باوجودیہ کوئی
ناممکن ہدف تھا؟ اس سوال کا جواب ماضی قریب میں ہے۔ مودی کے وزیراعظم بننے
سے پانچ ماہ قبل بھی پانچ ریاستوں میں انتخابات ہوئے تھے جن میں میزورم کے
علاوہ چار ریاستوں میں بی جے پی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی ۔ اس وقت
منموہن وزیراعظم اور راج ناتھ پارٹی کے صدر تھے۔ اس بارمودی جی مہاراشٹر
میں وہ بھی نہ کرسکے جو چھتیس گڑھ میں رمن سنگھ نے کردیا ۔مدھیہ پریش میں
شیوراج چوہان نے جوزبردست کامیابی درج کرائی اس کی بابت اگر کوئی کہتا ہے
کہ وہاں پہلے سے بی جے پی کی حکومت تھی تو اس کیلئےراجاتہان کی مثال
موجودہے جہاں کانگریس کی حکومت تھی اس کے باوجود اسے صرف ۲۱ نشستوں پر روک
کر وجئے راجے سندھیا نے۱۶۲ نشستیں جیت لیں ۔مودی جی اگراپنا خون پسینہ ایک
کرنے کے بجائے ریاستی رہنماؤں کو یہ کام سونپتے تو مہاراشٹر میں بھی وہی
ہوتا جو ان کے وزیراعظم بننے سے قبل راجستھان میں ہوا تھا ۔
بی جے پی مہاراشٹر میں چونکہاکثریت سے محروم رہی اس لئے انتخاب کے بعد
اقتدار کی رسہ کشی کا نیا باب کھل گیا جس میں دونوں سروں پرہندوتواوادی تھے
اور درمیان میں این سی پی اس طرح کھڑی تھی جیسے دو بلیوں کوآپس میں لڑا کر
بندرتماشہ دیکھتا ہے ۔ زعفرانی جماعتیں اس طرح دست وگریبان ہوئیں کہ
کانگریسی بھی شرمسار ہو گئے ۔ کبھی کوئی کسی کی چوٹی پکڑتا تھا تو کبھی
کوئی کسی کی چڈی کھینچتا تھا ۔ اس کھینچاتانی کے چلتے شیوسینا کے گلے میں
ہرروز ذلت و پشیمانی کی ایک نئی پھول مالا ڈالی جاتی تھی ۔ اگر بی جے پی
ابتداء میں صاف کردیتی کہ این سی پی کی حمایت اس کیلئے کافی ہے اور وہ
اقلیتی حکومت سے کام چلا لے گی تو شیوسینا کی یہ درگت نہیں ہوتی۔ لیکن اسے
بیم و رجا کا شکار رکھا گیا تا کہ شیوسینا کی ریڑھ کی ہڈی کو بالکل اسپرنگ
بنا دیاجائے اوروہ ہوا کے جھونکوں سے بھی اِدھر اُدھر ڈولنے لگے ۔سینا کی
حالتِ زار پر یہ شعر صادق آتا ہے ؎
ناخدا نے مجھے دلدل میں پھنسائے رکھا
ڈوب مرنے نہ دیا پار نکلنے نہ دیا
انتخابی نتائج کے بعد شیوسینا گو کہ اس بات سے غمگین تھی کہ دوسرے نمبر پر
رہی لیکن خوش بھی تھی کہ بی جے پی واضح اکثریت حاصل نہ کرسکی ۔سینا کو یقین
تھا کہ اس کو اقتدار میں شراکت داری کا موقع ملے گا۔ ایک طرف آرایس ایس
والوں نے شیوسینا کی امیدیں بڑھارہے تھے اور ہندوتوادی اتحاد کی دہائی دے
رہے تھے دوسری جانب اڈوانی جی نے مفاہمت کیلئے اپنی خدمات پیش کردیں وہیں
پر سینا کا بیڑہ غرق ہوگیا ۔ آجکل بی جے پی کے اندر اڈوانی جی کیحالت یہ
ہے کہ جس کے سر پروہ ہاتھ رکھتے ہیں سب سے پہلے وہی سر قلم ہوتا ہے ۔انتخاب
کے بعد سیناپتی ادھو راؤ نے بڑے طمطراق سے اعلان کیا تھاکہ وہ این سی پی
کی مانند غیر مشروط حمایت نہیں کریں گےاگر بی جےپی ان سے حمایت مانگے گی تو
اپنی شرائط پر الحاق کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کریں گے ۔ویسے بی جے پی اگر
چاہے تو این سی پی کے ساتھ چلی جائے ۔
ادھو ٹھاکرے کی اس گیڈر بھپکی کا بی جے پی پرکوئی اثر نہیں ہوا۔ اس کے بعد
سینا کے ذرائع نے کہا کہ امیت شاہ نے وزیراعظم کی موجودگی میں ادھو ٹھاکرے
سے فون پر بات کرکے مبارکباد پیش کی اور سارے معاملات مل جل کرطے کرنے کا
عندیہ دیا لیکن اس خبر کے ساتھ ہی بی جے پی کی تردید بھی اخبارات کی رونق
بنی جس میں اس گفتگو کا انکار کیا گیا تھا ۔ اس کے بعد شیوسینا نے اپنا رخ
نرم کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اگر بی جےپی مہاراشٹر کو متحد رکھنے کا وعدہ
کرے تو وہ مستحکم حکومت کے قیام میں تعاون کرسکتی ہے ۔ اس کے جواب میں بی
جے پی کے ریاستی صدر نے اعلان کردیا کہ ودربھ کے مخالفین سے مصالحت نہیں
ہوگی ۔ اس بیچ ریپبلکن پارٹی کے رہنما رام داس آٹھولے نے ادھو ٹھاکرے سے
ملاقات کرنے کے بعد بتایا کیا کہ وہ الحاق کیلئے آمادہ ہیں ساتھ ہی ذرائع
ابلاغ سے شیوسینا میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کرنے کیلئے پارٹی میں پھوٹکے
امکانات پر بحث چھیڑ دی گئی اور مختلف شہروں کے بلدیاتی انتخابات میں شکست
کی پیشن گوئی کرنے لگے۔
ادھو ٹھاکرے نے دیکھا کہ مہاراشٹر میں دال نہیں گلتی تو انہوں نے اپنے دست
راست دیسائی برادران کو دہلی روانہ کردیا تاکہ وہاں پر بی جےپی مہاراشٹر کے
نگراں جے پی نڈاّ ہی سے ملاقات ہوجائے لیکن ان دونوں کے ساتھ دہلی میں وہی
اہانت آمیز سلوک ہوا جو اندراجی نے مہاراشٹر کے عظیم سپوت یشونت راؤ
چوہان کے ساتھ کیا تھا۔ مودی اور شاہ تو درکنار راج ناتھ یا نڈا نے بھی ان
سے ملاقات کرنے سے انکار کردیااور وہ دنوں بیرنگ لوٹ آئے۔اگر ادھو ٹھاکرے
میں ذرہ ّ برابر غیرت ہوتی تو وہ اسی وقت اپنے مرکزی وزیر سےاستعفیٰ
دلوادیتے اور این ڈی اے سے علٰحیدہ ہوجاتےلیکن اقتدارکی ہوس اچھے اچھوں کو
خوارکرتی ہے ۔ اس موقع پر انتخابی مہم کے دوران کی نوک جھونک یاد آتی ہے
جب شیوسینا نے کہا تھا کہ زیادہ کی ہوس زوجین میں طلاق کا سبب بن سکتی ہے
اس کا جواب بی جےپی نے دیا تھا نامرد کے ساتھ کب تک گزارہ ہوسکتا ہے ۔ ایسا
لگتا ہے انتخاب کے بعد بی جےپی نے شیوسینا کی نسبندی کرکے اسے واقعی نامرد
بنا دیا ہے ۔
اس رسوائی کے بعد ایک اور امید کا دیا روشن کردیا گیا اور یہ خبر اڑائی گئی
کہ دہلی میں وزیراعظم این ڈی اے میں شامل جماعتوں کو دیوالی کی دعوت دے رہے
ہیں ۔ اس میں شریک ہونے کیلئے ادھوراؤ دہلی جائیں گے اور سارے معاملات
ٹھیک کرکے آئیں گے لیکن اس کا دعوت نامہ بھی ادھو کو نہیں آیا ۔ تو جیہ
یہ کی گئی کہ دعوت صرف ارکان پارلیمان کیلئے ہے اس لئے شیوسینا کے لوک سبھا
ممبرس اس میں شریک ہوں گے اور ادھوراؤ گھر میں بیٹھے رہیں گئے ۔ اس کے بعد
جدید ہرکسن داس دواخانے کا افتتاح کرنے کیلئے مودی جی نے ممبئی کا دورہ کیا
اب یہ خبر گرم ہوئی کہ اس میں ادھو اور مودی بات چیت کریں گے یا کم از کم
ان کے درمیان علیک سلیک ہی ہو جائیگی لیکن وہ بھی نہ ہوسکا۔ وہاں بھی ادھو
کوبلانے کی زحمت دواخانے کے مالک مکیش امبانی نے نہیں کی۔ بی جے پی ترجمان
نے کہہ دیا کہ وزیراعظم سماجی کاموں کے دوران سیاسی باتیں نہیں کرتے ۔
اس دوران نوبت یہاں تک پہنچی کہ بی جےپی کے ریاستی رہنماؤں نے واضح کر دیا
کہ وہ شیوسینا کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے۔ وزارتوں کی بابت کوئی
مفاہمت نہیں ہوگی۔ نائب وزیراعلیٰ کا عہدہ ہی نہیں رکھا جائیگا اور شیوسینا
کا اسپیکر بھی نہیں بنے گا جیسا کہ کانگریس اور این سی پی کے دور میں ہوتا
تھا کہ جونیر پارٹنر کو اسپیکر کا عہدہ دیا جاتا تھا۔ شیوسینا کو اس کی
طاقت کے مطابق نہیں بلکہ اپنی ضرورت کے لحاظ سےدو یا زیادہ سے زیادہ پانچ
وزارتیں ملیں گی۔ اس کامعنیٰ یہ ہیں کہ شیوسینا کی نشستیں بی جےپی کی نصف
سے زیادہ ہیں تو ہوا کریں اس کوبی جے پی سے نصف وزارتیں نہیں بلکہ بی جے پی
کو چونکہ صرف ۲۳ کی ضرورت ہے اس کےلحاظ سے سینا کی وزارتوں کاتناسب طے ہوگا
۔ اس طرح گویا سیاست کے بازار کو شاہ جی بنیا نے پرچون کی دوکان بنادیا۔
شیوسینا کے ترجمان سنجے راؤت نے جب دیکھا کہ سختی سے کام نہیں چل رہا ہے
تو اپنا لب و لہجہ بدل کر بولے کہ اگر ہندوستان اور پاکستان بات کرسکتے ہیں
تو بی جےپی اور شیوسینا کیوں نہیں؟ لیکن وہ بھول گئے کہ جہاں بی جے پی
پاکستان سے بات چیت کی قائل ہے وہیں شیوسینا اس کی مخالف ہے نیز وزیراعظم
مودی پاکستانی سربراہ نوازشریف کو تو بریانی کھلا سکتے ہیں لیکن ادھو
ٹھاکرے کو گھاس نہیں ڈال سکتے۔ اس کے بعد راؤت نے جذباتی حربہ استعمال
کرتے ہوئے کہابی جے پی کا اور ہمارا بلڈ گروپ ایک ہی ہے لیکن بی جے پی نے
اس خون کے رشتے کو بھی اہمیت نہیں دی۔ بالآخر شیوسینابھارتیہ ابلہ ناری کے
سمان غیر مشروط حمایت پر راضی ہو گئی اس کے باوجود بی جے پی نے اس کی
ناقدری کرتے ہوئے رسید تک بھیجنے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔ اب شیوسینا کیلئے
صرف دو متبادل ہیں یا تو پیر کی جوتی بن کر ہندوتوا پریوار میں بیٹھی رہے
یااپنی مانگ کا سندور پونچھ کراورہاتھوں کی چوڑیاں توڑ کر گھر سے باہر نکل
جائے ۔ شیوسینا کی حالت زارغالب کےاس شعرکی مصداق ہے کہ ؎
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے
مہاراشٹر کی تاریخ چھترپتی شیواجی سے وابستہ ہے ان سے قبل مراٹھوں کو کوئی
نہیں جانتا تھا ۔ شیواجی کی موت کے وقت ان کا پوتاشاہوجی اورنگ زیب عالمگیر
کی قید میں تھا ۔ اورنگ زیب کے انتقال کے بعدبہادر شاہ اول نے شاہو مہاراج
کو چند شرائط کے عوض رہا کردیا اور وہ اپنے دادا کی وراثت کا حقداربن
کراقتدار پر فائز ہوگیا ۔ شیواجی کے ساتھ کایستھ اور دیشاستھ براہمن تو تھے
لیکن چتپاون براہمنوں کو انہوں نے دور رکھا تھا مگر شاہو جی نے بالاجی
وشوناتھ پیشوا کو اپنا وزیراعظم بنا دیا۔ شیوسینا جب بنی تو اس کا حال بھی
شاہوجی جیسا تھا کہ اس کی پرورش کانگریس نےکی تھی۔ ۱۹۹۵ میں جب اسے اقتدار
ملا تو بالاصاحب ٹھاکرے نے بھی جو خود کایستھ تھے ایک چتپاون براہمن منوہر
جوشی کو وزیراعلیٰ بنانے کی غلطی کی اور براہمنوں کی جماعت بی جےپی پر
اعتماد کیا۔ بی جے پی نے اپنے پرکھوں کی روایت کو دوہراتے ہوئے وہی کیا
جوبالاجی کے بیٹے باجی راؤ نے کیا تھا کہ شیوشاہی کو پیشوائی میں بدل
کرمراٹھا سلطنت پر قابض ہوگیااورشیواجی کے خاندان کو اقتدار سے بے دخل
کردیا ۔ اب اگر ادھو ٹھاکرے اپنی تاریخ سے سبق نہیں سیکھنا چاہتے تو کوئی
کیا کرسکتا ہے؟
پیشوائی کا خاتمہ جس آپسی سر پھٹول کے سبب ہوا تھا اس کا مظاہرہ بی جے پی
کرنے لگی ہے۔ہریانہ کےنظم و ضبط کا مظاہرہ مہاراشٹر کی بی جے پی نہ کرسکی
بلکہ وہ مختلف راجواڑوں میں منقسم نظر آئی ۔ اول دن سے شاہ اورمودی کی
جوڑی دیویندر فردنویس کے ساتھ تھے اس کے باوجود سب سے پہلے سابق ریاستی صدر
سدھیر منگٹیوارنے مرکزی وزیر نتن گذکری کا نام پیش کرکے تنازع کھڑا کردیا۔
گڈکری کے ناگپور آمد پر ۳۰ سے زیادہ ارکانِ اسمبلی نے ان کے گھر پر جاکر
اپنی طاقت و حمایت کا مظاہرہ کیا ۔ نتن یہ کہتے رہے کہ وہ دہلی میں خوش ہیں
لیکن یہ بھی کہہ دیا کہ اگر پارٹی کہے گی تو وہ مہاراشٹر میں آسکتے ہیں ۔
اس طرح گویا انہوں نے بلاواسطہ اپنی خواہش ظاہر کردی ۔ تین ارکان نے
استعفیٰ دے کر اپنے حلقہ سے گڈکری کو انتخاب لڑنے کی پیشکش تک کردی ۔یہانتک
کہ امیت شاہ کو سدھیر کے ڈانٹ لگانی پڑی لیکن بات بڑھتی چلی گئی۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ گڈکری اور فردنویس دونوں کا تعلق ہے ناگپور اور
آرایس ایس سے ہے ۔ یہی نہیں بلکہ ان کے گھریلو تعلقات بھی ہیں ۔ دیویندر
فردنویس کے والد گنگا دھر فردنویس کو نتن اپنا سیاسی گرو مانتے ہیں اور ان
کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ہی دیویندر کو سیاست میں آنے کی ترغیب دی ہے اس
کے باوجود ایک بارگڈکری کے منہ سے یہ نہیں پھوٹا کہ وہ وزارت اعلیٰ کے عہدے
پر دیویندر فردنویس کے حامی ہیں ۔ ناگپور میں جہاں کالی ٹوپی والے سنگھی
ایک دوسرے کی پگڑی اچھال رہے تھے وہیں خاندیش میں سابق حزب اختلاف کے رہنما
ایکناتھ کھڑسے نے فردنویس کو چیلنج کردیا اور وزیر اعلیٰ کی کرسی پر اپنا
دعویٰ پیش کردیا۔ ان کی حمایت میں زبردست جلوس بھی نکلا اور انتخاب سے ایک
روز قبل انہوں نے اپنے باغیانہ تیور بھی دکھائے۔ اس سے گھبرا کر روڈی اور
ماتھر کوان کے گھر سمجھانے کیلئے جانا پڑا۔ اس کے باوجود کھڑسے نے ایک نجی
ٹیلی ویژن چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کا نام بھی زیر غور ہے اور ہنوز
کسی کے نام پر اتفاق نہیں ہوا ہے۔
اس خلفشار کے دوران ودھان پریشد میں بی جے پی کے رہنما ونود تاوڑے نے بھی
اپنا زوردکھایا ساتھ ہی پنکجا منڈے نے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ بی جے پی
کے مرکزی رہنماؤں کو دیویندر فردنویس کو نامزد کرنے کیلئے بڑی محنت و مشقت
کرنی پڑی۔ دیویندر فردنویس کے بارے میں یہ کہا جارہا ہے کہ ان کی شبیہ صاف
ستھری ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان پر ۲۲ مقدمات ہیں ۔ یہ بی جے پی کی
بدقسمتی ہے کہ اسے مرکز میں اقتدار ملا تو ایک ایسے شخص کے ذریعہ جس کا
دامن گجرات کے فساد سے داغدار ہے اور مہاراشٹروزیراعلیٰ ملا تو ایسا کہ جس
پردنگا فسادجیسے جرائم میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ویسے فردنویس پارٹی کی
سطح پر اکثریت سے محروم ضرور ہے لیکن ان کی اسمبلی میں جرائم کے الزامات
میں ملوث افراد اکثریت میں یعنی ۵۷ فیصد ہے اور خود بی جے پی کے اندر ایسے
لوگ ۶۰ فیصد ہیں اس لئے ان کا منتخب ہوجانا فطری لگتا ہے۔ حد تو یہ ۲۰
خواتین ارکان اسمبلی میں سے ۷ پر جرائم میں ملوث ہونے کا الزام ہے ویسے
آدرش ریاست گجرات میں تو مایا کوندنانی کو سزا بھی ہو چکی ہے ۔
بی جے پی نے شیوسینا سے تو انتخاب سے قبل پیچھا چھڑا لیا لیکن اس کی تین
حلیف جماعتیں اب اپنا اپنا دعویٰ پیش کررہی ہیں ۔ راشٹریہ سماج پارٹی
کےمہادیو جانکر اور شیوسنگرام کے ونایک میٹے نے ودھان پریشد کی رکنیت کے
ساتھ کابینی درجہ کی وزارت کا مطالبہ پیش کردیا ہے ۔ ویسے ان میں سب سے
زیادہ آرزومند اور طاقتوررام داس آٹھولے ہیں وہ تو مرکزی وزارت کا مطالبہ
کرنے سے بھی نہیں چوکیں گے۔ بی جے پی کا منصوبہ یہ ہے کہ فی الحال اقلیتی
حکومت قائم کرکے آزاد ارکان اسمبلی کی مدد سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرلیا
جائے۔ این سی پی تحریک اعتماد میں غیر حاضر رہ کر اپنی بلاواسطہ حمایت پیش
کرہی چکی ہے لیکن اس سے پہلے کہ وزارت اعلیٰ کا فیصلہ ہوتاآزاد امیدواروں
نے بھی اپنے پر نکالنے شروع کردئیے اور اپنا ایک سات لوگوں کا گروہ تشکیل
دے کر ایک کابینی ، دو ریاستی وزارتیں نیز باقیماندہ چار حضرات کیلئے
صوبائی کارپوریشنس کی سربراہی کا مطالبہ کردیا۔ روی رانا نے یہ دلچسپ
انکشاف کیا ان سے کانگریسیوں نے حمایت کے عوض وزارت کا وعدہ کیا تھا جو وفا
نہیں کیا گیا اس لئے اس بار وہ محتاط ہیں ۔یہ ہے ہندوستانی جمہوریت میں
آزادی کہ کانگریس اقتدار میں آئے توہاتھ کے ساتھ اور بی جے پی اقتدار
سنبھالے کمل کے بغل میں جاکر بیٹھ جاؤ۔
اس بار مہاراشٹر کے پانچ رخی انتخابات میں راج ٹھاکرے کی ایم این ایس کا
جنازہ اٹھ گیاہے۔شرپوار کی این سی پی نے گوناگوں وجوہات کی بناء پر خودکشی
کرلی ۔ اب آئندہ پانچ سالوں تک شیوسینا اور بی جےپی ایک دوسرے کی قبر
کھودنے میں لگے رہیں گے ایسے میں کانگریس کیلئے سنہری موقع ہے۔ اگر وہ اپنی
ساری توجہات کو رائے دہندگان کے فلاح وبہبود کی جانب مرکوز کردیتی ہے اور
ودھان سبھا میں بی جے پی کے بالمقابل مؤثر حزب اختلاف کا کردار ادا کرتی
ہے تو جب عوام اس حکومت سے مایوس و بیزار ہوں گے تو لازماً کانگریس کا رخ
کریں گے اس لئے کہ ان کے پاس کوئی اور متبادل نہیں ہوگا۔ کانگریس پارٹی ان
مواقع کو اپنے حق میں کس حد استعمال کرپاتی ہے یہ تو وقت ہی بتائے گالیکن
اگر وہ اس براہمنی پیشوائی کا سدباب کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو نہ صرف
شیوشکتی کے سپہ سالارمراٹھےبلکہ بھیم شکتی کےعلمبردار دلت اورمیم شکتی
کےخواستگارمسلمان بھی خوش ہوں گے۔ |