ڈاکٹر طاہر القادری اسلام آباد میں دھرنا ختم کرکے ملک
بھر میں جلسوں میں مصروف ہیں۔ حکومت خوش ہے کہ ایک دھرنے سے تو جان چھٹی۔
مخالفین بڑھ چڑھ کر قادری صاحب کا مذاق اڑا رہے ہیں اور وہ اپنے فیصلے کی
مختلف تاویلیں پیش کررہے ہیں۔ ایبٹ آباد جلسے میں بھی ان کا پورا خطاب
وضاحتوں کے گرد ہی گھومتا رہا۔ ہر معاملے میں ”اندر“ کی بات پر یقین رکھنے
والوں کا اصرار ہے کہ دھرنا کسی ڈیل کے نتیجے میں ختم ہوا ہے،جبکہ طاہر
القادری اور حکومت ڈیل کی تردید کررہی ہےں۔ اصل ماجرا کیا ہے، یہ تو آنے
والا وقت ہی بتائے گا، البتہ اس دھرنے کے کچھ پہلو ایسے ہیں جن پر توجہ
دینا بہت ضروری ہے۔
قادری صاحب کے متعلقین اپنے مرشد کے فیصلے پر مطمئن ہونے کا تاثر دے ر ہے
ہیں، مگر ان کے دلوں کی افسردگی ان کے چہروں سے صاف پڑھی جاسکتی ہے۔ ان
لوگوں نے فیصلہ تو تسلیم کرلیا ہے، لیکن وہ اندر سے ٹوٹ کر رہ گئے ہیں۔
ایسا کیوں ہوا ہے؟ دراصل اس میں ہماری لیڈر شپ کا فالٹ ہے۔ ہمارے ہاں ہو یہ
رہا ہے کہ قائدین بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں، اپنے چاہنے والوں کو حسین خواب
دکھاتے ہیں، لیکن نتیجہ ٹھس نکلتا ہے، جس سے لوگوں کے خواب چکنا چور ہوجاتے
ہیں او وہ دل تھام کر کسی کونے میں جاپڑتے ہیں۔ قادری صاحب نے بھی ایسا ہی
کیا، انہوں نے اپنی قوت اور زمینی حقائق کے برعکس بڑے بڑے دعوﺅں کی بنیاد
پر دھرنا دیا۔ وہ صبح شام انقلاب کی تاریخیں دیتے رہے، اپنی خطابت کے زور
پر لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھاتے رہے کہ بس انقلاب آنے ہی والا ہے۔ یہ
تقاریر سن سن کر لوگوں کے جذبات آسمان پر پہنچ گئے،مگر نتیجہ کیا نکلا،
قادری صاحب جس انقلاب کی نوید سنا رہے تھے، وہ نہیں آیااور لوگوں کے حصے
میں صرف مایوسی ہی آئی۔
طاہر القادری سے تکنیکی غلطی ہوئی ہے، ان کا تنظیمی پھیلاﺅ اتنا زیادہ نہیں
جس کی بنیاد پر وہ محض دھرنا دے کر موجودہ نظام کو ڈھادیں۔ اگر وہ اپنے
مطالبات کو سانحہ ماڈل ٹاﺅن اور اس نوعیت کے دیگر معاملات تک محدود رکھتے
تو انہیں کامیابی ملنے کا امکان تھا، لیکن انہوں نے خود کو قائد انقلاب کے
منصب پر فائز کرکے جو سہانے خواب عوام کو دکھائے، ان کے درست ہونے پر تو
کوئی شبہ نہیں،مگر محض تحریک منہاج القرآن کے بل بوتے پر ان مطالبات کو
تسلیم کرانا ناممکن تھا۔ قادری صاحب معلوم نہیں کیوں اس زمینی حقیقت کو نظر
انداز کرگئے۔ باقی انقلابیوں کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے۔ موجودہ نظام بہت
مضبوط بنیادوں پر قائم ہے، اسے پاش پاش کرنے کے لیے اس سے زیادہ مضبوط قوت
درکار ہے اور ہمارے انقلابی قوت جمع کرنے کی بجائے صرف نعروں سے کام چلا
رہے ہیں۔
لوگوں میں تبدیلی کی امید پیدا کرنا تو ضروری ہے ،مگر انہیں جھانسا دینا یہ
ظلم ہے۔ امید کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے دل ودماغ میں کوٹ کوٹ کر یہ بات
بھردی جائے کہ تم اس نظام کو گراسکتے ہو اور یہ ضرور گر کر رہے گا۔ انقلابی
قائد کا کمال یہ ہوتا ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں، وہ امید کی اس شمع کو
بجھنے نہیں دیتا۔ جھانسے کا مطلب یہ ہے کہ عوام کو انقلاب، انقلاب کی تھپکی
تو دی جائے، مگر کام ٹکے کا بھی نہ ہو۔ اپنی ذاتی غرض یا وقتی سیاسی فائدے
کے لیے خوب انقلاب کے نعرے بلند کیے جائیں اور مطلب پورا ہونے پر انقلاب کو
لپیٹ کر دور پھینک دیا جائے۔ ہمارے بیشتر انقلابی قائدین جو انتخابی سیاست
میں حصہ لیتے ہیں، وہ انقلاب کے نام پر عوام کو جھانسا ہی دیتے آئے ہیں۔
اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ موجودہ نظام بری طرح تباہ ہوچکا ہے، لوگ اس سے
بیزار آگئے ہیں اور وہ تبدیلی چاہتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ تبدیلی یا
انقلاب کیسے آئے؟ ایک طریقہ تو وہ ہے جو طاہر القادری نے اپنایا۔ انہوں نے
دو، تین لاکھ افراد پر مشتمل اپنی جماعت تیار کی، ان میں سے 25 ہزار کے لگ
بھگ لوگوں کو لے کر اسلام آباد پہنچ گئے، باقی کروڑوں لوگوں میں وہ اپنا
امیج بہتر بناسکے اور نہ ان کی حمایت انہیں ملی، نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
ایک طریقہ وہ ہے جو عمران خان نے اپنایا ہوا ہے۔ بلاشبہ لاکھوں لوگ انہیں
چاہتے ہیں، مگر یہ غیر منظم ہیں،اس ہجوم کے ذریعے وہ اقتدار میں تو آسکتے
ہیں مگر جس تبدیلی کی بات کرتے ہیں ،وہ ممکن نہیں۔ ایک طریقہ وہ ہے جو
ہماری ان مذہبی جماعتوں نے اختیار کیا ہوا ہے جو انتخابی سیاست میں حصہ
لیتی ہیں، یہ جماعتیں اپنے پھیلاﺅ پر توجہ دینے کی بجائے محض رسمی نوعیت کے
جلسے جلوسوں پر ہی توجہ دے رہی ہیں، ملک کی ہزاروں یونین کونسلیں ایسی ہیں
جہاں ان تنظیموں کے یونٹ تک قائم نہیں، اس کے باوجود ان کا دعویٰ ہے کہ وہ
عوامی حمایت سے انقلاب لائیں گی۔
دوسری بات یہ ہوئی کہ یہ جماعتیں انقلابی سیاست اور انتخابی سیاست میں فرق
کو سمجھ نہیں پائیں۔ ایک طرف تو یہ جماعتیں انقلاب کی داعی ہیں، مگر دوسری
طرف یہ نشست کے حصول کے لیے ان لوگوں یا جماعتوں سے گٹھ جوڑ کرلیتی ہیں جن
کے خلاف یہ انقلاب لانا چاہتی ہیں۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ عمران خان اور
طاہر القادری کے آس پاس وہ لوگ کھڑے ہیں جن کے خلاف انقلاب آنا چاہیے۔ اسی
طرح مذہبی جماعتیں ان لوگوں کو ٹکٹ دیتی ہیں یا ان جماعتوں سے اتحاد کرتی
ہیں، جو انقلاب دشمن ہیں۔ اس رویے سے دو نقصان ہوتے ہیں، ایک تو یہ کہ
انقلاب کی باتیں مذاق بن کر رہ جاتی ہیں اور دوسری اہم بات یہ کہ انقلابی
قائدین کے اس رویے سے عوام میں مایوسی اور بدظنی پھیلتی ہے۔ انقلاب بڑا
پرکشش لفظ ہے، اسے سنتے ہی خون جوش مارنے لگتا ہے، مگر پاکستان میں اس کے
بار بار غلط استعمال کی وجہ سے یہ اپنی کشش کھوچکا ہے۔
دھرنے کا ایک اور پہلو بھی بہت اہم ہے۔ لوگ خالی ہاتھ جانے پر قادری صاحب
کا دل کھول کر مذاق اڑا رہے ہیں، ٹھیک ہے ہر شخص کے اپنے ذوق کی بات ہے،
لیکن یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ قادری صاحب کا خالی ہاتھ جانا ملک
وقوم کے لیے نیک فال نہیں ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ قادری صاحب کے کئی مطالبات
ایسے تھے جنہیں تسلیم کیا جانا چاہیے تھا۔ سانحہ ماڈل ٹاﺅن پرانصاف ان کا
حق تھا۔ لوگ کہتے ہیں طاہر القادری نے حکومت سے معاملات طے نہ کرکے غلطی
کی۔ مان لیا، ان سے غلطی ہوئی، لیکن حکومت کو انصاف کی فراہمی سے کس نے روک
رکھا ہے؟ طاہر القادری سے معاملات طے پائیں یا نہ پائیں، انصاف دینا تو
حکومت کی ذمہ داری ہے۔ کوئی احتجاج کرے نہ کرے، کوئی مذاکرات کرے نہ کرے،
حکومت کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔ یہاں حکومت نے بہت بڑی زیادتی
کی ہے۔ محض اس لیے سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے متاثرین کو انصاف فراہم نہ کرنا کہ
طاہر القادری حکومت کو نہ جھکاسکے، کھلا ظلم ہے۔ حکومت کے اس رویے سے تو یہ
ثابت ہوتا ہے کہ جس میں طاقت ہوگی، وہ حکومت کو دباسکے گا، حقوق صرف اسے ہی
ملیں گے، باقی لوگ دھکے کھاتے پھریں۔ لوگوں میں اس حکومتی رویے کی و جہ سے
نظام کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک طرف لوگوں میں مایوسی پھیلی اور
دوسری طرف اشتعال پیدا ہوا ہے، یہ دونوں ملک وقوم کے لیے خطرناک اشارے ہیں۔
ریاست تو ماں کی طرح ہوتی ہے، اس کا کام لوگوں کو دھتکارنا نہیں، بلکہ ان
کے زخموں پر مرہم رکھنا ہوتا ہے۔ جہاں کہیں لوگ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند
کررہے ہیں، ان کو سنا جانا چاہیے، ان کی شکایات کا ازالہ کیا جانا چاہیے۔
تکبر اور نظر انداز کرنے کی پالیسی سے معاملات وقتی طورپر تو حل ہوسکتے ہیں
مگر اس کا نتیجہ بڑا بھیانک نکلتا ہے۔
|