جب تحریک پاکستان کا آغاز ہواتو علمائے کرام نے اس میں
بھر پور کردار ادا کیا اگر علماء کرام اس تحریک کا حصہ نہ بنتے تو اس تحریک
کو پذیرائی نہ ملتی تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام نے پاکستان کے قیام کو
اہم مذہبی فریضہ قرار دیا علمائے کرام ملک کے طول و عرض میں پھیل گئے اور
تحریک پاکستان کو کامیاب بنانے کے لئے جلسے،جلوس کا اہتمام کئے لوگوں میں
آزادی کی اہمیت اجاگر کی ،اس مقدس تحریک کا مقصد ایک ایسی مملکت کا حصول
تھا جس میں اﷲ و رسولﷺ کا نظام خلافت قائم کیا جائے اور لوگ اس مقدس نظام
کی برکات سے مستفیض ہو سکیں یہ مملکت دنیا کے بکھرے مسلمانوں کوخلافت قائم
کرکے انکی قیادت و سیادت کا فریضہ سرانجام دے سکے اسی مشن کے پیش نظر علماء
برصغیر نے قائداعظم کی قیادت میں تاریخی کردار ادا کرنے کافیصلہ کیا پیر
جماعت علی شاہ،مولانا ابو الحسنات ودیگر علماء بریلوی نے بریلوی مکتبہ فکر
کی قیادت کی جبکہ مولانا اشرف علی تھانوی کے رفقاء و شاگردوں میں سے مولانا
شفیع دیوبندیؒ،مولانا ادریس کاندہلویؒ، مولانا شبیراحمد عثمانیؒ،مولانا
ظفراحمد عثمانیؒ نے دیوبند مکتبہ فکر کی قیادت کا فریضہ سرانجام دیااس طرح
اہلحدیث مکتبہ فکر کے مولانا داود غزنوی اور انکے احباب نے بھی اس تحریک
میں اہم کردار ادا کیا تحریک پاکستان کے متعلق علمائے دیوبند پر ایک خاص
طبقہ مخصوص الزام عائد کرتا ہے کہ یہ تحریک پاکستان کے خلاف تھے درحقیقت
ایسا ہر گز نہیں ہے اس مکتبہ فکر سمیت تمام مندرجہ بالا دور رس علماء کرام
کاموقف تھا کہ سارا ہندوستان ہمارا ہے سات صدیاں ہم نے یہاں حکومت کی
،انگریز سے آزادی حاصل کرنے کیلئے تحریک آزادی چلائی لاکھوں علماء،
مسلمانوں نے قربانیاں دیں سارے ہندوستان پر اسلام کی مرکزی حکومت قائم کی
جائے اگر ایک مخصوص خطہ حاصل کرلیا گیا تو باقی ماندہ خطے کے مسلمان ہندوؤں
کے غلام بن کر زندگی گزاریں گے ہندو تاریخ میں کبھی حکمران نہیں رہے اس
موقف کوایک مکتبہ فکر کے ساتھ نتھی کرنا درست نہیں اور ویسے بھی اس موقف کے
حامل علماء وقائدین نے جو پیشن گوئیاں کیں تھیں آج وہ درست ثابت ہورہی ہیں
جبکہ تحریک پاکستان کے قائدین کا موقف تھا کہ خطہ حاصل کرکے مسلمانوں کے
حقوق کی جنگ لڑی جائے گی تحریک پاکستان کے دوران ایک واقعہ جس سے علماء حق
کی تائید ہوتی ہے رقم کئے دیتے ہیں کہ قائد اعظم کئی بار مولانا اشرف علی
تھانوی ؒ کو تحریک پاکستان کا حصہ بنانے کے لئے انکے پاس گئے مگر انہوں نے
ملنے کا وقت نہ دیا ایک رات مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کو خواب میں حضور ﷺ
کا دیدار ہوا اور حضور ﷺ نے آپ ؒ کو ہدایت فرمائی کہ تحریک پاکستان کی
حمایت دو اور انکا بھرپور ساتھ دو اس خواب کے بعد مولانا اشرف علی تھانوی ؒ
قائداعظم ؒ کے پاس خود تشریف لے گے مولانا اشرف علی تھانوی، ؒ مولانا شفیع
دیوبندیؒ،مولانا ادریس کاندہلویؒ،مولاناشبیراحمدعثمانیؒ،مولانا ظفراحمد
عثمانیؒ اور انکے رفقا ء شاگردوں نے تحریک پاکستان میں وہ کلیدی کردار ادا
کیا جو سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے خاص طور پر سرحدی علاقے کے طوفانی
دورے کئے اورپختون برادری کو تحریک پاکستان کی حمایت پر راضی کیا امیر ملت
جماعت علی شاہؒ اور انکے رفقاء نے پنجاب میں لوگوں کو بیدار کرنے میں خاص
کردار ادا کیاان دو بڑے مسالک کے علماء نے تحریک پاکستان کی منزل کو قریب
تر کردیا بالآخر پاکستان معرض وجود میں 14اگست 1947کوآگیا جب قیام پاکستان
کے بعد قومی پرچم لہرانے کا موقعہ آیا کراچی میں پرچم لہرانے کا اعزاز
مولانا شبیر احمد عثمانی ؒاور ڈحاکہ میں پرچم لہرانے کا اعزاز مولانا ظفر
احمد عثمانی ؒ کو حاصل ہوا،ان دونوں علماء کا تعلق خوش قسمتی سے علماء
دیوبند سے تھا جو اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ علماء دیوبند نے تحریک پاکستا
ن میں کلیدی کردار ادا کیا دوسری یہ حقیقت کھول کر سامنے آتی ہے کہ تحریک
پاکستان میں علمائے کرام کا بنیادی کردار تھا جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں
کرسکتی ، قیام پاکستان کے بعد جب قائداعظم سے استفسار کیا گیا کہ اﷲ کی
زمین پر اﷲ کا نظام قائم کیا جائے جس کے لئے پاکستان بنا اس پر ابتدائی کام
بھی کیا گیا مگر اسلامی نظام کا راستہ روکنے کے لئے قائداعظم کو ہم سے جدا
کردیا گیا آج بھی پاکستان کی سرزمین ،شہدائے تحریک پاکستان کی روحیں باطل
نظام جمہوریت کو چھوڑ کراسلامی نظام قائم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں نہ
جانے آج علماء کرام پاکستان میں اسلامی نظام خلافت قائم کرنے کی جدوجہد سے
کیوں قاصر نظر آتے ہیں ؟ آج کے باوقار،ذی شعور علماء سے قوم مطالبہ کر رہی
ہے کہ مسنون طریقے پر عمل کرتے ہوئے باطل نظام جمہوریت کو چھوڑکر اسلامی
نظام خلافت قائم کرکے قیام پاکستان کا مقصد پورا کیا جائے۔
|