مہاجر فی سبیل اﷲ کون؟
(Prof Akbar Hashmi, Rawalpindi)
قرآن پاک اور تعلیمات سنت سے بے
بہرہ لوگوں کا یہ عالم ہے کہ کسی نے کچھ بتا دیا تو اپنے مقاصد کے لیئے
بالکل سی طرح چل پڑے جس طرح یہودی اور صلیبی چلے ۔ جن کے بارے قرآن پاک میں
حکم ہوا کہ (میری آئیتوں کو حقیر داموں کے بدلے نہ بیچو)میرا مشورہ ہے کہ
اچھے مسلمان بنو اور اس کا طریقہ قرآن و سنت فہمی ہے۔ کچھ کالجوں اور
یونیورسٹیوں میں حصول تعلیم کے بہانے ایک ایسی لیڈر شپ نے جنم لیا کہ قتل و
غارتگری، اغوا اور ڈاکوں کی فضا بن گئی۔ اپنی لیڈری چمکانے اور مال پیدا
کرنے کے لیئے کئی تنظیمات وجود میں آئیں اور حکمرانوں، بیوروکریٹس ،
سیاستدانوں،ججوں اور تاجروں کو خطرناک نتائج سے بچنے کے لیئے بلیک میل کیا
گیا اور ان سے مفادات حاصل کیئے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ اب تو یہ پاکستانی
قوم کے کلچر کا بڑا حصہ ہے۔ کسی نے اسے سدھارنے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ
اکثر انکے سہارے بے کیف زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ اسی ایک صاحب ٹی وی پر
اپنی ہجرت کے فضائل بیان کرتے ہوئے کسی مولوی کی رہنمائی حاصل کرکے قرآنی
آیات کے حوالے دے رہے تھے۔ وہ واضح طور پر یہ تاثر دے رہے تھے ان کو وہی
فضیلت حاصل ہے جو ہجرت مدینہ والے اصحاب رسول ﷺ کو حاصل ہے۔ ہجرت کا لفظ
عام ہے ۔حیرت ہے کہ جو ہندواور سکھ بھارت گئے انہوں نے بھی اپنے آپ کو
مہاجر کہا۔ جو آدمی پانی میں ڈوب کر یا کسی حادثاتی موت کا شکار ہواسے بھی
شہادت کا درجہ ملے گا۔ لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ کفار سے جنگ کرتے ہوئے شہید
ہونے والا اور حادثاتی موت پانے والا دونوں برابر ہیں تو از روئے شریعت غلط
اور بیہودگی ہوگی۔ اسی طرح اسلام میں ہجرت اﷲ کے دین کی خاطر اپنے وطن اور
مال و جائیداد کو ترک کرکے ایسی جگہ چلے جانا کہ جہاں مسلمان قرآن و سنت کے
مطابق آزادی کے ساتھ زندگی بسر کرسکے اور غیرمسلموں کے ظلم و تشدد سے اسے
تحفظ حاصل ہو۔ اگر کسی ملک میں مسلمان رہ رہے ہوں اور وہاں کے غیر مسلم ان
کی جان و مال اور عزت آبرو کو نشانہ بنائیں تو دنیا کے دیگر مسلمانوں پر یہ
فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ انہیں کفار کے ظلم و تشدد سے بچانے کے اپنے تمام تر
وسائل بروئے کار لائیں خواہ اسکے لیئے انہیں لڑنا پڑے ۔ غیر مسلم حکومت
مسلمانوں کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنائے۔ حضور اکرم ﷺ نے اپنے چچا حضرت
عباس بن عبدالمطلب رضی اﷲ عنہما کو فرمایا کہ جس طرح مجھ پر نبوت ختم ہوئی
اسی طرح آپ پر ہجرت ختم ہوئی ۔ جب کفار مکہ کے مظالم برداشت کرتے ہوئے
تیرھواں سال شروع ہوگیا تو سرورعالمین ﷺ کو اﷲ تعالیٰ نے حکم دیا کہ
مسلمانوں کو مدینہ طیبہ ہجرت کا حکم دیں لیکن خود اﷲ کے حکم کا انتظار
فرمایا۔ اس سے قبل حبشہ (ایتھوپیا ) عیسائی ریاست کی طرف بھی حضور اکرم ﷺ
کے حکم سے کچھ مسلمانوں نے ہجرت فرمائی جن میں رسول کریم ﷺ کے داماد سیدنا
حضرت عثمان غنی رضی اﷲ بھی شامل تھے اور انکے بارے امام الانبیاء ﷺ نے
فرمایا کہ اپنے اہل کے ساتھ پہلے حضرت لوط علیہ السلام نے ہجرت کی اور انکے
بعد حضرت عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ نے۔ یا رکھیں کہ جو کچھ ہوا وہ حالات کے
تقاضوں یا کسی انسانی مشورہ سے نہیں ہوا۔ سب کچھ حکمت الہٰی تھی جس پر اﷲ
کے رسول ﷺ عمل درآمد فرمارہے تھے۔ کفار کی شامت آنے والی تھی اور کفار آپ ﷺ
کی موجودگی میں اس سے دوچار نہیں ہوسکتے تھے۔ مکہ مکرمہ جہاں بیت اﷲ شریف
ہے اﷲ کے رسول ﷺ کو اسکی جدائی برداشت کرنی پڑی۔یہ حکم الٰہی تھا ۔ اﷲ کے
رسول نے ہجرت فرمائی اور بعد میں حضرت علی مرتضےٰ کرم اﷲ تعالیٰ وجھہ بھی
ہجرت فرماگئے۔مکہ معظمہ سے ہجرت ایک ایسا امرتھا کہ جو ایمان کی کسوٹی تھی
اور یہ عمل نماز کی طرح فرض تھا اور بعد میں اسکی فرضیت ختم ہوگئی۔ کیونکہ
اﷲ کے رسول ﷺ کی ہجرت کی پیروی مسلمانان مکہ پر لازم تھی۔ مکہ معظمہ کی فتح
کے ساتھ ہی ختم ہوگئی۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم کی سورۃ الانفال میں اس اہم
باب کے بارے فرمایاآئت نمبر ۷۲تا ۷۵ مفہوم(بے شک جو ایمان لائے اور اﷲ کے
لیئے گھر بار چھوڑے اور اﷲ کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں سے لڑے اور وہ
جنہوں نے جگہ دی اور مدد کی وہ ایک دوسرے کے وارث ہیں اور وہ جو ایمان لائے
اور ہجرت نہ کی تمہیں ان کا ترکہ کچھ نہیں پہنچتاجب تک ہجرت نہ کریں اور
اگر وہ دین میں تم سے مدد چاہیں تو تم پر مدد دینا واجب ہے مگر ایسی قوم پر
کہ تم میں ان میں معاہدہ ہے اور اﷲ تمہارے کام دیکھ رہا ہےo اور کافر آپس
میں ایک دوسرے کے وارث ہیں۔ایسا نہ کروگے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد
ہوگاo اور وہ جو ایمان لائے اور ہجرت کی اور اﷲ کی راہ میں لڑے اور جنہوں
نے جگہ دی اور مدد کی وہی سچے ایمان والے ہیں۔انکے لیئے بخشش ہے اور عزت کی
روزیo اور جو بعد کو ایمان لائے اور ہجرت اور تمہارے ساتھ جہاد وہ بھی
تمہیں میں سے ہیں اور رشتہ والے ایک دوسرے سے زیادہ نزدیک ہیں اﷲ کی کتاب
بے شک اﷲ سب کچھ جانتا ہےO
ان آیات میں مکہ معظمہ سے ہجرت میں سبقت کرنیوالوں اور مدینہ طیبہ کے مقامی
مسلمانوں کو سب سے بلند درجہ دیا گیا۔ غزوہ بدر میں مہاجرین و انصار ہی گئے
تھے ۔ ان بدری صحابہ کرام رضوان اﷲ علیھم اجمعین کا یہ مقام ہے کہ اﷲ تعالیٰ
نے تازیست ان کی خطائیں معاف فرمائیں اور کسی قصور پر ان سے مواخذہ نہیں
ہوا۔ کتب احادیث میں چند ایسے حضرات کے معاملات درج ہیں۔ پھر درجہ ہے غزوہ
احد میں شامل ہونے والوں کا پھر غزوہ خندق اور پھر فتح مکہ تک ایمان لانے
والوں اور غزوہ مکہ میں شامل ہونے والوں کا۔ غزوہ مکہ کے بعد والوں کے
درجات برابر ہیں اور یہ درجہ بندی قرآن کے مطابق سیدنا امیرالمؤمنین حضرت
عمر فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے جاری رکھی اور اسی کے مطابق آپ نے بدری اصحاب
کے وظائف سب سے زیادہ رکھے۔ یہ مقدس ہستیاں اﷲ کے جلال پادشاہی کی گواہ ہیں۔
جن کی امداد اور خدمت کے لیئے روئے زمین پر اولین نزول ملائکہ ہوا۔ بزرگ
بتاتے ہیں کہ مصائب اور مشکلات کی دوری کے لیئے اصحاب بدر رضی اﷲ عنھم کے
اسمائے گرام پڑھے جائیں تو انکی برکت سے اﷲ تعالیٰ کرم فرماتا ہے۔ کچھ
مسلمان اپنے مال اسباب کی مصلحت سے مکہ معظمہ سے ہجرت کرکے نہ آئے تو اﷲ
تعالیٰ نے انکے ساتھ معاشرتی تعلق بھی ختم کرنے کا حکم دیدیا۔ ہجرت کرکے
آنے والوں کا مکہ معظمہ میں چھوڑے ہوئے اثاثوں سے تعلق ختم ہوگیا اور وہ
کفار کی ملکیت ہوگئے۔صلح حدیبیہ کے بعدبھی کوئی مہاجر مکہ معظمہ اپنے رشتہ
داروں کو ملنے نہیں گیا۔ مگر یہاں تو ویزا لگواکر ہجرت نہ کرنے والوں کو
ملنے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے فتح مکہ کے بعد اﷲ کے رسول ﷺ اور مہاجرین حضرات
وہاں نہ ٹھہرے حالانکہ انکے گھر اور جائدادیں موجود تھیں۔ معلوم ہوا کہ
ہجرت پیچھے چھوٹ جانے والے اثاثو ں پر حق ملکیت ختم کردیتی ہے۔ لیکن تقسیم
ہند کے وقت ترک وطن کرکے آنے والے حضرات نے اپنے اثاثوں کے کلیم داخل کیئے
۔ انکے کلیم باضابطہ طور پر بھارتی حکومت کو بھیجے گئے اور وہاں سے تصدیق
کے بعد حکومت پاکستان نے انہیں انکے برابر یا زیادہ جائدادیں دیں۔ اگر وہ
اپنے آپکو شرعی مہاجر قرار دیتے ہیں تو بھارت میں متروکہ املاک کے وہ وارث
نہیں کیونکہ ہجرت اس ملکیت کی نفی کرتی ہے۔ ان کلیموں کے سلسلے میں کئی
لوگوں نے جعلی کلیم منظور کرائے کیونکہ بھارت میں انکے رشتہ دار تھے اور وہ
وہاں سے جعلی تصدیقات کرادیتے تھے۔ علماء کرام نے ہندوستان کو دارالحرب
قرار دیا تھا لیکن جہاں جہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ تھی وہ لوگ وہیں رہے
اور آج بھی بھارت میں ایسا ہی ہے کہ جہاں کہیں مسلمان چند ایک گھر ہیں وہاں
ہندو ان پر تشدد کرتے ہیں لیکن اسکے باوجود بھارت میں تقریبا پچیس کروڑ
مسلمان بستے ہیں۔ ان میں بہت سارے خوشحال بھی ہیں اور امن کے ساتھ رہ رہے
ہیں۔ وہاں مساجد میں باقاعدہ اذانیں ہوتی ہیں ، پنجگانہ جماعت ہوتی ہیں۔
ابھی محرم الحرام عاشورہ محرم بھی منایا جائے گا۔ بڑے بڑے دینی مدارس ہیں
ان میں سے ایسے بھی ہیں جو دین اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں اور ہندوازم کے
خلاف ہیں۔نادرونایاب کتب کی اشاعت ہوتی ہے۔ 1966 میں میں نے ایک آدمی کے
ذریعہ مشکوۃ شریف کی شرح اشعۃ للمعات منگوائی جو و ہ آگرہ سے لائے 45=/
روپے کی آئی تھی اور انہوں نے دہلی تا آگرہ کا پندرہ روپے کرایہ لیا تھا کل
60 روپے لگے تھے ۔یہ کتاب دیوبند میں چھپی اور چار جلدیں ہیں ۔ علامہ شاہ
عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ کی فارسی شرح ہے۔ دیگر کتب کے ساتھ یہ
میرا قیمتی اثاثہ ہے۔ ان حالات کا ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ 1947 میں اگر
ہندوؤں سکھوں اور انگریزوں کے مظالم کا شکار ہوئے۔ ان ہنگاموں میں جو مارے
گئے وہ شہید ہیں ۔ اﷲ ان پر رحم فرمائے کیونکہ وہ صرف مسلمان ہونے کی وجہ
سے مارے گئے۔ جو پاکستان میں آگئے۔ یہاں کے لوگوں نے انکی خوب مدد کی، آتے
ہی انہیں ہندوؤں کی متروکہ جائدادیں دی گئیں۔ چونکہ ان میں انگریزی تعلیم
یافتہ طبقہ تھا۔ اس افراتفری میں نظام حکومت چلانے میں وہی پیش پیش تھے۔ ان
میں سے اکثریت نے کلیموں اور اپنے اعلیٰ عہدوں کی وجہ سے خوب مال بنایا۔ یہ
وہ ہجرت نہیں کہ اسے ہجرت نبوی سے نسبت دی جائے۔ مصیبت زدہ لوگوں نے
پاکستان میں پناہ لی۔ان لوگوں نے خالی جگہوں پر قبضہ کرکے جھگیا ں بنائیں ۔
حکومت نے انہیں مکانوں میں شفٹ کیا مگر کئی لوگوں نے کاروباربنالیا ۔ مکان
بیچا اور پھر جھگیاں بنالیں۔ مختلف حکومتوں نے پناہ گزیں حضرات کے لیئے
مکانات بنوائے ۔ کراچی میں یہ لوگ زیادہ آباد ہوئے۔67 سال ہوگئے ان میں سے
اکثریت فوت ہوچکی انکی اولاد مقامی ہے وہ مہاجر نہیں۔ ایک صاحب ٹی وی پر
اپنی ہجرت کے فضائل میں قرآنی آیات کے حوالے دے رہے تھے جو سراسر بے ادبی
اور گستاخی ہے۔ انہیں دین کا علم نہیں ورنہ تبلیغ کے لیئے آنے والے صحابہ
کرام رضوان اﷲ علیھم اجمعین ، حضرت شہباز قلندر اور دیگر بزرگان دین کے
بارے یہ نہ کہتے کہ وہ ہجرت کرکے آئے تھے۔ اگر کوئی آدمی کسی اسلامی ملک
میں جاکر رہنے لگے تو وہ ہرگز مہاجر نہ کہلائیگا۔ جو لوگ عرب ممالک یا یورپ
و امریکہ کے ممالک میں سیاسی پناہ لیئے رہ رہے ہیں یا وہاں ملازمتیں کررہے
ہیں تو علماء ایم کیو ایم ان سب کے مہاجر ہونے کا فتویٰ جاری کردیں۔ اسی
طرح اب پاکستان میں بسنے والے مسلمان اور غیرمسلم سبھی پاکستانی ہیں۔ زبان
اور قبیلے تو پہچان کے لیئے اﷲ نے بنائے۔ حسن ظن سے کام لیا جائے۔ کوئی
اپنے آپکو بڑا مسلمان نہ کہے بلکہ دوسرے مسلمان کو اپنے اوپر ترجیح دے۔
پاکستان کو پاکستان بنانے کی جدوجہد کی جائے جو آج تک نہ علمائے کرام نے کی،
نہ مشائخ نے نہ سیاسیوں نے۔ رہا صوبوں کا معاملہ صوبے عوام کی بہتری اور
فلاح و بہبود اور انکے مسائل کے حل کے لیئے بنائے جاتے ہیں۔ جب آبادی زیادہ
ہوگئی تو انتظامی طور پر تقسیم ضرور ہوگی۔ اگر موجودہ اضلاع کو صوبوں کا
درجہ دے دیاجائے تو زیادہ اچھا ہوگا۔ اس بارے جناب طاہرالقادری صاحب نے جو
انتظامی اصلاحات تجویز کی ہیں وہ مناسب لگتی ہیں۔ ملک میں ایک سپریم کورٹ
اسلام آباد میں ہے اگر ہر ضلع کی سطح،تحصیل کی سطح اور یونین کونسل کی سطح
پر اختیارات چلے جائیں تو عوام میں خوشحالی کا انقلاب ضرورآئے گا۔ زبان یا
قومیت پر تفریق کو اسلام نے مٹا دیاہے جو اپنے آپ کو مسلمان کہلاتا ہے وہ
اسلام کے دائرہ میں رہے۔ مسلمانوں میں تفریق ڈالنا اور اسلامی ریاست کے
ٹکڑے کرنے کی کوشش منافقانہ عمل ہے۔ پہلے ہندوستان میں ایسا ہی ہوا تو
انگریز آگئے۔ پاکستان کو قائد اعظم کا پاکستان تو بنا نہ سکے ۔ اﷲ سے ڈرو ۔پاکستان
ہے تو ہم سب ہیں۔ |
|