سکاٹ لینڈ ریفرنڈم مسئلہ کشمیر اور فلسطین
(S.M Irfan Tahir, Lahore)
آزادی افکا ر سے ہے ان کی تبا ہی
رکھتے نہیں جو فکر و تدبر کا سلیقہ
ہو فکر اگر خام تو آزادی افکا ر !
انسان کو حیوان بنا نے کا طریقہ!
حضرت واصف علی واصف فرما تے ہیں بلند فطرت انسان پست حالا ت سے گزریں تو
بھی ان کا مزاج پست نہیں ہو تا ۔بر طا نیہ کی پا رلیمان کے ایوان زیریں
یعنی دا رلعوام میں گذ شتہ رو ز اسرائیل کے ساتھ ساتھ فلسطین کو علیحدٰہ
ریا ست کے طو ر پر تسلیم کر نے کے حق میں ایک تحریک بھا ری اکثریت سے منظو
ر کر لی گئی ۔ فلسطین کو علیحدٰہ ریا ست کے طو ر پر تسلیم کرنے کی اس تحریک
کے حق میں 274 جبکہ مخالفت میں صرف 12 ووٹ ڈا لے گئے جو گمان کیا جا سکتا
ہے کہ متشد دیہو دی لا بی کی طرف سے ڈا لے جا سکتے ہیں ۔ اس مسئلہ فلسطین
کے پر امن حل کے لیے دوبا رہ مذاکرات آغا ز پذ یر کرنے میں نہا یت مدد ملے
گی ۔ دنیا بھر میں سو کے قریب ملک پہلے ہی فلسطین کو تسلیم کرچکے ہیں جس
طرح سے فلسطین کو ریا ست کے طو ر پر تسلیم کرنا اور ماننا ایک اصولی فیصلہ
انصاف اور امن کی طرف مثبت قدم ہے من و عن اسی طرح اقوام عالم کو مسئلہ
کشمیر کی حقا نیت ، حقیقت اور اہمیت کو تسلیم کرنا ہو گا سوچنے کی با ت یہ
ہے کہ فلسطین کو موجود ہ حالا ت کے تناظر میں دیکھا جا ئے تو وہا ں ایک
مذہبی عسکری تنطیم کی نقل و حرکت کو وجو ہا ت بنا کر کھلے عام قتل و غا رت
اور عالمی دہشتگردی کی فضا ء قائم کی گئی ہے اور اس مسئلہ سے ہٹ کر بین الا
قوامی سطح پر کو ر ایشو کشمیر جس کو با قا عدہ طو ر پر دونوں ممالک پاکستان
اور بھا رت متنا زعہ تسلیم کرتے ہو ئے اپنے اپنے تحفظا ت با رہا پیش کر چکے
ہیں اور یہ مسئلہ غیر معمولی حیثیت اختیا ر کر چکا ہے پو ری دنیا کی نظریں
اسوقت اس اہم ایشو کی بد ولت براعظم ایشیاء پر مرکو ز ہیں بعض مکا تب فکر
کا یہ بھی خیال ہے کہ مفادات کی جنگ اور عالمی سا زشو ں کی بد ولت بھی ان
دو مسائل کو حل کے قریب نہیں آنے دیا جا رہا ہے حا لا نکہ مسئلہ فلسطین کے
بر عکس کشمیر ایشو کا حل زیا دہ مو ئثر اور آسان دکھائی دینے لگا ہے دنیا
نے کھلی آنکھ یہ عملی نمونہ دیکھا ہے جمعرات 18 ستمبر 2014 کو سکا ٹ لینڈ
کی خود مختا ری کے لیے استصواب را ئے کا انعقاد کیا گیا 55% اسکاٹ لینڈ میں
بسنے وا لے عوام نے خو د مختاری کے خلا ف اور الحا ق برطانیہ کے حق میں
اکثریتی ووٹ دیا 6عا لمی قوتو ں امریکہ ، چا ئنہ ، فرانس ، روس اور بشمول
جرمنی برطانیہ نمایا ں حیثیت کا حامل ہے بے پنا ہ قوت معشیت اور طا قت کے
با وجود بھی بر طانیہ نے سکاٹش عوام کو کسی با ت پر مجبو ر نہیں کیا اور نہ
ہی جبری طو ر پر انہیں اپنے ساتھ شامل کرنے یا ان پر کوئی فیصلہ تھونپنے کی
قطعا سعی نہیں کی بلکہ ایک احسن انداز میں حقیقی جمہو ری راستہ اختیا ر
کرتے ہو ئے سکاٹ لینڈ کے باسیو ں کو ان کا حق رائے دہی استعمال کرنے کا پر
امن موقع فراہم کیا اور دنیا نے دیکھا کے بغیر کسی جنگ و جدل ، ہنگا مہ
آرائی اور قتل وغا رت کے بڑے ہی پر امن اور پر اطمینان انداز میں یہ خاصہ
پیچیدہ اور متنا زعہ مسئلہ با آسانی حل ہو گیا ۔ سکاٹ لینڈ کے ریفرنڈم کی
طرح کشمیر میں بھی ریفرنڈم کا اہتمام کیا جا ئے ۔ دنیا کی سپر طا قتیں با
لخصوص امریکہ اور برطانیہ ثا لثی کا کردار ادا کرتے ہو ئے مجبو ر و مظلوم
اور ما یو سیو ں کا شکا ر کشمیری قوم کو بھی ان کا حق خود ارادیت کے اظہا ر
کا موقع فراہم کریں نہ تو پاکستان کے اقتدار میں کوئی ایسی حکمران جما عت
اور شخصیت موجود ہے جو اس اہم اور متنا زعہ مسئلہ کا پر مغز حل تلا ش کرنے
میں اپنا کردار ادا کرسکے اور نہ ہی بھا رتی ایوانوں میں ایسے حکمران اور
سیاستدان موجود ہیں جو کشمیری قوم کے ساتھ انصا ف پر مبنی برتا ؤ کرسکیں ۔
دنیا کے منصف اس اہم ترین مسئلہ کے تصفیہ طلب حل کی خا طر دو قدم آگے بڑھ
کر اپنے بڑھے پن کا مظا ہرہ کرتے ہو ئے عملی اقداما ت اٹھا ئیں جو دنیا کی
تا ریخ میں ایک نا یا ب اور بے مثال باب کا رخ اختیا ر کر جائیں ۔ جمہو ریت
انسانیت اور فرضیت کا یہی تقا ضا ہے کہ فطرت کے تقا ضو ں کو پوار کرتے ہو
ئے کشمیر کے مسئلہ کو عملی جا مہ پہنایا جا ئے کیا کشمیر میں بسنے والے
مظلوم عوام کا خون پا نی کے مترادف ہے ؟ کیا وہا ں بسنے والی عزتیں اور
عصمتیں انسانی حقوق کے دائرہ کا ر سے با ہر ہیں ؟ کیا خطہ کشمیر امن اور
انصا ف سے مبراء ہے ؟ کیا انسانیت کے علمبرداروں کو معصوم کشمیری بچو ں کی
آہ و بکا ء سنائی نہیں دیتی ہے ؟کشمیر ی قوم کی مسلسل نصف صدی سے زائد
غلامی کی یہ زنجیر سوالیہ نشان بنی ہوئی دنیا میں موجود انسانی حقوق کی
تنظیمو ں اور عدل و انصا ف کے علمبرداروں کے لیے اس حوالہ سے ہر ایشیائی
خطہ میں بسنے والے کا فعال کردار قابل ستا ئش اور قابل فخر ہے نئی نسل آج
یہ سوالا ت کرتی ہے اپنے بڑوں سے کہ جہد مسلسل کی ایک طویل تاریخ اوراقدا
ما ت کا کیا حل نکلا ہے ؟ کیو ں کشمیر کے مقدر میں آزادی کی سحر طلو ع نہیں
ہو رہی ہے ؟ ان سوالا ت کا جواب مختصر اور سا دہ سا یہی ہے کہ اس مسئلہ کے
حوالہ سے با العموم ہر فر د اپنی بساط اور دا ئرہ کا ر کے مطا بق اپنی اپنی
جگہ مخلصا نہ طو ر پر تگ و دو کرتا رہے اور با لخصوص بیر ونی دنیا میں آبا
د کشمیری کمیو نٹی اپنی بھر پو ر صلا حیتو ں اور وسا ئل کے ساتھ اس اہم
مسئلہ کو ہر جہد اور ہر سمت میں بھرپو ر اجا گر کرنے اور دنیا کو متوجہ
کرنے میں نمایا ں کردار ادا کریں اور اپنا موقف اور نظریا تی لگا ؤ اپنے
آنے والی نسلو ں میں بھی منتقل کرتے رہیں تا کہ اس مسئلہ کی تر و تا زگی
اور اہمیت میں کوئی کمی واقع نہ ہو اور ہر فرد خطہ کشمیر میں بسنے والی
عوام کے دکھ درد اور کرب کو قریب سے محسوس کر سکے یہ با ت سن لیں دشمنان
انسانیت اور دہشتگرد وہ چاہیں القا عدہ سے وابستہ ہو ں ، داعش یا طالبان
شدت پسند گروپوں میں سے ہوں ان کی ضرورت نہیں ہے کشمیری قوم کو مسئلہ کشمیر
ایک مقدس شہیدوں اور غا زیو ں کی وراثت ہے اس کی کامیابی کے لیے یا اس کے
حل کے لیے کسی دہشتگرد ، انتہا پسند،خو د کش حملہ آور اور بد امنی پھیلا نے
والے بد مذہب کی ضرورت نہیں ہے جو دہشتگردتنظیمیں اور شخصیا ت کشمیری قوم
کی مجبو ری اور محرومی کو آڑ بنا کر اس مسئلہ کے اندر ثا لثی بننے یا اپنا
کردار ادا کرنے کا اعلان کرتے ہیں ان کا حقیقی کشمیری قوم کے موقف نظریا ت
اور احساسا ت و جذبا ت سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں ہے جو لو گ اسلام اور
مذہبی اقدار سے بالا تر افعال میں مبتلاء ہیں ان کا اس پاک اور مثبت تحریک
اور جد و جہد آزادی سے کوئی تعلق نہیں ہے ان لو گو ں کو خبردار کردیا جا ئے
کہ کشمیر ی اپنے فطری حق کے لیے اور اپنی آزادی کے لیے کسی منفی عنصر کا
سہا را نہیں لینا چاہیں گے جو لو گ اس تحریک میں خود کو شامل کرکے اسے بھی
متنا زعہ بنا نے اور دنیا کے سامنے گندہ کرنے میں لگے ہو ئے ہیں وہ محتا ط
رہیں جو کشمیری مجا ہدین آٹھ لاکھ بھا رتی فوج کے خلا ف بر سر پیکار ہو
سکتے ہیں وہ اپنی بندوقوں کا رخ نام نہا د مسلمان انتہا پسند تنظیمو ں اور
دہشتگردوں کی طرف بھی موڑ سکتے ہیں ۔
فنا کا ہو ش آنا زندگی کا درد سر جانا
اجل کیا ہے خما ر با دہ ہستی اتر جانا
بہت سودا رہا واعظ تجھے نا ر جہنم کا!
مزا سوز محبت کا بھی کچھ اے بے خبر جانا
مصیبت میں بشر کے جو ہر مردانہ کھلتے ہیں
مبا رک بزدلو ں کو گردش قسمت سے ڈر جانا
|
|