کل بھی گلو آزاد تھا ۔۔۔۔آج بھی گلو آزاد ہے

سانحہ ماڈل ٹاؤن کو ساڑھے چار ماہ کا عرصہ بیعت چکا ہے مگر ناصرف اِ س سے متاثر ہونے والی عوامی تحریک کے لئے ناقابلِ فراموش ہے بلکہ ملک بھر کی عوام بھی اسے صدیوں یاد ہی رکھے گی عوامی تحریک تو اِس لیئے کہ اُن کو چودہ لاشیں اٹھانا پڑیں مگر عام عوام اِس لیئے اِس واقعہ کو یاد کرے گی کہ اِس میں گلو بٹ نامی ایک فنی کریکٹر خوب اُبھر کر سامنے آیا وہ بھی اپنی مسخری عادات کے باعث گلو بٹ کا اصل نام شاہد عزیز بٹ ہے جبکہ اپنی عادات اور لمبی موچھوں کے باعث یہ شریف لوگوں کو خوب اُلو بناتا رہا اور مبینہ طور پر لوگوں سے بھتہ بھی وصول کرتا ہے جبکہ پولیس کا بھی ٹاؤٹ تھا تاہم موصوف اِن تمام باتوں سے انکاری ہے اور پولیس ٹاؤٹی کو وہ گالی کا نام دیتا ہے مگر یہ بات تو طے ہے کہ گلو پولیس کے ٹاپ ٹین ٹاوٗٹوں میں سرِ فہرست ہے اسی لیئے تو پولیس کے ساتھ ہاتھ بٹانے اور گاڑیوں کے شیشوں کو توڑنے کی صورت میں اپنے ہاتھ خوب صاف کرنے میں گلو بٹ پیش پیش تھا لاہور کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کے معزز ججز صاحبان نے تمام گواہان اور دلائل کی روشنی میں موصوف کو گیارہ سال اور تین ماہ کی قید کی سزاء سناتے ہوئے حوالہ پولیس کردیا جبکہ سزاء میں ایک لاکھ گیارہ ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے موصوف کے بھائی عبدالغنی بٹ کا کہنا ہے کہ وہ عدالت کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں تاہم وہ ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ تک انصاف کے حصول کے لئے تگ ودو کریں گے اورفیصلے کے خلاف اپیل کریں گے جو کہ اُن کا قانونی حق ہے ۔گلو بٹ کے اوپر الزام تھا کہ اُس نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے دوران موقع پر کھڑی کئی گاڑیوں کے شیشوں کو ڈنڈے مار مار کر ایسے توڑا جیسے یہ کوئی ثواب کا کام ہواِس دوران پولیس ٹاؤٹی کو گالی کہنے والی لمبی موچھوں والی سرکار پولیس کے شیرجوانوں کو تازہ دم کرنے کے لئے خدمت گاروں کی طرح اپنی پینٹ کو دیوانوں کی مانند دونوں ہاتھو سے تھامے بھاگ بھاگ کر مختلف (برینڈوں) کی بوتلیں بھی لاکر پلاتا رہا مگر ناہی اپنے پلے سے اور ناہی پولیس کے پیسوں سے گویا ( ہنگ لگے ناپھٹکٹری رنگ بھی چڑھے چوخا) جی ہاں جائے وقوع کے قریب قائم بد قسمت کھوکھوں سے لوٹ لوٹ کر خوب مفت باری کرتا رہا مسٹر گلو بٹ جبکہ گاڑیوں کی مقررہ تعداد کے شیشوں کو توڑنے کے بعد موصوف خوب بھنگڑے بھی ڈالتا رہا اور پولیس کے افسران سے خوب بغل گیر ہوکر شاباشیں بھی وصول کرتا رہا ۔ضمانت پر رہائی کے بعد گلو بٹ نے میڈیا اور عام لوگوں کے سامنے اپنی معصومیت ظاہر کرنے کے لاکھ جتن کیئے جو کہ بے سود ہی ٹھہرے ،عدالت پیشی کے دوران موصوف میڈیا کے سامنے ناصرف اپنی موچھوں کو باربار تاوٗ دیتا بلکہ حاجی صاحب بننے کی بھی کوششوں میں مصروف رہا جو سب ( نوٹنکی) ہی ٹھہری کیونکہ موصوف کے سینے پر لگا سبز ہلالی پرچم ہاتھ میں تسبی بھی گلو بٹ کو سزاء سے نا بچاسکی اور گلو بٹ کا یہ دعوہ کہ اُسے اندورنِ وبیرونِ ملک سے فلموں میں کام کرنے کی آفر ہورہی ہے محض ایک خواب ہی بن چکا ہے کیونکہ گلو بٹ اب گیارہ سال تو جیل میں چکی پیسے گا پھر دیکھا جائے گا کچھ دن جیل سے رہا ئی کے بعد گلو کے ہاتھ میں تسبی سینے پر محب وطن ظاہر کرنے کے لئے چسپاں پرچم گیارہ سالوں بعد گلو! کیا کیا گل کھیلائے گا یہ وقت آنے پر ہی ہم جان سکیں گے ،گلو بٹ کی سزاء کے بعد فلم کا اینڈ نہیں ہوا بلکہ پیکچر ابھی باقی ہے اگر انصاف کے تقاضع پورے کیئے جائیں تو پھر اِ س گلو بٹ کو شاباش دینے والے پولیس اہلکار اور افسران بھی تو اِس کے شریکِ جرم ہیں اِس پر اگر جرم ثابت ہوا ہے تو ویڈیو میں پولیس والے بھی تو اِس کے ساتھ نظر آرہے ہیں خیر سانحہ ماڈل ٹاوٗن واقعہ کی ایف،آئی،آر درج کی گئی مگر صرف کاغذی کاروائی تک ہی یہ سب محدود ہے کیونکہ واقعہ کے پرچے کو درج ہوئے بھی کئی روز گزر چکے ہیں مگر ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی یہ ضرور ہے کہ اب پولیس ایک عام شخص کے خلاف پرچہ بعد میں کاٹتی ہے گرفتاری پہلے عمل میں لاتی ہے مگر میرے دیس میں امیر اور غریب کے لئے زندگی کے ہر میدان میں دوہرا معیار ہی تو قائم وبرقرار رکھا جاتا ہے اِس (فرسٹ انکوائری رپورٹ) میں وزیراعلیٰ پنجاب ،وزیر اعظم سمیت دیگر کئی اعلیٰ حکومتی شخصیات کے نام درج ہیں شاید اسی لیئے دھرنے کے دباوٗ کا شکار ہوکر پرچہ درج کیا گیا اب بات ختم لیکن عوامی تحریک کے عہدیداران سے لیکر ایک عام کارکن تک سے بات کی جائے تو وہ اپنی ((demandیہی ظاہر کرتا ہے کہ پرچے میں نامزد ملزمان کو پابندِ سلاسل کیا جائے جو کہ فی الحال قریب قریب ناممکن ہی نظر آرہا ہے ۔گلو کو سزاء ہوئی جس سے یہ ظاہر ہوا کہ ہمیشہ حقائق اور سچائی کی جیت ہوا کرتی ہے قانون سے بالا تر کوئی بھی نہیں مگر سانحہ ماڈل ٹاوٗن میں گلو کے ہاتھوں گاڑیوں کے شیشے ٹوٹنے اور سیاہ وردی والوں کی بندوخوں سے پوری چودہ لاشیں گرنا فرق تو واضع ہے اگر گلو کو شیشے توڑنے کی پاداش میں گیارہ سالوں کی سزاء ہوسکتی ہے تو عوام اِسی روز اِ سی واقعہ میں چودہ لوگوں کے خون پر بھی بے تابی سے فیصلے اور قانون کے حرکت میں آنے کی منتظر ہے ایک بات تو طے شدہ ہے بھلے ہماری عدالتوں میں مختلف وجوہات کی بناء پر فیصلوں میں دیر ہوجائے مگر اگر عدلیہ کو ٹھوس شواہد فراہم کردیئے جائیں تو معزز ججز صاحبان ملزمان کو قانون کے مطابق کڑی سے کڑی سزاء سنانے میں ذرا بھی نہیں جھکتے کیونکہ قانون سے ناکوئی طاقت ور ہے اور ناہی بالا تر یہ سب کے لئے ایک جیسا ہے بس کبھی کبھی کچھ بااثر اور اقتدار کے پوجاری قانون کے کمزور ہونے کی سوچیں دل ہی دل میں سوچ کر خوش فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چائیے کہ گلو بٹ کو سزاء دلوا کر ہی خوش ہوکر ہاتھ پے ہاتھ دھرے نا بیٹھیں بلکہ قانونی اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے واقعہ میں ملوث دیگر تمام افراد کو بھی سلاخوں کے پیچھے کرنے اور قانون کے مطابق سزائیں دلوانے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں بات کو صرف شاہد عزیز بٹ عرف گلو بٹ کی سزاء پر ہی نا ختم کردیں ۔اﷲ ہم سب کا حامی وناصر!
Chohdury Fateh Ullah Nawaz
About the Author: Chohdury Fateh Ullah Nawaz Read More Articles by Chohdury Fateh Ullah Nawaz: 18 Articles with 21542 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.