سادگی کا پیکر دیانت کی نشانی۔۔۔عبدالستار افغانی

اب سے ٹھیک 8سال قبل یعنی 4نومبر 2006کو اس شہر کے لوگوں نے ایک ایسی شخصیت کو اپنے کاندھوں پر اٹھا کر اس فانی دنیا سے لافانی دنیا کے لیے اس کی قبر تک پہنچایا جس نے پورے 8سال تک اس شہر کی خدمت کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھایاہوا تھا ۔مولانا مودودی نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ جماعت اسلامی کے لوگ ہیں تو تھوڑے سے لیکن یہ زمین کا نمک ہیں کہ جس طرح آٹے میں اگر نمک نہ ہو تو روٹی بے مزہ ہو جاتی ہے ۔آج کراچی کی ایک تنظیم یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اس نے متوسط طبقے کی قیادت کو روشناس کرایا ہے ۔یہ بالکل غلط ہے جماعت اسلامی نے سب سے پہلے عبدالستار افغانی کی شکل میں متوسط ہی نہیں بلکہ ایک غریب قیادت کو کراچی کا میئر بنایا ۔اس سے قبل افغانی صاحب خان بوٹ ہاؤس میں کام کرتے تھے یہ جوتوں کی دکان لائٹ ہاؤس پر ان کے بہنوئی کی تھی افغانی صاحب اس میں مینجر بھی تھے اور اس کے ورکر بھی تھے ۔ چونکہ یہ پاکستان کے بڑے شہر کی بلدیہ تھی جس کے آپ رئیس بلدیہ کہلائے جو ایک بڑا پروقار منصب تھا ۔محمود اعظم فاروقی صاحب نے ایک دفعہ بتایا تھا کہ ایوب خان کے زمانے میں جب بی ڈی ممبر کے انتخابات ہوئے تھے تو جماعت اسلامی کی طرف سے ایک ایسے صاحب بھی بی ڈی ممبر منتخب ہوئے تھے جو کندھوں کپڑوں کا گٹھر رکھ کر گلیوں میں آواز لگاکر بیچا کرتے تھے ۔

جنرل ضیاء کے دور حکومت میں جب پہلی بار 1979میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تو یہ تقریباَاکیس سال کے بعد ہو رہے تھے جب کے ایک نئی نسل جوان ہو چکی تھی۔سیاسی جماعتوں کو بلدیہ کا کوئی تجربہ نہ تھا ۔جب انتخابات ہوئے تو شہر کراچی میں جماعت اسلامی کے ممبران بڑی تعداد میں کامیاب ہوئے ۔جماعت نے عبدالستار افغانی کو میئر کے لیے نامزد کیا دوسری طرف عبدالخالق اﷲ والا تھے جو سرمایہ دار تھے ۔جماعت اسلامی کے تمام مخالفین عبدالخالق اﷲ والا کی حمایت میں سرگرم تھے اور بڑا کانٹے دار مقابلہ ہوا دونوں کو مساوی ووٹ ملے لیکن یہ عبدالخالق اﷲ وال کی بدقسمتی تھی یا افغانی صاحب کی خوش قسمتی کہ عبدالخالق اﷲ والا کے دو ووٹ ضائع ہوئے اور عبدالستار افغانی کا ایک ووٹ ضائع ہوااس طرح افغانی صاحب ایک ووٹ سے یہ انتخاب جیت گئے ۔لیکن جب 1983میں دوسرے انتخاب ہوئے تو اس میں مہم بڑی زبردست چلائی گئی ۔دوسرے انتخاب کی ایک خا ص بات یہ تھی کہ جماعت نے کئی اہم لوگوں کو اس انتخاب میں حصہ لینے سے روک دیا تھا ان میں ڈاکٹر اطہر قریشی ،زہیر اکرم ندیم ،شمیم شیخ،اسلم مجاھد،طالب رسول اور عبدالستار افغانی شامل تھے ۔افغانی صاحب نے اس فیصلے کی پوری سعادتمندی سے اطاعت کی اور کئی لوگوں نے ان کو مشورہ دیا کہ آپ کونسلر شپ کا فارم بھر دیں ہم آپ کو کامیاب کرائیں گے اور پھر دوبارہ میئر کے لیے بھی آپ سے بہتر کوئی نہیں ہو سکتا ۔لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا مختار گوہر صاحب بتاتے ہیں کہ ان ہی دنوں میں ایک دفعہ میں افغانی صاحب کے دفتر میں ان کے پاس بیٹھا تھا کے میرے سامنے کسی صحافی فون آیا اس نے پوچھا کہ کیا آپ کونسلر کا انتخاب نہیں لڑرہے ہیں افغانی صاحب نے کہا کے نہیں ،دوسری طرف سے پھر سوال ہوا کہ کیوں؟افغانی صاحب نے بس یہ جواب دے کر فون رکھ دیا کہ یہ جماعت کا فیصلہ ہے۔پھر جب کونسلروں کے انتخابات ہو گئے اور اس میں جماعت اسلامی کے اخوت گروپ نے واضح کامیابی حاصل کی تو جماعت نے افغانی صاحب کو دوبارہ میئر کے انتخاب کے لیے نامزد کردیا وجہ اس کی یہ تھی اس دفعہ اپوزیشن بھی متحد اور منظم شکل میں سامنے آئی تھی ۔ اس انتخاب کو جیتنے کے لیے افغانی صاحبٔ جیسی شخصیت کی ضرورت تھی ۔اس کی مہم بہت زور دار چلی وجہ اس کی یہ تھی افغانی صاحب کے مقابلے میں عبدالخالق اﷲ والا ،حسین ہارون اور صدیق راٹھور ایک ہو گئے تھے اس لیے جماعت کو بہت محنت کرنا پڑی۔بہرحال افغانی صاحب 19ووٹوں سے یہ انتخاب جیت گئے ،ان کے مقابلے پر حسین ہارون تھے ۔افغانی صاحب کی دیانت اور احتیاط کا یہ عالم تھا کہ دوسری دفعہ کی جیت کے بعد ان کے دفتر میں پورے شہر سے لوگ ہار اور مٹھائی لے کر آرہے تھے ۔افغانی صاحب ہار پہن لیتے اور مٹھائی وہاں پر موجود لوگوں میں تقسیم ہو جاتی اور سب سے مبارک بادیں بھی وصول کرتے ۔ایک وفد آیا جو نوٹوں کے ہار لیے ہوئے تھا افغانی صاحب نے یہ ہار پہننے سے انکار کردیا اور کہا کہ میں یہ نہیں پہنوں گا آپ لوگ پھولوں کا ہار لے آئیں ۔ایک دفعہ باہر کا ایک وفد آیا جس نے بلدیہ کراچی کا دورہ بھی کیا حکومت سندھ کی طرف سے اس وفد کو عشائیہ دیا گیا اور اس کا بل بلدیہ کراچی کو بھیج دیا ۔افغانی صاحب نے بل دیکھا اس میں شراب کے پیسے بھی لکھے ہوئے تھے ،افغانی صاحب نے اس بل میں سے شراب کی رقم کاٹ دی اور کہا کہ یہ پیسے ہم نہیں ادا کریں گے ۔جنرل ضیاء کے ساتھ حکومت میں قومی اتحاد کی تمام جماعتیں شامل ہوئیں تھیں لیکن ایک منظم سازش کے تحت جماعت اسلامی کو مارشل لاء کی بی ٹیم کہا جاتا تھا ۔1986میں ایک وباء یہ چلی کہ پورے ملک کے بلدیاتی اداروں میں یہ قرارداد پاس کروائی جارہی تھیں کہ جنرل ضیاالحق تا حیات ملک کے صدر رہیں ۔بلدیہ کراچی میں عبدالخالق اﷲ والا گروپ کی کونسلرگوہر اعجاز نے اسی طرح کی ایک قرارداد منظوری کے لیے کونسل سیکشن میں جمع کرائی افغانی صاحب نے ایوان میں اس قرارداد کو لانے سے روک دیا تو گوہر اعجاز نے اجلاس میں افغانی صاحب کو مخاطب کر کے کہا کہ جس شخص کے دیے ہوئے اختیار سے آپ یہاں بیٹھے ہیں اسی شخص یعنی جنرل ضیاء کے بارے میں قرارداد ایوان میں لانے سے آپ نے روک دیا ۔افغانی صاحب نے جواب دیا کہ جس شخص کے دیے ہوئے اختیار کے تحت میں یہا ں بیٹھا ہوں اسی شخص کے دیے ہوئے اختیار کے تحت میں نے اس قرارداد کو روکا ہے۔چنانچہ پورے ملک میں یہ واحد بلدیہ کراچی تھی جس میں اس طرح کی کوئی قرارداد منظور نہ ہو سکی ۔یہ بات بھی جماعت اسلامی سے سے ضیاء صاحب کی ناراضگی کا سبب بن گئی ۔جماعت کو مارشل لاء کی بی ٹیم کہنے والوں منہ پر یہ زور دار طماچہ تھا ۔

عبدالستار افغانی بابائے کراچی کا لقب پانے کے باوجود بوریا نشین کہلائے ،ارب پتیوں کو مات دینے والے ۔۔مگر ۔۔بغیر پروٹوکول کے سفر کرنے والے ،KMCکا جھنڈا لہرائے بغیر گاڑی کا استعمال کے "خاص"نہ سمجھا جاؤں ۔اور سرکاری مراعات لینے سے انکار کرنے والے ،سرکاری عالی شان بنگلہ میں رہائش کے بجائے ممبر قومی اسمبلی ہونے کے باوجود 60گز کے لیاری کے فلیٹ کو تاحیات مسکن بنائے رکھا ۔میرٹ کا قتل نہ کیا ، اس لیے داخلے میرٹ پر ہونے چاہیں ۔۔۔۔سفارش سے بیٹے کو میڈیکل میں داخلہ نہ دلایا۔

حکمران صحابہ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے لیاری کے فلیٹ میں رہائشی میئربلدیہ عظمیٰ کراچی اپنے بیٹے کے ہمراہ بالٹی تھامے باہر سے پانی بھرتے پائے گئے تو چیرمین واٹربورڈ نے اطلاع ملتے ہی واٹر ٹینک بھجوادیا ۔لیکن آپ نے ٹینکر کو واپس بھجواتے ہوئے کہا کہ: ۔۔۔۔کیا لیاری کے ہر گھر میں پانی پہنچا دیا گیا ہے اگر ایسا نہیں تو مجھے یہ پانی نہیں چاہیے ۔جوتوں کی دکان پر ملازمت کرنے والے نے رزق حلال کمانے کا سلسلہ جاری رکھا ۔نیک سیرت انسان جن کے بارے میں مخالفین نے بھی گواہی دی کہ ان جیسا دیانتدار نہیں دیکھا ۔میئر افغانی کے دور میں جو اہم کام ہوئے وہ چند خاص یہ ہیں -

کراچی کو میونسپل کارپوریشن سے میٹرو پولیٹن سٹی کا درجہ دلایا گیا ۔۔۔جب دیانتدار قیادت کراچی کو نصیب ہوئی تو بلیہ کراچی دس کروڑ روپئے کی مقروض تھی ،آٹھ سال بعد جب بلدیہ تحلیل کی گئی توخزانے میں پندرہ کروڑ کے اضافی فنڈ موجود تھے ۔۔۔۔1979میں بلدیہ کا سالانہ بجٹ 50کروڑ روپئے تھا۔جو نظام کے شفاف ہونے کے نتیجے میں ایک ارب ستر کروڑ تک جا پہنچا۔صحت کے شعبہ میں لیاری جنرل ہسپتال کا قیام ہوا عباسی سہید ہسپتال کو وسعت دی گئی کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کا آغاز ہوا ۔

فراہمی آب کے سلسلے میں واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے ادارے کا قیام ہوا حب ڈیم سے پانی کی فراہمی کا کوٹہ مقرر ہوا منصوبے K1,K2شہر کراچی کو فراہمی آب کی بہترین مثالیں ہیں -

تعلیم کے شعبے میں ویوا اکیڈمی کا قیام اور کراچی یونیورسٹی کے طلبہ کے لیے بسوں کی فراہمی کمیونٹی اسکولز کا قیام۔۔۔مرکز اسلامی عائشہ منزل کا قیام۔

عوامی سہولیات کے لیے لیاری انٹرنیشنل فٹ بال کلب کی تعمیر کا آغاز،سفاری پارک کی تعمیر صادقین آرٹ گیلری کا قیام کشمیر اسپورٹس کمپلکس ۔۔مساجد کی تعمیر ۔۔جمنازیم لپروسی سنٹر کا بلدیہ کراچی سے الحاق۔کراچی کے پہلے اوورہیڈبرج کی تعمیر فیڈرل بی ایریا میں تعلیمی اور تفریحی باغ کا قیام ۔۔۔شہر کراچی میں سوڈیم لائٹس لگوا کر کراچی کو روشنیوں کا شہر بنانا-

لیاری کی غریب آبادی کے لیے مکانات کی لیز سب سے کم ریٹ 4روپئے مربع گز مقرر کروائی ۔ایشیا کی سب سے بڑی کچی آبادی کو باقاعدہ طور پر KDAمیں شامل کروایا -

میئر افغانی صاحب 8سال تک میئر رہے لیکن آپ کے دامن پر کوئی داغ نہ تھا ان کے بعد جو لوگ برسر اقتدار آئے وہ جماعت کے شدید مخالف تھے اور وہ محدب عدسے کا استعما ل کر کے بہت کچھ تلاش کرتے رہے لیکن کچھ نہ ملا مگر بعد میں جب ایم کیو ایم کے فاروق ستار میئر بنے اور تین سال کے بعد جب میئر شپ سے ہٹے تو ان پر کرپشن بے تحاشہ الزامات تھے اور اسی سلسلے میں برسوں جیل میں بھی رہے اور پھر جیل سے ان کی رہائی کیس ختم ہونے کی بنیاد پر نہیں ہوئی بلکہ حکومت وقت سے ایک ڈیل کے نتیجے میں ان کی رہائی عمل میں آئی تھی ۔
یہ ہے فرق دو متوسط قیادتوں کا۔
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 41 Articles with 37508 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.