ہے جرم محبت کی سزا پھانسی
(Jawaid Ahmed Khan, Karachi)
14اور15اگست کی درمیانی شب جب
ڈھاکا میں فوج نے شیخ مجیب کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور اس کے گھر پر
دھاوا بولا تو فوجیوں نے گھر کے تمام افراد کو گولیوں سے بھون دیا جب سب
فوجی یہ کام کر کے باہر آئے انقلاب کے ہیڈ جنرل نے ان سے پوچھا ہاں بھئی سب
کام ہو گیا تو ان فوجیوں نے جواب دیا ہاں سب کو مار دیا ایک چھ ماہ کا بچہ
تھا اسے چھوڑ دیا ہے ۔وہ جنرل خود اندر گیا اور اس چھ ماہ کے بچے کے سر پر
فائر کر کے اسے بھی ختم کردیا اور باہر آکر کہا کہ سانپ کو مار دیا اور
سنپولے کو چھوڑدیا جائے یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔
بادی النظر میں یہ عمل انتہائی قبیح اور قابل نفرت ہے کہ اپنی دشمنی میں
بچوں تک کو مار دیا جائے لیکن جب منصوبہ سازوں کے منصوبے میں یہ بات شامل
ہو کہ اس کی نسلوں تک کو ختم کردینا ہے تو پھر سب کچھ ہو سکتا ہے ۔لیکن پھر
بھی ہر سنجیدہ صاحب اولاد فرد اس گھناؤنے طرزعمل سے نفرت ہی کرے گا ۔مگر آج
اس خونی انقلاب سے بچ جانے والی حسینہ واجد جو کچھ کررہی ہیں تو وہ دراصل
اپنے خاندان کے معصوم بچے کے بہیمانہ قتل سے پیدا ہونے والی نفرتوں کی شدت
کو خود ہی کم کررہی ہیں کہ جس طرح وہ بچہ جرم بے گناہی میں مار دیا گیا آج
آپ بھی جماعت اسلامی اور بی این پی لوگوں کے گلوں میں جرم بے گناہی کی
پھانسی کا پھندا ڈال رہی ہیں ۔
مجیب کے قتل کے وقت حسینہ واجد ملک سے باہر تھیں اس لیے بچ گئیں اور پھر وہ
کافی عرصے تک باہر رہیں ،پھر جب حالات کچھ ان کی حسب منشاء بہتر ہوئے تو
مردہ مجیب الرحمن کو ہونے والے انتخابات میں کیش کرانے کے لیے آگئیں لیکن
اتنی کامیابی نہ حاصل کرسکیں کے تن تنہاحکومت بنا لیتیں ۔اس کے لیے انھیں
پارلیمنٹ میں دوسری جماعتوں کی مدد کی ضرورت پڑی چنانچہ جماعت اسلامی سے
رابطہ کیا گیا اور پروفیسر غلام اعظم کو وزیر تک بنانے کی پیشکش کی گئی ،اس
وقت جماعت اسلامی کے سارے لوگ محب وطن تھے اور آج کیا صورتحال ہے کہ "جو
تھا کبھی خوب اب ناخوب ہو گیا "۔
پہلے زمانے میں ہم اپنے بڑوں سے یہ بات سنتے آئے ہیں کہ جب کسی گھر میں
سانپ نکل آتا اور اسے مار دیا جاتا اس وقت یہ کہا جاتا کہ ناگ کو مار دیا
ہے اس کی ناگن کہیں ہوگی اور وہ سب سے گن گن کر انتقام لے گی ۔پھر مشورے سے
فیصلہ ہوتا کہ سپیروں کی مدد حاصل کی جائے وہ آکر ناگن کو تلاش کرے تاکہ
اسے بھی مار دیا جائے اور گھر والوں کے دل سے خوف نکل جائے ۔چنانچہ سپیرا
آتا وہ ناگن کو تلاش کرتا اگر وہ آسانی سے مل جاتی تو اسے بھی مار دیا جاتا
اگر نہ ملتی تو قریب کے اڑوس پڑوس کے گھروں میں بھی تلاش کیا جاتا ۔اگر وہ
متعلقہ گھر سمیت کہیں بھی نہیں ملتی تو سپیرا گھر والوں کو یہ اطمنان دلاتا
کے یہ سانپ اکیلا ہی تھا اس کی کوئی ناگن نہیں ہے اور ہوگی بھی تو اس گھر
سے کہیں دور ہوگی اس لیے فکر کی کوئی بات نہیں جس فوجی گروپ نے مجیب کی
حکومت کا تختہ الٹا تھا وہ اگر حسینہ واجد کو بھی ملک میں بلا کر انقلاب سے
غداری کا مقدمہ چلا کر ان کا بھی حساب بے باق کردیتا تو یہ آج بنگلہ دیش کی
ناگن نہ بنتی جو اپنے باپ کے خون کا بدلہ معصوم اور بے گناہ لوگوں کو
پھانسی پر چڑھا کر لے رہی ہے۔
جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر مطیع الرحمن نظامی کو بھی حسب توقع پھانسی
کی سزا سنا دی گئی ،اگر فیصلہ کچھ اور ہوتا تو اس پر حیرت ہوتی نظامی صاحب
متحدہ پاکستان میں اسلامی جمعیت طلبا کے ناظم اعلیٰ رہے ہیں ۔1971میں انھوں
نے ریاست پاکستان کا ساتھ دیا تھا کہ 16دسمبر 1971تک موجودہ بنگلہ دیش
مشرقی پاکستان تھا انھوں نے ملک سے محبت میں پاکستان کا ساتھ دیا اور آج
انھیں پاکستان سے محبت کی سزا ان کے گلے میں پھندا ڈال کر دی جارہی ہے ۔
ستمبر 2013میں ہفت روزہ ایشیا نے "بنگلہ دیش انصاف اور انسانیت کا قتل"کے
عنوان سے ایک رسالہ نکالا تھا جو ملک کے معروف صحافیوں ،دانشوروں،ادیبوں کہ
اس موضوع پر لکھے جانے والے مضامین اور اخبارات کے اداریوں مشتمل تھا ۔اس
میں جناب عبدالغفار عزیز صاحب کا مضمون "مجیب کا قتل اور انتقامی سیاست "کے
عنوان سے شائع ہوا ہے ۔اس مضمون کا ایک اقتباس ہمارے لیے غور فکر کی دعوت
دیتا ہے وہ لکھتے ہیں کہ 1971میں سقوط مشرقی پاکستان کے بعدمکتی باہنی کے
مظالم سے جان بچا کر مغربی پاکستان آنے والا ایک عزیز ساتھی 35سال بعد اس
واقع کی تفصیل سنا رہا تھا15"اگست 1975کی صبح ریڈیو پاکستان سے خبریں سنیں
تو میں بھاگم بھاگ ۵ اے ذیلدار پارک،اچھرہ پہنچا اور بغیر اجازت سید مودودی
کے کمرے میں جا گھسا ۔"مولانا مودودی میز پر کہنی ٹکائے لکھنے میں مصروف
تھے ۔اچانک میرے آجانے پر قلم روکا ،ہاتھ اٹھایا تو آستین سرک کر کہنیوں پر
آٹکی۔اسی لمحے مجھے یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ مسلسل لکھتے رہنے اور میز پر
ٹکے رہنے سے ان کی کہنی سے کلائی تک براؤن گٹے پڑ چکے تھے ۔
مولانا نے اطمنان سے پوچھا کیسے آنا ہوا ؟میری سانس پھولی ہوئی تھی میں نے
شدت جذبات سے کہا :مولانا شیخ مجیب قتل ہو گیا ۔مولانا نے بغیر کوئی تبصرہ
کیے سامنے کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا :بیٹھیے۔میں بیٹھ گیا تو مولانا
نے تسلی سے پوچھا :اب بتایے کیا ہوا ؟اور یہ آپ کو کس نے بتایا ؟میں نے کہا
مولانا میں نے خود ابھی ریڈیو سے سنا ۔بنگلہ دیش میں فوج نے حکومت کا تختہ
الٹ دیا اور شیخ مجیب قتل ہو گیا ہے۔مولانا نے پوچھا کتنے بجے کی خبروں میں
سنا ؟خبریں اردوتھیں یا انگریزی میں ؟۔میں نے کہا مولانا ابھی ۱۰ بجے کی
انگریزی خبروں میں سنا ہے۔مولانا نے میری بات کی اس حصے کی تصدیق کرتے ہوئے
کہا ـ:ہاں ۱۰ بجے انگریزی میں خبریں نشر ہوتی ہیں ۔مولانا نے خبر کے بارے
میں اپنی تسلی کرلی مگر کوئی تبصرہ نہ کیا خاموش رہے ۔
میں نے مولانا کا سکوت دیکھ کر حیرت اور کسی حد تک جذبات سے مغلوب ہو کر
پوچھا :"مولانا آپ کو یہ سن کر خوشی نہیں ہوئی ؟"مولانا مودودی نے نفی میں
جواب دیا ۔میں نے مزید حیرت سے پوچھا :"اس شخص نے ملک توڑا ،ہمارے اتنے
ساتھیوں پر ظلم ڈھائے ،اتنی بڑی تعداد میں بے گناہ لوگ قتل کروائے،پھر بھی
اس کے قتل پر آپ خوش نہیں ہوئے ؟"
مولانا نے افسوس بھرے لہجے میں کہا "مجھے خدشہ ہے یہ قتل وہاں کا آخری قتل
نہیں ہو گا ۔سیاسی قتل و غارت اور انتقام کا سلسلہ کئی نسلوں تک چل سکتا
ہے۔ہم سے الگ کردیے جانے والے ہمارے بھائیوں میں سے کسی بھی بنگالی یا غیر
بنگالی کے قتل اور خونریزی کے نتیجے میں سراسر ہمارا ہی نقصان ہوگا۔امت کا
نقصان۔"
35سال سے زائد عرصہ گزرجانے کے بعد آج پھر مولانا مودودی کی یہ بات حرف آخر
ثابت ہو رہی ہے ۔ایک کے بعد دوسرا قتل ،ایک کے بعد دوسرا انقلاب اور ایک کے
بعد دوسری شورش،اس عزیز برادر ملک کو آبلہ پا کیے ہوئے ہے۔
آخر میں ہم اس بات پر حیرت اور افسوس کا اظہار کریں گے بنگلہ دیش کی مشکوک
اور متنازع عدالت نے جو پھانسی کی سزا سنائی ہے اس پر ساری انسانی حقوق کی
تنظیمیں بے حسی اور بے حمیتی کی چادر تانے سو رہی ہیں اور یورپی یونین نے
بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کیا ہوا ہے ۔یہ تنظیمیں اس وقت جاگتی ہیں جب
پاکستان میں کسی مجرم کو جسے عدالتوں کی برسوں کی کارروائی کے بعد سزا
سنائی جاتی ہے اور اس کی پھانسی کے لیے تیاری کی جاتی ہے تو یہ ساری
تنظیمیں شور مچانے لگتی ہیں ۔
|
|