تحریر: سکینہ سالار سلطان
عید کے دنوں میں کراچی میں کچی شراب پینے سے سینکڑوں لوگ ہلاک ہوئے۔ اس
واقعہ کا وزیر اعلیٰ سندھ نے ایسا اثر لیا کہ ان شراب پی کر مرنے والوں کو
شہادت کے درجے پر فائز کردیا۔ جناب وزیر اعلیٰ صاحب نے صحافیوں سے بات کرتے
ہوئے کہا کہ جو بے گناہ شراب پی کر مر جائے وہ شہید ہے۔ ماشاء اﷲ پے درپے
سندھ کے تین بار وزیر اعلیٰ بننے والے شاہ صاحب کو اسلام کے بارے میں شاید
یہ معلومات نہیں کہ شراب پینا تو خود ایک گناہ کبیرہ ہے اور اتنا بڑا گناہ
کہ ایک بار پینے پر سرزنش اور سزا ، دوسری بار پینے پر بھی سرزنش اور سخت
سزا اور تیسری بار پینے پر قتل واجب ہے۔ تو ہم اب اس حد تک ذہنی پسماندگی
کا شکار اور مذہب سے اتنا دور ہوگئے ہیں کہ بس برائے نام ہی ہمارا مذہب
اسلام اور ہم مسلمان ہے۔ وگر نہ ہمارا تو ان باتوں اور بیانات سے ایسا لگتا
ہے کہ اسلام اور قرآن سے دور دور تک بھی کوئی تعلق نہیں۔ بجائے ان شرابیوں
کو برا سمجھنے کے ہم ان کے ہمدردوں میں شامل ہوئے جارہے ہیں اور یہاں تک کہ
شہادت کے درجے پر ہی فائز کر دیا ۔ یہاں پر تو سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان کی
بات یاد آتی ہے کہ جب وہ کہتے تھے کہ ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے چاہے اصلی ہو یا
نقلی۔ شائد رئیسانی صاحب کی طرح تمام پیپلز پارٹی کا موقف یہ ہے کہ شہادت
تو شہادت ہے چاہے پھانسی سے مرے یا شراب سے۔ اگر یہ شرابی جو کہ حرام فعل
کے مرتکب ہوئے اور اﷲ تعالیٰ کے احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے
گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوئے اور مرگئے تو شہید ہوئے۔ تو پھر طالبان کا کیا
قصور ہے۔ وہ تو اعلیٰ درجے کے ایماندار سپاہی ہوئے۔ طالبان تو بقول اپنے اﷲ
کا نظام لانا چاہتے ہیں۔ جس میں عورت سر سے پاؤں تک باپردہ ہو، مرد داڑھی
رکھے اور نماز باجماعت پڑھے، جس میں عورت گھر سے بلا ضرورت باہر نہ نکلے
اور انگریزی تعلیم حاصل نہ کرے۔ تو پھر تو طالبان بھی اپنے موقف میں حق
بجانب ہوئے اور اﷲ کے نظام کو نافذ کرنے کیلئے انہوں نے ساری دنیا میں اور
پاکستان میں جتنے بھی لوگوں کو بم دھماکوں یا دوسرے کسی طریقے سے مارا تو
پھر اپنے نظریے کے تحقیق انہوں نے بھی ٹھیک کیا اور وہ اس سارے معاملے میں
بہت بڑے نہ صرف جہادی ہوئے بلکہ اﷲ کے دین کے سپاہی ہوئے۔ پھر ان کا کیا
قصور ہے۔ جہاں اسلامی جہموریہ پاکستان کے صوبے کے وزیر اعلیٰ کو یہ پتہ نہ
ہو کہ شراب حرام اور اسکا پینے والا کھلم کھلا اﷲ کے احکامات کی خلاف ورزی
کرنے والا اور یہ کہ تیسری بار پیمے پر قتل کا حکم ہے وہاں شروبیوں کو شہید
بنا دیا جائے تو وہاں کے عام عوام کو کیا خاک اسلام اور مذہب کا پتہ ہوگا۔
جب ہم پر حکومت کرنے والے حکمرانوں کو ہی پتہ نہیں تو عام عوام جو پیدائش
سے جوانی تک والدین کی غربت میں پلتے ہیں اور دین کا علم نہ دنیا کی تعلیم
اور جوانی کی دہلیز پر پہنچنے کے بعد مرتے دم تک روزی، روٹی کے چکر میں لگے
رہتے ہیں۔ اسلام کی تاریخ میں حکمران یا خلیفہ اپنے عوام کی تعلیم و تربیت
کرتے ہیں۔ انکی جان، مال، عزت اور تعلیم و تربیت کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ صرف
وزیروں مشیروں کی فوج ظفر موج رکھنے کا مطلب جمہوریت نہیں۔ عوام کیلئے کام
کرنا ، عوام کی خدمت کرنا جمہوریت ہے۔ جمہوریت کے نام پر قربانی دینے والے
ہمارے کسی سیاستدان کو شاید یہ علم نہیں کہ جمہوریت صرف ان کے خاندان کو
نوازنے کا نام نہیں۔ جمہوریت وہ ہے کہ جہاں خلیفہ وقت حضرت عمر ؓ بھی عام
آدمی کو جواب دہ ہو اور جہاں حضرت عمر ؓ یہ کہے کہ اگر میرے زمانہ خلافت
میں کوئی کتا بھی بھوکا ہو تو میں اس کا ذمہ دار ہوں۔ جمہوریت یہ ہے کہ
حضرت علی ؓ رات کو اپنی پیٹھ پر آٹے کی بوریاں لادکر بیواؤں اور یتیموں کے
گھر پہنچا تے اور چہرے کو نقاب دے ڈھانکتے کہ کوئی راستے میں پہچان کر اس
سے بوجھ لینے کا نہ کہے۔ جمہوریت یہ ہے کہ رسول خدا شہنشاہ دو جہان کی بیٹی
خاتون جنت حضرت فاطمہ ؓ اپنے ہاتھوں سے آٹا چکی پہ پیستی۔ یہ ہے جمہوریت،
یہ جمہوریت نہیں کہ حکمرانوں کے بچے یورپ، امریکہ میں پڑھے اور غراب عوام
اور ان کے بچے ان امیروں کے جھوٹے کھانوں سے چن چن کر کھائے، یہاں غلطی
عوام کی بھی ہے جو سوچ سمجھ کر اپنے لیے صحیح بندہ منتخب کرکے ایوان میں
نہیں بھیجتے۔ ذلیل ہوتی ہے مگر بار بار انہی لوگوں کو منتخب کرکے ایوان میں
اور اقتدار ایوان میں بھیجتی ہے جو انتخابات جیتنے کے بعد پھر کبھی انکو
پلٹ کر پوچھتے بھی نہیں ۔ اگر عوام پسند و ناپسند یدہ شخصیت کے چکر سے نکل
کر صرف اس بندے کو منتخب کرے جو کہ کام کرے عوام کیلئے تو آج یوں ذلت کی
زندگی گزارنا اس عوام کا مقدر نہ ہوتا۔ کچھ نہ سہی اسلامی جمہوریہ پاکستان
کے نام کی ہی لاج رکھ لیتے اور ایسے لوگوں کو ووٹ دیتے جنہیں کم از کم اتنا
تو پتا ہو کہ شراب پی کر مرنے والے کس صف میں آتے ہیں۔ ہمارے مسلمان
حکمرانوں کو اسلام کے بارے میں شائد اتنی معلومات نہ ہو جتنی کہ مغربی
ممالک اور امریکہ کو اسلام کے بارے میں ہے۔ ایک محاورہ ہے کہ دوست کے بارے
میں معلومات کرنے میں فکر نہ کرو کیونکہ دوست تمہیں اپنا حال خود ہی بتا دے
گا ۔ ہمیشہ دشمن کے بارے میں باخبر رہنے کی کو شش کرو تا کہ اس کے وار سے
پہلے ہی حکمت عملی کر سکوں۔ مگر ہمیں تو نہ اپنے دوست کی خبر ہے نہ دشمن کی۔
قرآن پاک میں ہے کہ جیسے تم لوگ ہوں گے ویسے ہی تم پر حکمران مسلط ہونگے۔
تو ہمیں خود بھی اپنی اصلاح کرنی چاہئے اگر ہم نیک نیت ہوتے تو یقینا ہم
نیک نیت لوگوں کو ہی منتخب کرکے ایوانوں میں بھیجتے جوکہ ہمارے لئے کام
کرتے۔ قرآن پاک میں ایک جگہ اﷲ تعالیٰ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ اﷲ کبھی اس
قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت خود نہ بدلے۔ تو ہم سب کو
اجتماعی اور انفرادی طور پر اپنے خود سوچنے اور اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔
یونہی ایک سے دو، دوسے تین اور یوں قافلہ بنتا چلا جائے گا۔ اب ہمیں ہدایت
کیلئے تا قیامت کوئی نبی نہیں آئے گا۔ قرآن و سنت کے احکام پر ہی عمل کرتے
ہوئے ہم سیاست، جمہوریت اور تمام معاشرے کو ایک مثالی اسلامی معاشرہ
بناسکتے ہیں ۔ اگر ہم چاہے تو یہ نہ مشکل ہے نہ نا ممکم۔ کم از کم پھر کوئی
ایسا منتخب کرنے کی غلطی نہ کرے جو شرابیوں کو شہادت کے اعلیٰ درجے پر
پہنچا دے۔ کم از کم پھر کوئی ایسا منتخب نہ کرے جو سید زادہ ہونے کے باوجود
اتنا علم نہ رکھتا ہوکہ شراب کی سزا کیا ہے اور شراب پی کر مرنے والوں کو
شہید نہیں کہتے۔ بلکہ ایسا معاشرہ بنے جہاں امیر المؤمنین حضرت ابوبکرؓ،
حضرت عمرؓ، حضرت عثمان ؓ اور حضرت علی ؓ جیسے ہو۔ |