امریکی نژاد انتہا پسند یہودی
ربی یہودہ گلیک یروشلم میں واقع میناشم بیگن ثقافتی مرکز سے’’یہودیو ہیکل
سلیمانی کی جانب لوٹو‘‘ کے موضوع پر منعقد ہونے والی ایک کانفرنس سے لوٹنے
کیلئے اپنا سامان سمیٹ رہا تھا کہ کسی نے اس کے قریب آکر پوچھا کہ کیا اس
کا نام یہودہ گلیک ہے؟ جیسے ہی گلیک نے تائید کی نواوارد نے اس پرتین گولیا
ں برسائیں اور موٹر سائیکل پر فرار ہوگیا ۔اس کا بہانہ بنا کر اسرائیلی
حکومت نے مسجداقصیٰ کووقتی طور پر بند کردیا لیکن اس کا معروضی جائزہ لینے
پر شک کی سوئی کو دوسری جانب موڑ جاتی ہے۔ سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ اس قدر
قریب سے کئے گئے حملہ میں گلیک مرا کیو ں نہیں ؟ وہ بچ کیسے گیا؟ دوسرا اہم
ترین سوال یہ ہے کہ اس وقت اسرائیل کی پارلیمان کا ڈپٹی اسپیکر موشے فیگلن
اس قدر موجود تھا کہ اس نے گلیک سے کیا جانے والا سوال تک سن لیا اور ٹیلی
ویژن پر گواہی دی کہ یہ سوال عبرانی میں کیا گیا تھا مگر لہجہ عربی تھا۔ اب
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کو ئی مسلمان عبرانی کیوں بولے؟ اور اگر کوئی
فلسطینی نژاد یہودی عبرانی بولے تو اس کالب و لہجہ عربی نہ ہوگا تو کیا
امریکی ہوگا؟
ان دو شواہد کے علاوہ اہم ترین سوال یہ ہے کہ اگر موشے فیگلن اس قدر قریب
تھا تو حملہ آور نے فیگلن کو کیوں بخش دیا اس لئے گلیک سے کہیں زیادہ
اشتعال انگیزی موشے فیگلن کرتا رہا ہے۔غزہ حملے کے دوران وہ اپنے سفاکانہ
موقف’’ اسرائیلی حکومت کو چاہئے کہ غزہ سے فلسطینیوں کا مکمل صفایہ کردے ‘‘
کیلئے ساری دنیا کی لعنت وملامت کا نشانہ بن چکا ہے ۔ فیلگن کومعروف ہونے
کے سبب پہچاننا بھی آسان ہے ایسے میں موشے فیگلن کو چھوڑ کر گلیک کا شکار
بے معنیٰ ہے ۔ گلیک کوگولی مارنے اورزندہ چھوڑنے کے پیچھےکارفرما سازش کا
اشاری گلیک کے انٹرویو سے ملتا ہے۔ حارث نامی اسرائیلی اخبار کے پوچھے جانے
پر کہ حالات کب بدلیں گے تو اس نے کہا تھا جیسے ہی کسی عرب نے مسجد اقصیٰ
کے قریب کسی یہودی کو نقصان پہنچایاوزیراعظم بیدار ہو جائیں گے لیکن اس وقت
تک بہت تاخیر ہو چکی ہوگی۔ فیگلن نے بھی حملے کے بعد کہا کہ مجھے اس کا
صدمہ ہے حالانکہ یہ متوقع تھا ۔ دہشت گردی کے خلاف حکومت کی کمزوری
اورنااہلی اور ہیکل سلیمانی کو عبادت کیلئے بند کرنے کے سبب یہ قتل کی کوشش
ہوئی ۔اس موقع پر اسرائیل کے وزیر تعمیرات یوری ایریل کا بیان بھی قابل
توجہ جس میں اس نے کہا میں یہودہ گلیک کی مکمل صحتیابی کیلئے دعاگو ہوں ۔
یہودہ پر چلائی گئی گولی نے ان تمام یہودیوں پرہے جو اپنی مقدس ترین
عبادتگاہ ہیکل سلیمانی میں عبادت کرنے کا اخلاقی اور مذہبی حق رکھتے ہیں۔ان
تمام بیانات کو ملا کر دیکھا جائے تو صاف ظاہر ہے کہ گلیک کو ایریل اور
فیلگن کے اشارے پر زخمی کرکے اس کے بہانے سے مسجد اقصیٰ کو بند کرنے کی
سازش رچی گئی اور اس کے ردعمل کا اندازہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اسرائیل کو
یاد رکھنا چاہئے کہ دوسری انتفاضہ تحریک کا آغاز ایریل شیرون کی ۲۰۰۰ میں
مسجدِ اقصیٰ کی پامالی سے ہواتھا جس کے نتیجہ میں آگے چل کر غزہ کو
خودمختاری حاصل ہوئی۔
اس بار بھی یہی ہوا کہ جمعہ کے دن مغربی کنارے کے سبھی شہروں میں فلسطینیوں
نے اسرائیلی حکومت کے خلاف احتجاجی جلوس نکالے اور اپنے غم وغصے کا اظہار
کیا ۔ حکومت کی مذمت میں نعرے لگائے۔ غزہ میں اسلامی جہاد کے ترجمان نے
اعلان کیا کہ ہم اپنے جان و دل سے مسجد اقصیٰ کی حفاظت کریں گے اورجو بھی
اس پر حملہ کرے گا وہ اس کی بڑی قیمت چکائے گا۔اس مشترکہ احتجاجی جلسہ میں
پی ایل او سے کہا گیا کہ وہ مغربی کنارے میں مزاحمت کو پھلنے پھولنے کا
موقع دےتاکہ وہ اسرائیلی جارحیت اور دراندازی کا مقابلہ کیا جاسکے۔پاپولر
مزاحمت تحریک کے رہنما
نبیل ابوسیف نےپی ایل او سے کہا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ خفیہ معلومات
کےتبادلے کا سلسلہ منقطع کردے اور مزاحمتی گروہوں کی پشت پناہی کرے اس لئے
کہ مسجدِ اقصیٰ کے تحفظ کی اس کے علاوہ کوئی اور سبیل نہیں ہے۔
مسجد اقصیٰ کو بند کرنے کے بعد اسرائیلی حکومت نے دوسری سفاکیت یہ کی کہ
اسی رات۳۲ سالہ معتاذ حجازی پر جھوٹا الزام لگا کر شہید کر دیا۔ اسرائیلی
پولس ملزمین کو پکڑنے میں کس قدر مستعد ہے اس کا اندازہ ۲جولائی کومحمد
ابوخدیر کے زندہ نذرِ آتش کرنےکے واقعہ سے لگایا جاسکتا جس کی ویڈیو موجود
تھی پھر بھی بین الاقوامی دباؤ کے باوجودمجرمین کو گرفتار کرنے میں اس نے
کئی دن لگا دئیے۔ اس سے قبل ۱۵ مئی کو بیتونہ میں ندیم نوارہ اور
محمدابوالتاثیر کو ایک یہودی نے گولی مارکر شہید کردیاتھا۔ کئی زاویوں سے
اس کی ویڈیو بھی منظر عام پر آگئی اس کے باوجود چھے ماہ تک کوئی گرفتار نہ
ہوسکا لیکن گلیک کا حملہ آورحیرت انگیز طریقہ پر چند گھنٹوں کے اندر ہاتھ
آگیا ۔ حقیقت یہ ہے حجازی ۱۱ سال اسرائیلی جیل میں گزار چکا تھا اور تین
سال قبل اسے رہائی ملی تھی۔ وہ خفیہ ایجنسی کی فہرست میں تھا ۔ اس موقع کا
بہانہ بنا کر اسرائیلی حکومت نےبے قصور حجازی کو شہید کردیا تاکہ فلسطینیوں
کو دہشت زدہ کیا جاسکے ۔ معتاذحجازی کے جنازے میں صرف ۴۵ لوگوں کو شریک
ہونے کی اجازت دی گئی اور سخت حفاظتی انتظامات کئے گئے اس کے باوجود ہزاروں
فلسطینی بے خوف ہو کر اپنے گھروں سے نکل آئے۔
یہودہ گلیک وشوہندو پریشد کے پروین توگاڑیہ کی طرح کا ایک بدنامِ زمانہ
یہودی راہب ہے جو اپنی اشتعال انگیزی کے سبب کئی مرتبہ گرفتارہو چکا ہے۔ اس
کی تحریک کا ہدف مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرناہے ۔ وہ ٹمپل
انسٹی ٹیوٹ کا بانی اورمنتظم ہے جس کو حکومتِ اسرائیل کی فراخدلانہ حمایت
حاصل ہے۔ ایسے کئی ادارے ہیں جو حکومت کے تعاون سے چل رہے ہیں اور اس کے
ایماء پر کام کرتے ہیں ۔۱۹۹۶ میں جب نتن یاہو وزیراعظم بنا تھا اس وقت اس
نے اس طرح کے دہشتگرد اداروں کی سرپرستی شروع کی تھی جو ہنوز جاری ہے۔
۱۹۶۷ میں جب اسرائیل نے مشرقی یروشلم پر قبضہ کیا تو بین الاقوامی اداروں
کے سامنےمسجدِ اقصیٰ کے تحفظ کی یقین دہانی کی تھی اوراسرائیل کے چیف ربی
نے یہودیوں کو وہاں عبادت کرنے سے منع کیا تھا لیکن آگے چل کر یہودہ گلیک
جیسے لوگوں نے یہ مفروضہ گھڑا کہ مقدس ترین مندر ہیکل سلیمانی کے نیچے ہے
اس لئے اس پورے علاقہ میں ایک ۵۰ میٹر اونچا کنیسہ تعمیر ہونا چاہئے جس کے
اندر موجودہ مسجداقصیٰ اور مسجد عمر سما جائیں جن کو اونچائی ۲۵ میٹر ہے۔
اسرائیل کی حکومت کو اپنا ناعاقبت اندیش فیصلہ بدلنے پر جن مختلف وجوہات نے
مجبور کیا ان میں سے ایک اہم سبب امریکی انتظامیہ کا دباؤ بھی تھا۔ اس میں
شک نہیں کہ یہ دونوں ممالک مختلف معاملات میں ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں
اس لئے چاہے نہ چاہے ایک دوسرے کی حمایت بھی کرتے ہیں لیکن مسجد اقصی کی
بندش کو لے کر امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا ردِ عمل نہایت واضح تھا ۔
امریکی حکومت نے خلاف روایت اسرائیل سے نہایت دوٹوک انداز میں مسجد اقصی کو
دوبارہ کھولنے کا مطالبہ کیا اور اس کی کوئی لولی لنگڑی تو جیہ کرنے سے
گریز کیا ۔ اسرائیل کیلئے امریکی مطالبہ حکم کے درجہ میں آتا ہے اور اس کا
یہ اثر نظر آیا کہ دوسرے ہی دن اسرائیلی حکومت نے مسجدِ اقصی کا دروازہ و
کھول دیا ۔ نتن یاہو نے بھی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عہد کیا کہ
بیت المقدس کی عبادت گاہوں میں طویل مدت سے جاری روایات کو برقرار رکھا
جائے گا اور یہ مقام تمام مذاہب کے ماننے والوں کے لیے کھلا رہے گا۔ نتن
یاہو کے اس بیان نے اس کے حواریوں کو ضرور ناراض کیا مگر امریکہ کے ساتھ
اسرائیل کے تعلقات فی الحال اس قدر کشیدہ ہو گئے ہیں کہ نتن یاہو کیلئے یہ
موقف اختیار کرنے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں تھا ۔
امریکی انتظامیہ گوں ناگوں وجوہات کی بناء پرباہمی کشیدگی کا برملا اظہار
تو نہیں کرتا لیکن اندر ہی اندر جو کھچڑی پکتی ہے وہ مختلف بیانات کی شکل
میں اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہے ۔ مثلاً پچھلے دنوں امریکی انتظامیہ کے
ایک سینئر افسر کا نتن یاہو پر تبصرہ کہ وہ مرغی کا فضلاء ہے ذرائع ابلاغ
میں آگیا جو انگریزی میں ایک حقارت بھری گالی ہے ۔ امریکی انتظامیہ نے اسے
غیر سرکاری گردانہ تو کچھ مبصرین نے اس کو اوبامہ اور نتن یاہو کے مزاج میں
اختلاف پر موقوف کرکے غیر اہم قرار دینے کی کوشش کی اور کہا کہ اسرائیل اور
امریکہ ایک ناقابلِ طلاق رشتۂ ازدواج میں منسلک ہیں اور اس طرح کی نوک
جھونک اس پر اثرانداز نہیں ہو سکتی لیکن یہ سب بکواس ہے فی زمانہ مفاد
پرستی کی سیاست میں ایسا کوئی تعلق نہیں ہے نہ صرف منقطع کرلیا جاتا ہو
بلکہ استوار بھی ہوجاتا ہو ۔ امریکہ اور ایران کے بنتے بگڑتےتعلقات اس کی
زندہ مثال ہیں۔
امریکہ اور اسرائیل کے درمیان اختلاف کی بنیادی وجہ مشرقی یروشلم کے
اندرجاری غیر قانونی جدید تعمیرات ہیں جن کے سبب محمود عباس نے جان کیری کی
سربراہی میں جاری والی گفت و شنید سے منہ موڑ لیا۔ اقوام متحدہ اور دیگر
عالمی اداروں میں امریکہ ہنوز اسرائیل کی ہر جارحیت کو ویٹو تو کرتا جارہا
ہے لیکن دن بدن تبدیل ہونے والی سیاسی صورتحال میں اس کیلئے ایسا کرنا مشکل
سے مشکل تر ہوتا جارہاہے۔ ایک طرف داعش کی مخالفت اور دوسری جانب اس سے
سفاک تر اسرائیل کی حمایت یہ بات اقوامِ عالم کے گلے سے اتر نہیں پارہی
ہے۔فی الحال بین الاقوامی سطح پر اسرائیل کے ساتھ ساتھ امریکہ بھی تنہا
ہوتا جارہا ہے ۔ آزادی اور انسانی حقوق کے حوالہ سے اس کی منافقت آئے دن
بے نقاب ہوجاتی ہے۔ اسرائیل کے اندر روزافزوں تشدد اور نسل پرستی کو خود
اسرائیلی صدر ریوفن ریفلن نے یروشلم کے وکلا ء کی تنظیم میں تسلیم کرتے
ہوئے کہا کہ ہم احمق ہیں اگر ہم ’’عرب مردہ باد ‘‘کی صدا بلند کریں۔یہ نعرے
اب رات کی تاریکی میں ویران دیواروں پر نہیں لکھے جاتے بلکہ دن دہاڑے بلند
کئے جاتے ہیں ۔
اس طرح کی اشتعال انگیزی کے اثرات عالمی رائے عامہ پر پڑتے ہیں جس کا
مظاہرہ اسرائیل کے وزیر تحفظ موشے یعلون کے حالیہ امریکی دورے کے وقت ہوا
جبکہ اسرائیلی لابی کی ساری اٹھا پٹخ کے باوجود کسی سینئر افسر کو اس سے
ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔ یہ اور بات ہے کہ دونوں فریقوں نے اس رسوائی
کو ڈھانپنے کی حتی الامکان کوشش کیاس کے باوجود اسرائیل کے ذرائع نےاعتراف
کرہی لیا کہ اصل نشانہ یعلون نہیں بلکہ یاہو تھا۔ نتن یاہو فی الحال دوطرفہ
دباؤ کے درمیان پس رہا ہے۔ ایک طرف اسے اپنا اقتدار بچانا ہے تاکہ حامی
جماعتیں ناراض ہو کر حکومت گرانہ دیں اوردوسری جانب اپنے آقا و مالک
امریکہ بہادر کو خوش رکھنا ہے۔ نتن یاہو کی مجبوری کا ادراک کرنے کیلئے
اسرائیل کی داخلی سیاسی صورتحال کو سمجھنا ضروری ہے۔ اسرائیل کے اندر
متناسب نمائندگی کا اصول نافذ ہے اس کے چلتے گزشتہ سال انتخاب میں نتن
یاہوکی لکڈ پارٹی کے۱۲۰ میں سے صرف ۲۰نمائندے پارلیمان میں جاسکے۔یاہو کے
دائیں بازووالے صہیونی الحاق کے پاس کل ۶۱ نمائندے ہیں ۔اس کی حکومت ۲۰
اپنے تو۴۱ غیر جماعتی کٹرفسطائی گروہوں کی حمایت پرٹکی ہوئی ہے ۔ وہ انتہا
پسندجماعتیں بیک وقت اقتدار کا فائدہ بھی اٹھاتی ہیں اور وزیراعظم کو
کمزوری کا طعنہ بھی دیتی ہیں۔ حسب ضرورت اپنے سخت گیررائے دہندگان کوہمنوا
بنائے رکھنے کیلئے حکومت گرانے کی دھمکی دینے سے بھی بازنہیں آتیں ۔ ایسے
میں نتن یاہو کبھی غزہ سے جنگ توکبھی ہیکل سلیمانی کی کہانی چھیڑ دیتا ہے
جس سے بشمول امریکہ دنیا بھر کی رائے عامہ اس کے خلاف ہوجاتی ہے۔
نتن یاہوکو اسی مشکل نےدنیا کا کمزور ترین رہنمابنا دیا ہے۔ اس لئے کہ اسے
آئے دن کسی نہ کسی کے آگے جھکنا پڑتا ہے۔ اس حقیقت کا مظاہرہ حال میں اس
وقت ہوا جب اس نے امریکہ اور یورپ کے دباو میں آکر مشرقی یروشلم میں
تعمیرات کا کام موقوف کردیا۔ اسرائیل کے سابق ڈپٹی وزیر خارجہ ڈینی اعلون
نے اس کا اعتراف کرتے ہوئے اس رحجان کو خطرناک قرار دیا۔ اعلون کے مطابق جب
ان تعلقات کی خرابی بہت زیادہ بڑھ جائیگی تو اس کے غیرمعمولی اثرات مرتب
ہوں گے اس لئے کہ اس سے امریکی رائے عامہ اسرائیل کے خلاف ہو جائیگی۔ اس
میں شک نہیں کہ امریکی حکمرانوں کے نزدیک اپنے عوام کی رائے اسرائیل سے
تعلقات کی بہ نسبت زیادہ اہم ہیں۔ اس لئے کہ جمہوری نظام میں اقتدار کا
دارومداررائے عامہ پر ہوتا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک پر امریکہ سے تعلقات کا
کوئی خاص اثر نہیں پڑتا لیکن اسرائیل کیلئے جو امریکہ کے ٹکڑوں پر پلتا ہے
اور اس کی مدد سے جیتا ہے امریکی تعلقات ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں
اور اسکی خرابی اسرائیل جیسی طفیلی ریاست کی کمرتوڑ سکتی ہے۔
رائے عامہ کے بناؤ اور بگاڑ کا انحصا ربہت حد تک ذرائع ابلاغ پر ہوتا ہے
اور چونکہ امریکی میڈیا میں یہودیوں کا اثرورسوخ بہت زیادہ ہے اس لئے کچھ
لوگوں کا خیال ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوگا لیکن امریکی ذرائع ابلاغ کا
معاملہ بھی اردو میڈیا جیسا ہےکہ بی جےپی کے خلاف وہ امت کیلئے سیسہ پلائی
ہوئی دیوار بنے رہتے ہیں لیکن اسی کے ساتھ ملت کی داخلی کمزوریوں پر خوب
مواخذہ بھی کرتے ہیں۔ امریکی میڈیا فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی بھرپور
حمایت کرتا ہے مگر اسرائیل کی داخلی کمزوریوں پر بھی دل کھول کر گفتگو کرتا
ہے۔بدقسمتی امریکی ذرائع ابلاغ قومی میڈیا بھی ہے اسے سے صرف یہودی نہیں
بلکہ عام لوگ استفادہ کرتے ہیں۔ اردو کے ساتھ یہ نہیں ہوتا اس لئے اندر کی
بات اندرہی رہ جاتی مگر امریکہ میں یہ ہانڈی بیچ چوراہے پر جاکر پھوٹ جاتی
ہے۔ اسرائیل کے بارے میں جاننے کیلئے عبرانی اخبارات کا مطالعہ ضروری نہیں
ہوتا سب کچھ انگریزی میں مل جاتا ہے-
اخبار گارجین کے اندر اسرائیل کے حالیہ صدارتی انتخاب پر تبصرہ اس حقیقت کی
منہ بولتی تصویر ہے ۔ گارجین نےاسے اب تک کی سب خراب صدارتی مہم قرار دیا۔
ویسے تو اسرائیل میں صدارت کا عہدہ ہاتھی کے دانت کی مانند آرائش و زیبائش
کی چیز ہے۔ اس کے باوجود چار لوگ اس کیلئے میدان میں کود پڑے۔ ان میں سے
ایک سلوان شالوم پر جنسی تشدد کا الزام لگایا گیا جس کے بعد اس نے اپنا نام
واپس لے لیا۔ اس کے بعد معروف لیبر رہنما بن یامین پر معاشی بدعنوانی کا
الزام لگا اور وہ بھی میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ ان واقعات سے اسرائیلی
سیاست میں اخلاقی انحطاط کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ان کے علاوہ حزب
اقتدار لکڈ کے رہنماریوفن ریفلن کو بدنام کرنے والی ایک ویڈیو بھی ارکان
پارلیمان کے درمیان گردش کرنے لگی ۔ اس بابت تلخ ترین انکشاف یہ ہوا کہ خود
وزیراعظم یاہو اپنی جماعت کے امیدوار کی مخالفت کررہا تھا۔
نتن یاہو کی مخالفت اس وقت اپنے بام عروج پر پہنچ گئی جبکہ اس نےامریکہ میں
مقیم نوبل انعام یافتہ ایلی وائزل پر انتخاب لڑنے کیلئے دباو ڈالنا شروع
کیا۔ نتن یاہو اس اندھی مخالفت میں یہ بھی بھول گیا کہ ایلی اسرائیل کا
شہری نہیں ہے اس لئے صدارتی انتخاب لڑنے کا اہل قرار نہیں پاتا۔ ویسے ایلی
اگر دلچسپی لیتے تو ممکن یاہوشہریت بھی بحال کردیتا لیکن اس کے برعکس انہوں
نے معذرت چاہ لی ۔ اس کے باوجود یاہو باز نہیں آیا بلکہ اپنے مشترک دوستوں
کے ذریعہ دباؤ ڈالتارہا۔ ان میں سے ایک نے ایلی سے کہا جنت میں
بیٹھاتمہارا باپ تمہیں اسرائیل کا صدر بنتا دیکھ کر کس قدر خوش ہوگا۔ کیا
تم نہیں چاہتے کہ وہ تم پر فخر کرے۔ اس کے باوجود ایلی نے یہ پیش کش
ٹھکرادی اور کہا میں کتابیں لکھتا ہوں اور یہ کام میرے مزاج کے مطابق نہیں
ہے۔ ایلی کے اس جواب سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے امریکہ کے یہودی دانشوروں
کے نزدیک اسرائیل کے اولین شہری ہونے کا اعزاز کس قدر غیراہم اور بے وقعت
ہے؟
ان واقعات کی روشنی میں مقبوضہ فلسطین کی اسلامی تحریک کے سربراہ الشیخ
رائد صلاح کی ترکی کے ثقافی دارلخلافہ استنبول میں کی جانے والا حالیہ خطاب
یاد آتا ہے۔ انہوں نے فرمایا ’ ہر گزرتے سال کے ساتھ اسرائیل کی عمر کم
ہوتی جا رہی ہے۔ قابض اسرائیلیوں کے مسجد اقصیٰ پر حملہ امت مسلمہ کے لئے
چیلنج ہے اور امت مسلمہ اس پر خاموش نہیں رہے گی۔ قبلہ اول پر ۶۴ سالہ تسلط
کے باوجود اسرائیل ایک ظالم اور باطل مملکت ہے جو تیزی سے اپنی شناخت کھو
رہی ہے۔ الشیخ رائد صلاح نے اس موقع پر عثمانی دور کے ترانہ بجانے والے
بینڈ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ فتح استنبول کا ترانہ ہمارے لہو گرما گیا
ہے۔ اب آپ القدس کی فتح کا ترانہ گانے کے لئے تیار ہو جائیں۔ شیخ رائد کے
ایمان افروز اور حوصلہ افزا بیان نے ساری دنیا کے مسلمانوں کے دل میں امید
کا ایک چراغ روشن کردیا ہے ۔ جس کا نور ظلم و جور کی تاریکی کو نگل جائیگا
اور اس کے بطن سے فلسطین آزادی و خودمختاری کی مبارک صبح نمودار ہوگی۔ ان
شاء اللہ۔ |