’’اتفاقیہ لیڈر ‘‘درکار ہے
(Prof Liaquat Ali Mughal, Kehroor Pakka)
اتفاقات ،حادثات ،سانحات و
واقعات انسانی زندگی کو نہایت حد تک متاثر کرتے ہیں اور معاشرتی اقدار اور
حالات کو بدلنے میں اہم کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ انسان کی قدرومنزلت کو
بڑھانے اور کم کرنے میں سنگ میل ثابت ہوتے ہیں۔کچھ اتفاقات ایسے ہوتے ہیں
جن کی وجہ سے قوموں کی ہیئت ہی تبدیل ہوجاتی ہے اور ان کو زمین سے اٹھاکر
بام عروج تک پہنچادیتے ہیں اور کچھ اتفاقات و سانحات ایسے ہوتے ہیں کہ
انسانوں کی بے حسی اور مادی پرستی کی بدولت قوموں کو ذلت و پستی کی عمیق
گہرائی دھکیل دیتی ہے۔آج ہم دنیا اور پاکستان میں ہونے والے اتفاقات کے
حوالے سے بات کریں گے۔
16 سال کی عمر میں ہی والد کی وفات کے بعد حالات کی تنگی کے پیش نظر تعلیم
کو خیر باد کہہ کر ایک جہاز بنانے والی کمپنی میں ملازمت کرلی ۔ لیکن اس
دوران کھیل اور تیراکی جوکہ اس کا شوق تھا،کو نہ چھوڑا۔ ان کے گھر کے سامنے
ایک تالاب تھا۔ وہاں پر اکثر دوبہن بھائی تیراکی کی غرض سے آتے تھے ہرروز
مقابلے میں بھائی سبقت لے جاتا۔ ایک روز بہن آگے نکل گئی اور وننگ پوائنٹ
پر پہنچ کر خوشی کے مارے جب اس پیچھے مڑ کردیکھا تو پریشان ہوگئی کہ اس کا
بھائی پانی میں ڈبکیاں کھا رہا تھااور تیر نہیں پارہا تھا۔لڑکی نے فورا شور
مچانا شروع کردیا ۔ اتفاق سے وہ وہاں موجود تھا اس نے فورا تالاب میں
چھلانگ لگائی اور ڈوبتے ہوئے لڑکے کو باہر نکال لایا۔ لڑکا بے ہوش ہوچکا
تھااس نے لڑکے کو زمین پر سیدھا کیا اور آہستہ آہستہ اس کے سینے پر مالش
کرنے لگا۔تھوڑی سی کوشش کے بعد لڑکے کے منہ سے پانی باہر نکلااور اسے ہوش
آگیا۔ اسی اثنا میں لڑکے کے والد بھی وہاں پہنچ چکے تھے ۔ وہ اس کی
کارکردگی پر بہت خوش تھے۔ والد کے اس سے اس کی خواہش پوچھی تو اس نے کہا کہ
’’میں ڈاکٹر بننا چاہتا ہوں‘‘ لڑکے کے والد نے اس کی مدد کی حامی بھرلی اور
اس کی پڑھائی میں مدد کی۔بلآخر 1906 میں وہ ڈاکٹر بن گیا۔ یہ ڈاکٹر بننے
والا لڑکا الیگزینڈر فلیمنگ تھا اور ڈوبنے والا لڑکا سر ونسٹن چرچل تھا جو
کہ بڑا ہوکر انگلینڈ کا وزیر اعظم بنا۔ ایک اتفاق ایک حادثے نے ایک غریب
لڑکے(الیگزینڈر فلیمنگ) کی زندگی بدل ڈالی۔ انہوں نے اس پر اکتفاہی نہیں
کیا ۔ پیسے کو مطمع نظر نہیں بنایا اور تحقیق کے میدان میں قدم رکھا
اورجراثیم پر کئی دریافتیں کر لی ڈالیں۔درحقیقت اس کے پیش نظر قوم اور
انسانیت کی فلاح و بہبود تھی۔فلیمنگ نے انسانی خون کو طاقتور بنانے کا
منصوبہ بنایا تاکہ جراثیم کے خلاف قوت مدافعت پیدا کی جاسکے۔ اتفاق دیکھئے
کہ دریافت کے مکمل ہونے کے بعد ان کو زکام ہوگیا انہوں نے ناک سے بہنے والے
پانی(رطوبت) پر جراثیم پالے۔ایک خیال کے تحت ہی زکام کے پانی کاایک قطرہ ان
جراثیموں پر ڈالا جہاں قطرہ گرایا وہاں پر موجودتمام جراثیم ہلاک ہوگئے اس
تجربے کو انہوں نے بار بار دہرایا ہر بار یہی نتیجہ سامنے آیا ۔ یہی جراثیم
کش خصوصیات انسانی آنسو، تھوک اور جانوروں کے دودھ میں بھی موجود پائی۔ ایک
اور اتفاق دیکھئے کہ 1928 میں پھوڑ ے پھنسیاں پیدا کرنے والے جراثیم پر
تجربات کررہے تھے کہ وہ برتن جس میں جراثیم موجود تھے اس کو ڈھاپنا بھول
گئے ہوا میں موجود ایک پھپھوندی (فنجی)ان پر گری اور وہ سارے جراثیم
مرگئے۔ثبوت کرنے کیلئے انہوں نے پھپھوندی کو پانی پر اگایا اور ہر مرتبہ
تجربہ کامیاب ہوا اور مزے کی بات یہ کہ پھپھوندی میں کوئی زہریلا پن بھی نہ
تھا اور اسی بنا پر Penicilline بنائی گئی۔
انگریزوں کاہندوستان میں آنا بھی اتفاق تھا۔ شاہجہاں اپنی بیٹی جہاں آرا سے
بڑی محبت کرتا تھا ایک روز باپ سے ملنے کے بعد اپنے کمرے میں جارہی تھی کہ
اسکا ریشمی لباس اچانک شمع کے ساتھ جا لگا اور اس نے فورا آگ پکڑلی اور اس
بری طرح پکڑی کہ کوشش کے باوجود شہزادی بری طرح سے جھلس گئی۔ علاج صدقات
خیرات دعائیں سب بے اثر تھیں اور زخم ٹھیک ہونے کا نام نہ لے رہے تھے۔ایک
روزکسی درباری نے ایک فرنگی ڈاکٹر کی بہت تعریف کی۔ اسے بلایا گیا۔اس نے
علاج شروع کیا اور شہزادی صحت یاب ہوگئی۔جشن منایا گیا اور بادشاہ نے ڈاکٹر
بارٹن سے اس کی خواہش معلوم کی ۔ ڈاکٹر نے کہا کہ بادشاہ سلامت ’’ اگر مجھے
کچھ دینا چاہتے ہیں تو میری قوم کو یہاں تجارت کی وہ سہولیات دی جائیں جو
پرتگیزیوں کو دی ہوئی تھیں‘‘ بادشاہ نے اس کے قومی جذبے کی قدر کی ۔ اس طرح
انگریزوں کو ہر طرح کا قانونی تحفظ حاصل ہوگیا اور ہماری سیاست عبادت
تعلیمی رسومات بلکہ رگ و پے میں رچی بسی مغربیت واضح دکھائی دیتی ہے ۔ شاید
یہ بھی اتفاق ہے
اب اور اتفاقات بھی دیکھتے جائیے۔بھٹوکی ہٹ دھرمی کی وجہ سے بنگلہ دیش ہم
سے اتفاقیہ الگ ہوگیا۔ ضیاء الحق کو مارشل لا لگانے کا ’’اتفاق‘‘ہوا۔ ضیاء
الحق کی شہادت کے بعد اتفاقات و حادثات نے شریف برادران کو اس ملک کاall in
all بنادیا۔ہیوی مینڈیٹ کے زعم میں پرویز مشرف سے پنگا لیا اسے قید کرنے کی
کوشش کی مگر اتفاقا پرویز مشرف ملک کے آرمی چیف تھے ۔آرمی کا ڈنڈا چلا اور
اس اتفاق کی بناپر شریف برادران کو دھر لیا گیا۔ اور عرصہ دراز تک جلاوطنی
کی زندگی گزارنا پڑی۔پرویز مشرف ملک کے کرتا دھرتا بن گئے۔ پھر اتفاقات نے
زور پکڑا یک ٹی وی چینل پر حملہ کرایا گیا اس وقت سے وہ ٹی وی چینل پاپولر
ہوگیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان کو نظر بندکرنے کا اتفاق ہوا اور اتفاق دیکھئے
کہ ملک کا بچہ بچہ چیف جسٹس کو جانتا ہے اور اسی وجہ سے عدلیہ ’’آزاد‘‘
ہوگئی۔ اب اسے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ طاہر القادری نے جلسہ کیا لوگوں کا
جم غفیر تھا بارش ہونے کا اتفاق ہوا اور قادری صاحب کی پاپولیریٹی دو چند
ہوگئی۔بے نظیر کی موت کا حادثہ ہوا اور صدرزرداری کو ملک کا صدر بننے کا
اتفاق ہوا۔ لال مسجد والہ سانحہ ہوا اور ان سب اتفاقات حادثات اور سانحات
نے مل کر پرویزمشرف کیلئے پھندہ تیار کیا اور پھر پرویز مشرف کی وردی جو کہ
ان کی کھال تھی،کو اتار دیا گیا۔ اور پھر کچھ عرصہ کے بعد NRO کا اتفاق ہوا
اور شریف برادران کو دوبارہ سے مملکت خداداد کی ہوا نصیب ہوئی۔ سوئس بنک کو
خط والہ واقعہ ہوا ۔وزیر اعظم کو حادثاتی طور پر مستعفی ہونا پڑا۔ پرویز
اشرف نے رینٹل پاور کا ڈرامہ رچایا۔ایفی ڈرین کیس بنا یہ اور دوسرے بہت سے
حوادث نے مل کر پاکستان پیپلز پارٹی کا گراف گرادیا اور پھر وہ خود لوگوں
اور عوام کی نظروں میں گرگئے۔یہ بھی ایک حادثہ گردانا جارہا ہے کیونکہ ان
کے بقول تمام معاملات ’’ٹھیک ٹھاک‘‘ تھے بس بجلی کابحران، گیس کی
قلت،مہنگائی کا طوفان،دہشت گردی کا عفریت،ریلو ے کی تباہی، پی آئی اے کی
ناقص کارکردگی،الیکشن اور الیکشن کمیشن پر سوالیہ نشانات وغیرہ وغیرہ کچھ
’’چھوٹے موٹے‘‘ایشوز ہیں جو کہ قوم کو پریشان کئے دے رہے ہیں۔ حالانکہ قوم
کو تو اب تک ان چیزوں کا عادی ہو جانا چاہئے کیونکہ اب جو حالات و واقعات
درپیش ہیں مزید ابتری کی جانب گامزن ہیں کہیں کوئی بہتری کی امید نظر نہیں
آتی۔ہر طرف سراب ہی سراب ہے۔دھوکہ ہے فریب ہے ۔حکومت کی رٹ دکھائی نہیں
دیتی۔سب کا اتفاقیہ چل رہے ہیں۔مسائل کے حل کا کوئی بھی عمل سجھائی نہیں دے
رہا۔تجربات کئے جارہے ہیں کہ کہیں کوئی تکا(اتفاق) لگ ہی جائے ۔بس باری
تعالٰی سے دعا ہے کہ کوئی ایسا اتفاق کردے کہ الیگزینڈر فلیمنگ یا ڈاکٹر
بارٹن جیسا قوم سے مخلص لیڈر پاکستانی قوم کو دستیاب ہوجائے اور ملک و قوم
کی حالت میں سدھار آجائے۔ورنہ تو…………! |
|