واہگہ باڈر پر بے گناہوں کے لاشے
اور چیختے ،سٹپٹاتے معصوم،خون میں لت پت، لوگ دیکھے تو افتخار عارف کے
الفاظ یاد کے دریچوں میں چیخ اٹھے
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے
واہگہ باڈر ،سرحد پاکستان ،وہ جگہ جس کی حفاطت کے فرائض ،ہندوستان اور
پاکستان دونوں کی افواج اور رینجرز کے سپرد ہیں اور جہاں کوئی پرندہ بھی پر
نہیں مار سکتا اگر کوئی معصوم آ بھی جائے تو اس کی زندگی کی ضمانت کوئی
نہیں دے سکتا ۔ایسے میں لرزہ خیز اور افسوسناک واقعہ کا ہونا، اور 60سے
زیادہ افراد کا لقمۂ اجل بن جانا ،اور80 سے زیادہ افراد کا زخمی ہو جانا
بلاشبہ تمام حفاظتی اداروں ،حکومت اور رینجرز و افواج پر ایک سوالیہ نشان
ہے ۔۔۔!!!
یہ اس لئے بھی لمحۂ فکریہ ہے کہ اس حادثے کی اطلاع پہلے سے ہمارے حفاظتی
اداروں کو دی جا چکی تھی ۔روزنامہ اوصاف نے منگل 10 جون 2014 میں لکھا کہ
واہگہ باڈر پر پرچم کشائی کی تقریب پر حملے کے لیے دو خود کش بمبار روانہ،
جن کا مقصد بڑے پیمانے پر نقصان پہنچانا ہے، اس کے بعد نیا اخبار نے28
اکتوبر کو انٹیلیجنس رپورٹ کے حوالے سے یہ خبر شائع کی اورڈان نیوز نے
30اکتوبر کو یہ خبر شائع کی بالتریتب سبھی نے اس خبر کو اجاگر کرنے کی کوشش
کی ،چلیں یہ تو بات گزشتہ مہینوں کی ہے ،28اکتوبر 2014 کو نوائے وقت نے بھی
یہ خبر دی کہ دہشت گردوں نے پاکستان ،بھارت سرحد پر واہگہ میں فلیگ کی
تقریب کو ٹارگٹ کرنے کی کاروائی شروع کر دی ہے ۔اور اس کے تین مقاصد بتائے
گئے تھے ۔پہلا پاک بھارت کشیدگی کو فروغ دینا ،دوسرا پاکستان کو بین
الاقوامی طور پر بدنام کرنا ،اور تیسرا آپریشن ضرب عضب کو نقصان پہنچانا ۔اس
بارے وزارت داخلہ کی جانب سے ڈی جی رینجرز پنجاب کو فور ی طور پر اقدامات
کرنے کے لیے کہا گیا تھا ،اسی اثنا میں مسجدوں ،ہوٹلوں ،کالجوں اور تمام
مشکوک جگہوں کی نگرانی اور چیکنگ شروع کر دی گئی تھی ۔اور اس کی تصدیق
وفاقی وزارت داخلہ ،پنجاب حکومت کے ترجمان اور آئی جی پنجاب کے بیانات نے
کر دی ہے ،اب اس بارے کوئی دو رائے نہیں رہیں کہ اس حادثے کے متعلق ہم بے
خبر تھے ۔ایسے میں ملٹری اسٹیبلیشمنٹ کے اندر تکفیری لابی اورسٹریٹجک
گہرائی کی پالیسی کے ہمنوا اس واقعے کی ذمہ داری ہندوستان پر ڈالنے کی کوشش
کر رہے ہیں اور کچھ در پردہ ملٹری قیادت پراور کچھ بین الاقوامی طاقتوں کو
الزام دے رہے ہیں اوراس کو برملا دہشت گردوں کا ردعمل کہنے والے دانشورورں
کی بھی کمی نہیں ہے ،الغرض قیافے لگانے میں، ہم حقائق اور وجوہات کو ہمیشہ
پس پشت ڈال دیتے ہیں اور نتیجتاً ہمیں ایسے حادثوں سے، لاگاتار نبرد آزما
ہونا پڑتا ہے۔
سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ اگر ہم پہلے سے آگاہ تھے تو ہم اس حقیقت سے بھی
آگاہ ہوں گے کہ یہ حشر کس
نے برپا کیا ؟؟کون تھا جو یہ جانتا تھا کہ یہ تقریب اطلاع کے باوجود منعقد
کی جائے گی اور اتنی بڑی عوام الناس کی تعداد اس میں شریک ہوگی ۔ آج نوحہ
کنا ں آنکھوں میں یہی سوال ہے۔باعث الم و خوف یہ بھی ہے کہ کافی عرصے سے
ایسے حادثات رک گئے تھے اور ایک اطمینان کا عالم تھا مگر اس حادثے نے سب کو
دہلا کر رکھ دیا ہے ،سناٹا تو سرحد پار بھی چھا گیا ہے ۔مگر ان سوالوں کا
جواب کون دے گا ۔۔؟؟
یہ بات نوشتہ دیوار کی طرح ہے کہ آج ہم دشمنوں کی چالاکی کیوجہ سے نہیں
بلکہ اپنے کمزور ایمان کی وجہ سے، مار کھا رہے ہیں ۔ہم جانتے ہیں ہمارے
دشمن ہماری جڑوں میں بیٹھے ہیں اور ہماری تباہی و بربادی کے لیے، ہمہ وقت
مصروف عمل ہیں ۔وہ مظلوم انسانیت کو، دہشت گردی کے لیے اکساتے ہیں اور پھر
ہمیں ہی مورد الزام ٹھہراتے ہیں ۔اور ہماری عقل اور سرمایہ اپنوں کے گلے
کاٹنے ، فتنہ بازی اور حرام کاری میں صرف ہو رہے ہیں ۔ہمیں اندرونی خلفشار
و مفادات میں الجھا کر ،دشمن اپنی انگلیوں پر نچاتا اور در پردہ اپنے مضموم
عزائم اور مقاصد کو پورا کر تا ہے ۔ہم بار بار استعمال ہوتے ہیں اور ہمارا
نقصان بھی ہوتا ہے مگر ہم ڈھیٹ قوم بن کر، پھر اگلے نقصان کے لیے سر بہ
زانو ہو جاتے ہیں ۔اگر آج ہم ایسے حادثوں اور سانحوں کا نشانہ بن رہے ہیں
تو حیرت کیسی ؟اگر دشمن نے پھر ہمیں نشانہ ستم بنا ڈالا تو صدمہ کیسا ؟آج
اندرونی اور بیرونی خطرات اگر ہمارے سروں پر منڈلا رہے ہیں تو اضطراب کیسا
؟؟طاقت کے نشے میں بد مست اور اقتدار کی ہوس میں مبتلا ذہنوں اور اغراض و
مقاصد میں اندھے ضمیروں کا یہی انجام ہوتا ہے ۔
یوں تو آگاہ تھے صیاد کی تدبیر سے
ہم اسیرِ دام ِ گل اپنی خوشی سے ہو گئے
مگر مفاہمت کے نام پر منافقت کی سیاست کا ،ایک دن قلع قمع ضرور ہوگا
،کیونکہ ظلم جب حد سے بڑھتا ہے، تو مٹ جاتا ہے ۔اس حادثے نے جہاں ان گنت
سوالات اٹھائے ہیں وہاں یہ ہمارے حفاظتی اداروں اور حکومت کے لیے تنبیہ بھی
ہے کہ اگر مناسب حکمت عملیاں مرتب نہ کی گئیں تو ایک بار پھر، ملکی و جانی
سالمیت کو بڑا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ اب کے ایسے لائحہ عمل ترتیب دینے ہوں
گے، جس سے متوقع نقصانات سے بچا جا سکا ۔کس قدر روح فرسا ،وہ منظر ہوگا ،جب
ایک ہی گھر کے7 یا 8 افراد کے جنازے قبروں میں اتارے جائیں،یہ کہنا بہت
آسان ہے۔مگر ۔۔۔ اے منصفو ۔۔!!! جن ہاتھوں نے اتارے ہیں وہی اس کا غم جانتے
ہیں مجھے اپنا ہی ایک شعر یاد آگیا
وصل حاصل ہے جسے ہجر بھلا کیا جانے
جان پائے ہے وہی جس کا ضیاع ہوتا ہے
مگر میری دعا ہے کہ یہ حادثہ سانحہ نہ بن جائے ،کیوں کہ سانحہ میں انسان بے
بس ہو جاتا ہے ،یہاں تک
کہ نقصان کا ازالہ بھی ممکن نہیں رہتا ،اس لیے دعا ہے کہ اس میں شامل تمام
مجرم جلد گرفتار ہوں اور کیفر کردار کو پہنچیں - |