قائد اعظم محمد على جناح کی زندگی

قائد اعظم محمد على جناح کی زندگی

قائد اعظم محمد على جناح (25 دسمبر 1876ء - 11 ستمبر 1948ء) آل انڈیا مسلم لیگ کے لیڈر تھے جن کی قیادت میں پاکستان نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی۔ آپ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل تھے۔ آغاز میں آپ انڈین نیشنل کانگرس میں شامل ہوئے اور مسلم ہندو اتحاد کے ہامی تھے۔ آپ ہی کی کوششوں سے 1916 میں آل انڈیا مسلم لیگ اور انڈین نیشنل کانگرس میں معاہدہ ہوا۔ کانگرس سے اختلافات کی وجہ سے آپ نے کانگرس پارٹی چھوڑ دی اور مسلم لیگ کی قیادت میں شامل ہو گئے اور مسلمانوں کے تحفظ کی خاطر مشہور چودہ نکات پیش کئے۔ مسلم لیڈروں کے درمیان اختلافات کی وجہ سے آپ انڈیا چھوڑ کر برطانیہ چلے کئے۔ بہت سے مسلمان رہنماؤں خصوصا علامہ اقبال کی کوششوں کی وجہ سے آپ واپس آئے اور مسلم لیگ کی قیادت سنمبھالی۔ 1946 کے انتخابات میں مسلم لیگ نے مسلمانوں کی بیشتر نشستوں میں کامیابی حاصل کی۔ آخر کار برطانیہ کو مسلم لیگ کے مطالبہ پر راضی ہونا پڑا اور ایک علیحدہ مملکت کا خواب قائد اعظم محمد على جناح کی قیادت میں شرمندہ تعبیر ہوا۔

ابتدائی زندگی
آپ کراچی، سندھ میں وزیر منشن میں 25 دسمبر 1876 کو پید اہوئے۔ آپ کا نام محمد علی جناح بھائی رکھا گیا۔ آپ اپنے والد پونجا جناح کے سات بچوں میں سے سب سے بڑے تھے۔ آپ کے والد گجرات کے ایک مالدار تاجر تھے جو کہ کاٹھیاوار سے کراچی منتقل ہو گئے تھے۔ آپ نے باقاعدہ تعلیم کراچی مشن ہائی سکول سے حاصل کی۔

1887 کو آپ برطانیہ میں گراہم سپنگ اینڈ ٹریڈنگ کمپنی میں کام سیکھنے کے لئے گئے۔ برطانیہ جانے سے پہلے آپ کی شادی آپ کی ایک دور کی رشتہ دار ایمی بائی سے ہوئی جو کی آپ کے برطانیہ جانے کے کچھ عرصہ بعد ہی وفات پا گئیں۔ لندن جانے کے کچھ عرصہ بعد آپ نے ملازمت چھوڑ دی اور لنکن ان میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے داخلہ لے لیا اور 1896 میں وہاں سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ اس وقت آپ نے سیاست میں بھی حصہ لینا شروع کر دیا۔

انڈیا واپس آنے کے بعد آپ نے ممبئی میں وکالت شروع کی اور جلد ہی بہت نام کمایا۔

ابتدائی سیاسی زندگی
ہندوستان واپسی کے بعد جناح صاحب نے ممبئی میں قیام کیا۔ برطانیہ کی سیاسی زندگی سے متعثر ہو کر ان میں اپنے ملک کو بھی اس ہی روش پر بڑھتے ہوئے دیکھنے کی امنگ نمودار ہوئی۔ جناح صاحب ایک آزاد اور خود مختار ہندوستان چاہتے تھے۔ ان کی نظر میں آزادی کا صحیح راستہ قانونی اور آئینی ہتھیاروں کو استعمال کرنا تھا۔ اس لئے انہوں نے اس زمانے کی ان تحریکوں میں شمولیت اختیار کی جن کا فلسفہ ان کے خیالات کے متابق تھا۔ یعنی انڈین نیشنل کانگریس اور ہوم رول لیگ۔

اس ہی دوران میں آل انڈیا مسلم لیگ ایک اہم جماعت بن کر سیاسی افق پر ابھرنے لگی۔ جناح صاحب نے مسلمانوں کی اس نمائندہ جماعت میں شمولیت اختیار کی۔ جناح صاحب ہندوستان کی سیاسی اور سماجی اصلیتوں میں مذہب کی اہمیت کو جانتے ہوئے اس بات کے قائل تھے کہ ملک کی ترقی کے لئے تمام تر لوگوں کو ملک مل کر کام کرنا ہوگا۔ اس لئے انہوں نے ہندوستان کے دو بڑی اقوان یعبی ہندو اور مسلمان دونوں کو قریب لانے کی کوشش کی۔ جناح صاحب کی اس ہی کوشش کا نتیجہ 1916 کا معاہدہ لکھنؤ تھا۔

مسلم لیگ کے راہنما

تحریک پاکستان

گورنر جنرل

وفات
قائد اعظم محمد على جناح پاکستان کے بانی تھے-23 مارچ 1940 کو قرارداد پاکستان پیش ہوا جہاں سے پاکستان کی آزادی کی تحریک شروع ہوئی۔

قائدِ اعظم کے متعلق اہلِ نظر کی آراء

علامہ شبیر احمد عثمانی
آل انڈیا مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی کے رکن اور ممتاز عالمِ دین جنہوں نے قائدِ اعظم کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ قائدِ اعظم کے متعلق فرماتے ہیں۔ "شہنشاہ اورنگزیب کے بعد ہندوستان نے اتنا بڑا مسلمان لیڈر پیدا نہیں کیا جس کے غیر متزلزل ایمان اور اٹل ارادے نے دس کروڑ شکست خوردہ مسلمانوں کو کامرانیوں میں بدل دیا ہو"۔

علامہ سید سلیمان ندوی
عظیم سیرت نگار، برِ صغیر پا ک و ہند کے معروف سیاستدان اور صحافی جناب سید سلیمان ندوی نے ١٩١٦ء میں مسلم لیگ کے لکھنئو اجلاس میں قائدِ اعظم کی شان میں یہ نذرانہ عقیدت پیش کیا۔

اک زمانہ تھا کہ اسرار دروں مستور تھے

کوہ شملہ جن دنوں ہم پایہ سینا رہا

جبکہ داروئے وفا ہر دور کی درماں رہی

جبکہ ہر ناداں عطائی بو علی سینا رہا

جب ہمارے چارہ فرما زہر کہتے تھے اسے

جس پہ اب موقوف ساری قوم کا جینا رہا

بادہء حبِ وطن کچھ کیف پیدا کر سکے

دور میں یونہی اگر یہ ساغر و مینا رہا

ملتِ دل بریں کے گو اصلی قوا بیکار ہیں

گوش شنوا ہے نہ ہم میں دیدہء بینا رہا

ہر مریضِ قوم کے جینے کی ہے کچھ کچھ امید

ڈاکٹر اس کا اگر " مسٹر علی جینا" رہا

مولانا ظفر علی خان
"تاریخ ایسی مثالیں بہت کم پیش کر سکے گی کہ کسی لیڈر نے مجبور و محکوم ہوتے ہوئے انتہائی بے سرو سامانی اور مخالفت کی تندوتیز آندھیوں کے دوران دس برس کی قلیل مدت میں ایک مملکت بنا کر رکھ دی ہو" ۔

علامہ عنایت اللہ مشرقی
خا کسار تحریک کے بانی اور قائدِ اعظم کے انتہائی مخالف علامہ مشرقی نے قائد کی موت کا سن کر فرمایا - "اس کا عزم پایندہ و محکم تھا۔ وہ ایک جری اور بے باک سپاہی تھا، جو مخالفوں سے ٹکرانے میں کوئی باک محسوس نہ کرتا تھا"۔

لیاقت علی خان
پا کستان کے پہلے وزیرِ اعظم اور قائد کے دیرینہ ساتھی نواب زادہ لیاقت علی خان نے کہا تھا۔ "قا ئدِاعظم بر گزیدہ ترین ہستیوں میں سے تھے جو کبھی کبھی پیدا ہوتی ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ تاریخ ان کا شمار عظیم ترین ہستیوں میں کرے گی"۔

قائد اعظم محمد علی جناح نےچند کالجوں میں سے 1 کالج کا انتخاب کرنا تھا
اس کالج جس کا نام
" لنکولیں ان "
تھا - قائد اعظم محمد علی جناح (ر) نے اس کالج میں داخلہ لے لیا
ان سے جب پوچھا گیا کے آپ نے اس کالج میں کیوں داخلہ لینا پسند کیا تو قائد اعظم محمد علی جناح (ر) نے کہا
میں نے اس کالج کی ریسپشن پر " محمد ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کا نام مبارک لکھا ہوا دیکھا تھا تو میں نے کہا یہی میری منزل ھے۔

باقی اللہ بہتر جانتا ھے۔

علامہ اقبال نے کہا ہے
نگہ بلند ، سخن دلنواز ، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے

اور اللہ کے کرم سے ہمیں ، ہم برصغیر کے مسلمانوں کو ، پاکستان کے حصول کی جدوجہد کے دوران ان صفات کا حامل میر کارواں میسر آیا جس نے ہمیں حصول پاکستان کی منزل تک پہنچایا اس میر کارواں کو دنیا محمد علی جناح کے نام سے جانتی ہے اور ہم نے فرط عقیدت سے جسے قائد اعظم کہا اور یہ لقب اس کی سچی قیادت کے تاج میں ایک تابناک ہیرے کی طرح جگمگایا۔

قائد کی قیادت ، ان کی شخصیت کی صداقت کے حوالے سے ملی وحدت کی علامت بن گئی اور بہ حیثیت مسلمان ہماری صدیوں کی عظمت رفتہ کی بازیافت کے امکانات روشن ہوگئے ان کی رہنمائی نے ہمارے اندر خود شناسی کا جوہر بیدار کیا ان کے کردار کے جلال ، عزم کے جمال اور گفتار کی صداقت نے ہمیں ”ایمان ، اتحاد اور تنظیم“ کے معانی سمجھائے اور ان کا نام ہمارے ملی تشخص کی علامت بن گیا۔ حصول پاکستان کی تحریک کے دوران ایک زمانہ ہمیں حیرت سے دیکھنے لگا تھا کہ یہ کیسی قوم ہے اور یہ کیسا قائد ہے جو نہ مخالف کی طاقت سے گھبراتے ہیں نہ تعداد سے ، منزل کی دشواریوں سے دل شکستہ ہوتے ہیں نہ خطرات سے ، انہیں نہ دھوکہ دیا جاسکتا ہے ، نہ خوفزدہ کیا جاسکتا ہے نہ خریدا جاسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ برصغیر کی ملت اسلامیہ کے عزم ، ارادے ، بے خوفی اور جذبہ ایمانی نے ایک پیکر خاکی کی شکل اختیار کرلی تھی اور محمد علی جناح نام پایا تھا۔ میاں بشیر احمد مرحوم نے بالکل سچ کہا تھا۔

ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح
ملت ہے جسم ، جاں ہے محمد علی جناح
رکھتا ہے تاب اور تواں دس کروڑ کی
کہنے کو ناتواں ہے محمد علی جناح

حقیقت یہ ہے کہ قائد اعظم کے معیار کی کامیابی دنیا میں بہت کم رہنماؤں کو میسر ہوئی ہے ان کی مخالفت پر دو بہت بڑی طاقتیں کمربستہ تھیں یعنی انڈین نیشنل کانگریس اور برطانوی حکومت۔ پھر جس وقت انہوں نے حصول پاکستان کے لئے مسلمانوں کی قیادت کا فیصلہ کیا اس وقت بظاہر برصغیر کے مسلمان منتشر اور کمزور نظر آرہے تھے قائد اعظم کی قیادت ہمیں بتاتی ہے کہ
انسانوں کی زندگی میں عزم و ہمت اور صداقت کی کتنی اہمیت ہے۔ حقیقت یہ ہے

کہ یقین افراد کا سرمایہ تعمیر ملت ہے
یہی قوت ہے جو صورت گر تقدیر ملت ہے

سچے ایمان اور عقیدے کی توانائی اس مادی دنیا میں بھی سب سے محکم توانائی ہے۔ قائد اعظم صرف ہمارے وکیل نہیں تھے وہ اس فکر کا عملی نمونہ تھے جس نے اقبال کی شاعری کو توانا اور محکم بنایا ہے۔ اسلام ظاہر پرستی سے عبارت نہیں ، اسلام کی شرط اول فکر کی ضمانت اور خیال کی پاکیزگی ہے۔ اسلام مصلحت کوشی نہیں ہے ، اسلام اعلان حق ہے ، محض عقل کی مصلحت کے تحت مسلمان بنے رہنا کافی نہیں ، دل کی گہرائیوں میں ایمان کی کیفیت کا اترنا ضروری ہے۔ قائد اعظم کی ساری زندگی گواہ ہے کہ سستی شہرت کے وہ کبھی طالب نہیں ہوئے اور منفی سیاست ان پر کبھی غالب نہیں آئی۔ قائد اعظم نے کبھی کوئی ایسی روش اختیار نہیں کی جس سے انہیں مسلمانوں میں جذباتی ناموری حاصل ہوجاتی۔ اس کے باوجود ان کی سیاست اور ان کی قیادت پر برصغیر کے مسلمانوں نے جس والہانہ انداز میں بھروسہ کیا اس کی کوئی مثال عصری تاریخ میں نہیں ملتی۔ یہ اعزاز منفی سیاست سے حاصل نہیں ہوسکتا تھا۔قوموں کی زندگی میں حقیقی اہمیت تو افکار کی ہوتی ہے اور ان تحریکوں کی جو ان افکار سے پیدا ہوتی ہیں لیکن تحریکوں کی روح وہ افراد ہوتے ہیں جن کے حسن عملی اور اعلیٰ کردار سے وہ افکار قومی زندگی میں شرپذیر ہوتے ہیں اور اسی روشنی میں قومیں آزمائش کے مرحلوں سے گزر کر کامیابی کی منزلوں تک پہنچتی ہیں۔قیام پاکستان ایک سمت برصغیر کی امت مسلمہ کے لئے ایک تاریخ ساز کامیابی کی علامت ہوا تو دوسری سمت مخالف قوتوں کے لئے یہ شدید ناکامی اور محرومی کی علامت بھی بنا چنانچہ اس قدر واضح ناکامی کے بعد ان قوتوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کردی ہے۔ اب کوششیں یہ ہورہی ہیں کہ ان مقاصد کو ہی فکری انتشار کا نشانہ بنایا جائے جن کے حصول کے لئے پاکستان کے قیام کی جدوجہد کی گئی ہے۔ تاریخ کے آئینے میں قائد اعظم کے خدوخال بہت نمایاں ، بہت روشن ہیں۔ انسان کی شخصیت کی طرح تاریخ کا آئینہ بھی پہلو دار ہوتا ہے اور اس آئینے میں قائد اعظم کی شخصیت کا ہر پہلو نمایاں اور آئینے کی طرح ہی صاف و شفاف ہے۔ حصول علم میں بھرپور محنت سے کامیابی حاصل کی ، وکالت کے فرائض ادا کرتے ہوئے زندگی بھر دیانت اور امانت سے کام لیا، دل میں حصول آزادی کی لگن تھی لیکن برصغیر کے مسلمانوں کے ملّی تشخص کو کبھی فراموش نہیں کیا۔ ہندو مسلم اتحاد کا علمبردار ہونا ہی اس کا بھرپور ثبوت ہے کہ وہ نظری اور عملی دونوں اعتبار سے مسلمانوں کی جداگانہ قومیت کے قائل تھے۔ انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کی بھرپور کوشش کی لیکن مسلمانوں کو ہندوستانی قومیت میں ضم ہوجانے کا مشورہ کبھی نہیں دیا اور جب انہیں یقین ہوگیا کہ ان دونوں قوموں کے مابین باعزت بقائے باہمی کا سمجھوتہ ممکن نہیں تو انہوں نے ایک آزاد اور خود مختار مملکت کے حصول کے لئے کاروان ملت کی قیادت کی اور تاریخ ساز کامیابی حاصل کی۔ سچی بات یہ ہے کہ قیام پاکستان کے ساتھ عالمی سطح پر مسلم امہ کی بیداری کی راہ بھی ایک نمایاں اور کشادہ ہوتی چلی جارہی ہے۔

قائد اعظم سیدھے سادے اور سچے مسلمان تھے جب انہوں نے یہ کہا کہ برصغیر کے مسلمان ایک جداگانہ قوم ہیں تو یہ بات انہوں نے کسی مصلحت کی بنا پر یا مسلمانوں میں سستی شہرت کے حصول کے لئے نہیں کہی تھی۔ وہ دل سے مسلمانوں کے ملّی تشخص کے قائل تھے اور بالکل اسی طرح وہ دل کی گہرائیوں سے پاکستان میں حقیقی اسلامی نظام کے قیام کے آرزو مند تھے۔ قائد اعظم پیشوائیت یا Theocracy کے مخالف تھے کیونکہ اسلام میں اس نظام کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ قائد اعظم متعصب بھی نہیں تھے کیونکہ اسلام بنیادی طور پر تکریم آدمیت کا درس دیتا ہے لیکن وہ ”لادین“ ہونے کے معنوں میں سیکولر ہر گز نہیں تھے۔ وہ پاکستان میں کسی قیمت پر اس نوعیت کے سیکولر نظام کے قیام کے حامی نہیں تھے جیسا نظام مملکت اقوام مغرب نے اپنالیا ہے۔ قائد اعظم اللہ پر اور اللہ کے آخری رسول، آخری پیغمبر کی حیثیت سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر دل کی گہرائیوں سے ایمان رکھتے تھے اور پاکستان میں وہ اسی نظام حکومت کے قیام کے آرزو مند تھے جس کو عصر حاضر میں حقیقی معنوں میں اتباع سنت نبوی قرار دیا جاسکے۔

قائد اعظم نے آل انڈیا مسلم لیگ کے آخری سالانہ اجلاس میں جو کراچی میں منعقد ہوا تھا دسمبر 1943ء کے آخری ہفتے میں اپنے خطبہ صدارت میں واضح الفاظ میں فرمایا تھا۔
”وہ کون سا رشتہ ہے جس میں منسلک ہونے سے ہم مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں؟
وہ کون سی چٹان ہے جس پر اس ملت کی عمارت استوار ہے ؟
وہ کون سا لنگر ہے جس سے اس امت کی کشتی محفوظ کردی گئی ہے ؟

وہ رشتہ ، وہ چٹان ، وہ لنگر اللہ کی کتاب قرآن مجید ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جیسے جیسے ہم آگے بڑھتے چلے جائیں گے ہم میں زیادہ سے زیادہ اتحاد پیدا ہوتا چلا جائے گا۔ اس پورے پس منظر میں ”ایمان ، اتحاد ، تنظیم“ کے معانی واضح ہوجاتے ہیں۔ قائد اعظم کی قیادت اسی جذبہ ایمانی کی مظہر تھی۔
ABDUL SAMI KHAN SAMI
About the Author: ABDUL SAMI KHAN SAMI Read More Articles by ABDUL SAMI KHAN SAMI: 99 Articles with 112836 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.