جس طرح انسان کو اپنے علاج کے
لئے کسی طبیب کی ضرورت پڑتی ہے اس طرح مشینوں کو بھی اپنے علاج کے لئے کسی
معالج کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔فرق صرف اتنا ہے کہ انسان کی بیماری کو ٹھیک
کرنے والے کو ڈاکٹر یا حکیم کہا جاتا ہے جبکہ مشینوں کے نقص کو درست کرنے
والے کو ایک انجینئیر۔ طب کی دنیا میں انقلاب برپا کرنے والی ایک اہم شےء
’’ ایکسرے ـــ ـ ‘‘ کو دریافت ہوئے اس سال119 برس ہو گئے ہیں۔ مریض کا ایک
خاص مشین پر معائنہ کرنے کے بعدکالے رنگ کی پلاسٹک کی ایک شیٹ اس کو تھما
ئی جاتی ہے جس پراس کے جسم کے کسی اندرونی حصے کی تصویر نمایا ں ہوتی ہے
عام طور پر اسے ہی ایکسرے کہا یا سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ایکسرے تو دراصل ان
خاص شعاعوں کا نام ہے جو مرض کا پتہ لگانے کے لئے استعمال کی جاتی ہیں۔ اور
اسی مناسبت سے اس مشین کو ایکسرے مشین اور اس شیٹ کو ایکسرے کہا جاتا ہے
کیونکہ اس میں ایکسرے شعاعوں کا استعمال ہوتا ہے۔ ان شعاعوں کی دریافت کے
بعد ریڈیالوجی کا ایک پورا شعبہ وجود میں آگیا اور آج دنیا کے ہر خطہ میں
لوگ اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔ انسان ان شعاعوں کا استعمال کرکے بغیر آپریشن
کے بھی جسم کے اندر کے حصوں کو دیکھ سکتا ہے۔تمام دنیا کے ریڈیو گرافر ہر
سال8 نومبر ''Radiology -Day'' کے طور پر مناتے ہیں ۔ میری نظر میں
ریڈیالوجی ڈے کو اگر ''X-Ray Day'' بھی کہہ دیا جائے تو شائد غلط نہ ہو گا۔
اس دن کو منانے کے اہم مقاصد یہ ہوتے ہیں کہ لوگوں میں اس شعبے کی اہمیت
بارے شعور پیدا کیا جائے تاکہ ذیادہ سے ذیادہ لوگ اس کی تعلیم حاصل کرکے اس
پیشے سے منسلک ہوں اور اس کے ساتھ عوام میں’ریڈیو گرافک تھراپی‘ کی اہمیت
کے بارے میں بتایا جائے کہ آج کے دور میں یہ مریضوں میں بیماریوں کی تشخیص
اور علاج میں کتنا اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ کہ یہ شعاعیں انسان کے اندر
چھپی ہوئی بڑی سے بڑی بیماری کا بھی آسانی سے پتہ لگا لیتی ہیں۔ یہ دن اس
لیے بھی مناتے ہیں تا کہ ہم wilhelm conrad roentgen کی یاد تازہ کرسکے اور
ان کی اس کاوش کو خراجِ تحسین پیش کر سکیں۔یہ وہ امریکی سائنسدان تھا جس
نے1895ء میں یہ شعاعیں دریافت کی تھیں۔اس دن وہ ایک اورکام یا تجربے میں
مصروف تھاکہ جب اسے ان شعاعوں کے متعلق علم ہوا۔ولہیم کانریڈ نے ان نئی اور
پراسرر شعاعوں کو ’’ X-rayـ ‘‘کا نام دیا۔چونکہ علمِ ریاضی میں ’X‘ ایک
نامعلوم مقدار کی علامت ہوتی ہے۔ایکسرے کی دریافت کے بعد دنیا میں سب سے
پہلا ایکسرے Wilhemکی بیوی ( برتھا) ہی کے ہاتھ کا کیا گیا تھا جس میں اس
کے ہاتھ کی انگوٹھی نمایاں نظر آرہی تھی۔ 1895ء میں کیا جانے والا دنیا کا
یہ پہلا ایکسرے آج بھی امریکہ میں ایسے ہی محفوظ ہے۔اس دریافت کے اگلے ہی
سال یعنی 1896ء میں امریکا میں طبی طور پر ایکسرے کا استعمال ہونا شروع ہو
گیا تھا۔
اس سال 2014ء میں یہ ''Radiology Day''۸نومبر کو اس Theme کے ساتھ منایا
جائے گا۔کہ یہــ’’ دماغی امراض کی تشخیص اور ان کے علاج‘‘ میں کس قدر اہم
کردار ادا کر رہی ہے۔57 ملکوں میں 110کے قریب میڈیکل سوسائٹی اس دن کی
تقریب میں حصہ لیتی ہیں۔جن میں سب سے مشہور ایک سوسائٹی 'ISRRT'ہے۔یہ ’
انٹرنیشنل سوسائٹی آف ریڈیوگرافرز،ریڈیالوجسٹ اور ٹیکنالوجسٹ ـــ ـ‘اس پیشے
سے وابستہ تمام افراد کی خوب حوصلہ افزائی کرتی ہے کہ وہ اس عظیم دریافت کی
بھرپورخوشی منائیں ۔اور صحت کی جدید دیکھ بال کے سلسلے میں ان افراد کی
اہمیت بارے عوام کو ایک پیغام دیتی ہیں۔ ریڈیالوجی کو خصوصاً آج کے دور میں
بہت سی بیماریوں کی تشخیص کے لئے ایک بڑا اہم اور بہترین زریعہ مانا جاتا
ہے۔اس شعبے میں مزید تحقیق کا عمل جاری ہے اور انسان اپنی ضرورت کے مطابق
طب کے سلسلے میں نئی سے نئی ایجادات کر رہاہے۔جیسا کہ C.T Scan یہ بھی
ریڈیالوجیکل تحقیق ہے۔یہ ایکسرے سے بھی ذیادہ حساس اور تشخیصی عمل ہے اور
یہ مختلف اعضاء کے امراض اور ٹیومر وغیرہ کی درستگی کے ساتھ تشخیص کر سکتا
ہے۔ اب جہاں ایک چیز انسانی صحت کے لئے فائدہ مند ثابت ہوتی ہے وہاں وہ بعض
اوقات نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔بیماری کی تشخیص کرنے والے تمام آلات میں سے
ایکسرے کو ایک خطرناک ذریعہ بھی جانا جاتا ہے۔ کیونکہ ہائی فریکوئنسی والی
یہ شعاعیں تشخیص یا علاج کے دوران متاثرہ حصے کے ارد گرد کے صحت مند خلیوں
کو بھی اکثر تباہ کر دیتی ہیں۔اور جسم کے کسی دوسرے حصے پر بھی ہلکا پھلکا
اثر انداز ہو سکتی ہے۔جیسا کہ ایک حاملہ عورت کا ایکسرے کروانا ذیادہ
خطرناک ہے کیونکہ یہ پیدا ہونے والے بچے کی صحت کو متاثر کر سکتا ہے۔ایکسرے
روم میں آپریٹر کے علاوہ صرف ایک مریض کو ہی اند ر رہنے کی اجازت ہوتی ہے ۔تا
کہ مشین سے نکلنے والی تیز شعاعیں کسی دوسرے کی صحت کو نقصان نہ
پہنچائیں۔لیکن ہمارے یہاں تو منع کرنے کے باوجود بھی ایک دو حضرات اند ر
گھسنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔اور کھڑے ہو کر مریض کا ایکسرے ہوتا دیکھ کر
ہی مزے لوٹ رہے ہوتے ہیں۔کیونکہ شائدوہ اس بات سے بالکل بے خبر ہوتے ہیں کہ
یہ شعاعیں انہیں نقصان دہ بھی ہوتی ہیں۔لہذا جہاں تک ممکن ہوسکے ایکسرے صرف
ایمرجنسی کی صورت میں ہی کروائیں جائیں ورنہ شوقیہ طور پر ایکسرے کروانے سے
گریز کیا جائے ۔اب پاکستان میں ایکسرے مشینوں کے حال سے تو سبھی بخوبی واقف
ہیں ۔پاکستان کے خصوصاً سرکاری ہسپتالوں میں ایک تو ایکسرے مشینوں کی کمی
ہے اور جو مشینیں پہلے سے نصب ہیں وہ پرانے ماڈل کی ہیں او ر پھر وہ بھی
آئے روز ہی خراب رہتی ہیں ۔ جن سے بیچارے مریضوں کو اپنی تکلیف کے ساتھ
ساتھ ایسی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتاہے۔ پرانے ماڈل کی ایکسرے مشینوں
کا نقصان یہ بھی ہے کہ ایک تو وہ بجلی بہت ذیادہ کھینچتی ہیں اور دوسرا کہ
وہ اب کی نئی مشینوں کی نسبت 20سے 30 فیصد زیادہ فریکوئنسی کی شعاعوں سے
معائنہ کرتی ہیں۔جو کہ مریض کی صحت کے لئے خطرناک بھی ہو سکتی ہیں۔ ڈاکٹر
خود بھی ان کے رزلٹ سے مطمئن نہیں ہوتے اور سرکاری ہسپتال میں بیٹھ کر
مریضوں کو پرائیویٹ ایکسرے کروانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ او ر پھر وہ ایکسرے
مشینیں جو بالکل ناکارہ ہو چکی ہیں انہیں بھی نئی مشین کی ذیادہ قیمت اور
فنڈز میں کمی کے باعث جلدی تبدیل نہیں کیا جاتا۔ کیونکہ جدید ٹیکنالوجی
والی ایک نئی اور معیاری ایکسرے مشین کی مالیت 80 لاکھ سے بھی ذیادہ
ہے۔یکدم سے اتنی بڑی رقم کا بندونست کرنا تو واقعی ایک بڑا چیلنج ہے ۔اور
یہاں بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں پہلے سے ہی پلاننگ والی کوئی صورت حال
نہیں۔ آخر ایسا کیوں نہیں کیا جاتا کہ پہلے سے ہی منصوبہ بندی کی جائے جیسا
کہ اگر ایک ایکسرے مشین کی ذندگی ذیادہ سے ذیادہ دس سال ہے توکیوں نہ اس
مشین کی مالیت کا 10% ہر سال بچا لیا جائے تو شائد دس سال بعد ایک نئی مشین
کافی آسانی سے خریدی جا سکتی ہے۔لیکن یہاں تو بس دھکے سے کام چلایا جاتا ہے
جیسا کہ کئی ہسپتالوں میںOPD کے مریضوں کو ایمرجنسی کا حوالہ دے دیا جاتا
ہے کہ وہ ایمرجنسی کی ایکسرے مشین سے اپنا چیک اپ کروائیں۔جو کہ مریضوں کو
خوار کرنے کے مترادف ہے۔اور اس کے ساتھ مشین کے ساتھ بھی ذیادتی ہے کیونکہ
ایک مشین پر جب دوگنا بوجھ ڈال دیا جائیگا تو وہ خراب کیوں نہ ہوگی یا اس
کی کارکردگی جلد ی متاثر کیوں نہ ہوگی۔ ہماری حکومت وقت سے گذارش ہے کہ جن
ہسپتالوں میں ان ایکسرے مشینوں کی اشد ضرورت ہے وہاں ہنگامی بنیادوں پر ان
کا انتظام کیا جائے تاکہ مریضوں کا باعزت طریقے سے علاج ہو سکے اوروہ ذلیل
و خوار ہونے سے بچ سکیں۔ |