پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں سرکار کو پہلے سو یونٹ بجلی
پیدا کرنے پر چار روپے خرچ آتے ہیں، اور دوسرے دو سو یونٹ پیدا کرنے پر سات
روپے خرچ آتے ہیں اور تیسرے دو سو یونٹ پیدا کرنے پر بارہ روپے خرچ آتے ہیں۔
بیس کروڑ لوگ اپنے حکمرانوں سے پوچھتے ہیں کہ دنیا کے کس قانون کے تحت بجلی
کے پہلے سو یونٹ ۵ روپے کے ہیں،دوسرے دو سو یونٹ۸ روپے کے ہیں، تیسرے دو سو
یونٹ بارہ روپے کے ہین اور چوتھے دو سو یونٹ سولہ روپے کے اور پانچویں دو
سو یونٹ اٹھارہس روپے کے ہیں اور آئین کا کون سا آرٹیکل آپ کو اس طرہ لوگوں
کا استحسال کرنے کا حق دیتا ہے۔
مزید برآں اب اس ٹیرف کو کس قانون کے تحت یکمشت بارہ روپے اور سولہ روپے تک
لایا گیا ہے اور وہ کون سا قانون ہے جو آپ کو پہلے دو نرخ نامے،پانچ روپے
ستتر پیسے اور نو روپے گیارہ پیسے ختم کر کے ان کی جگہ بارہ روپے فی یونٹ
نرخ کا تعین کرنے کا اختیار دیتا ہے؟
نیز پارلیمنٹ میں بیٹھے معزز ارکان جو عوام کے غم میں نڈہال ہو گیے تھے اور
قانون ،جمہوریت اور ایوان کی بالا دستی کے راگ الاپ رہے تھے اس قدر ظالمانہ
کاروائی پر کیسے خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہے بلکہ اس ظلم میں برابر کے
شریک بھی ہوئے اور کسی نے اس کے کلاف ایک لفظ تک نہ بولا۔
یہ ہے وہ بے مثال قیادت ہے جس کو اس ملک کے ہیس کروڑ لوگوں نے اپنی قسمت کو
بدلنے اور عرصہ ۶۸ سال سے زلتوں اور رسوائیون سے نجات حاصل کرنے کے لئے عزت
دی تھی۔ان لوگوں کا خیال تھا کہ وہ جس قیادت کا انتخاب کر رہے ہیں وہ ان کے
اپنے ہی لوگ ہیں اور ان کے مسائل سے بخوبی آگاہ بھی ہیں۔جیسا کہ ان قائیدین
نے اپنی اپنی مہمات کے دوران لوگوں کے مسائل کا بار بار ذکر بھی کی اور اور
ان مسائل کو فورا حل لرنے کے وعدے بھی کیے،مثلا بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا چھ
ماہ میں خاتمہ،کنزیمر پرائس کا قابل قبول حد تک لانا اور صحت کی سھولتوں کو
یقینی بنانا،ملازمت کے مواقع پیدا کرنا اور سب سے بڑہ کر کرپشن کے خلاف
جہاد کو اولیں بنیادوں پر ترجیح دینا۔
LET US HAVE A LOOK AT TRICKY MANEUVERING OF THE GOVERNMENT.
1- TOTAL UNIT CONSUMED-1705,ACTUAL COST RS.-7740- INCREASED COST RS.
14858- PERCENTAGE OF INCREASED COST-191.94.
2- TOTAL UNITS CONSUMED-4575- ACTUAL COST RS. -26489.5-I NCREASED COST
RS.-49477- PERCENTAGE OF INCREASED COST-186.77.
3- TOTAL UNITS CONSUMED-4928-ACTUAL COST RS.-28533.12- INCREASED COSTRS.
68655- PERCENTAGE OF INCREASED COST-240.61.
SED 4- TOTAL UNITS CONSUMED-14450- SACTUAL COST RS. 81534.5- INCREA
COST RS.185795- PERCENTAGE INCREASED-227.87 .
THE QUESTION STILL REMAIN TO BE ANSWERED BY THE POWER PRODUCERS THAT HOW
MUCH IT COST WHILE PRODUCING THE VERY FIRST 100 UNITS, SOLD AT THE RATE
OF RS.5.79, AND THEN THE OTHER 200 UNITS AT THE RATE OF RS.5,79 , SOLD
AT THE RATE OF RS.8.11 AND THIRD 200 UNITS AT THE RATE OF RS.8.11 , SOLD
AT THE RATE OF RS.12.33, AND THEN THE FOURTH 200 UNITS AT THE RATE OF
,RS.12.33, SOLD AT THE RATE OF RS.16 AND THEN THE 5TH 200 UNITS AT THE
RATE OF RS.16, SOLD AT THE RATE OF RS.18.
THE HONOURABLE SITTING DELEGATES IN THE PARLIAMENT MUST TALK ABOUT THIS
JOKING WITH THE NATION FOR WHOM THEY TALK DAY AND NIGH WITH LAUD
ACCLAMATIONS.
بجلی کی قیمتوں میں اظافے کی تشسریح نہیں کی گئی کہ پانی سے پیدا کی جانے
والی بجلی کی پیداوارری قیمت کیا ہے،ٹیکسز کی تفصیلات کیا ہیں،شرح منافہ
کیا ہے،مارکیٹنگ پرائیسز کیا ہیں،اس کی پعرسینٹیج کیا ہے،اس کا تعین کس نے
کیا ہے، نیز قیمتوں کے تعین میں کتنے فیصد لوگون کو آن ریکارڈ مدعو کیا گیا
تھا،منٹس آف میٹنگز مین ان لوگوں کی رائے فیصد کیا تھی اور اضافہ کتنے فیصد
کی رائے پر کیا گیا۔اور پانی سے کل طلب کی کتنے فیصد بجلی پیدا کی جارہی ہے
یعنی پیداواری قیمت اور قیمت فروخت کیا ہیں اور منافہ کی حدود کیا ہیں، ان
سب امور کو عوام کے سامنے رکھنا ضروری ہے۔
اسی طرح پٹرول،ڈیزل اور دوسرے زرائع سے پیدا کی جانے والی بجلی کے بارے میں
بھی تمام تفصیلات سے عوام کو آگاہ کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔
بصورت دیگر نیپرا کی جانب سے کیا جانے والا یہ اقدام آئین اور بنیادی حقوق
سے یکسر متصادم ہے اور اسکی کوئی آئینی و قانونی حیثیت نہیں۔اور لوگوں سے
اسطرح دو سو،دو سو چالیس،اور دو سو اسی فیصد سے زائید رقوم لی جارہی ہیں۔
اور حالیہ بجٹ کے بعد اس میں اور اضافہ بھی کر دیا گیا ہے جو عوام کے
بنیادی حقوق سے متصادم اور آئین کی صریحا خلاف ورزی ہے جس پر اعلی عدالتوں
کو فورا نوٹس لینا چاہیے ۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اعلی عدالتیں جو زرا سی بات پر سوو موٹو لینے سے نہ
تھکتی تھیں اب بلکل خاموش ہیں اور سر عام اپنے عوام کا تماسہ دیکھ رہی ہیں۔
ماسوائے اس فکر کہ کہ ان کے آنے جانے کے راستے کیوں کم ہو گئے ہیں۔
لوگ سوال کرتے ہیں کہ پارلیمان میں بییٹھے ہوئے لوگ کن کی ترجمانی کر رہے
ہیں۔اور ان کو اس کام کے لئے منتخب کیا جاتا ہے یا کہ عوام کے اجتعمائی
مفادات کے تحفظ کے لئے۔
ایوان میں بیٹھ کر بلند بانگ دعوے کرنے سے آپ کن لوگوں کے مفادات کی جنگ لڑ
رہے ہیں اور وہ کون سا تظام ہے جسے آپ بچانے کے دعوے کر رہے ہیں اور اس
نظام کے فوائید کن لوگوں کو حاصل ہوں گے،بجلی بنانے والوں کو یا عوالمناس
کو جو پچھلے ساٹھ سالون سے اپنے تمام قانونی و آئینی حقوق سے محروم ہیں۔اور
جنہیں روزانہ کنزیومر اشیا پر اربوں روپے زائید ادا کرنے پڑتے ہیں۔
جبکہ آپ اچھی طرہ جانتے ہیں کہ ان حالات میں آپ خود آئین و قانون کی
حکمرانی کی نفی کر رہے ہیں۔لوگوں سے روزانہ کنزیومر اشیا پر اربوں روپے
اضافی وصول کئے جا رہے ہیں۔ اس کے باوجود دعوے کئے جا رہے ہیں کہ ہم ملک
مین قانون کی بالا دستی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
بیس کروڑ لوگ سوال کرتے ہیں کہ آپ کی جنگ کن طبقات کے لئے ہے،ہمیں تو ساٹھ
سالوں میں ذلتوں اور رسوائیوں کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔جبکہ آپ لوگوں کے پاس
سو فیصد سے زائید حقوق ہیں۔
اعلٰی عدالتوں میں بیٹھے منصفوں کا کیا کوئی کام نہیں کہ وہ ان معاملات پر
توجہ دیں جبکہ وہ اس امر کے پابند ہین کہ وہ مسائل میں جکڑے محروم لوگوں کو
ان کا آئینی و قانونی حق دلانے میں کردار ادا کریں۔
اس کے علاوہ معزز عدالتوں سے یہ بھی درخواست ہے کہ پاور جنریشن ایکٹ مجریہ
۱۹۹۷ جس میں حکومت یا حکومتی اداروں کو پاور ٹیرف یعنی نرح نامہ کی تشکیل
اور نفوز کا جو اختیار دیا گیا ہے اس میں عوام لناس کی شراکت اور ان کی
رائے کا آئینی و قانونی حق کیا ہے کی بھی تشریح کی جائے اور اس میں عوام کی
جانب سے دی جانے والی رائے یعنی کہ موجودہ نرح نامہ برائے کھریلو مسرف میں
اضافہ نہ کیا جائے، یا کہ اتنے فیصد کیا جائے، یا کہ اسے جوں کا تون ہی
برقرار رکھا جائے کی کیا حیشیت ہے۔
اور اسکا واضح طریقہ کار کیا ہے،یعنی کتنے فیصد عوام کی رائے سے نرخ نامہ
کو جوں کا توں رکھا جا سکتا ہے یا اس میں کوئی کمی بیشی کی جا سکتی ہے۔ اور
اس طریقہ کار کو عوام کے بنیادی حقوق سے زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ کرنے کے
لئے اسے کیا سالانہ بجٹ سے مشروط کیا جا سکتا ہے اور کیا اس بجٹ میں عوام
الناس کو سرکار کی جانب سے کوئی اضافی رقوم دی جانے کی توقع ہے کہ عوام
کنزیمر اشیئا پر مزید اربوں روپے کا بوجھ برداشت کر سکیں گے۔
بصورت دیگر حکومت اس امر کی پابند ہو گی کہ کنزیومر اشیا پر مزید کوئی
اضافہ نہ کیا جائے گا۔ نیز حکومت یا کسی بھی حکومتی ادارے کو یہ حق حاسل نہ
ہو گا کہ وہ بغیر عوام الناس کی اکثریتی تحریری منشا کے یکظرفہ طور پر
نرحنامہ میں اضافہ کر دے اور اسے فوری عور پر نافذ کرنے کا عندیہ بھی دے
دے،جیسا کہ یہ امر کسی بھی صورت عوام کے بنیادی حقوق سے متصادم ہو۔
اعلٰی عدالتوں کی جانب سے ان امور پر خاموشی یا عدم دلچسپی عوام الناس کو
یقینا تباہی کی جانب لے جا رہی ہے اور عوام یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ان
کو عدالتوں سے بھی ان کے بنیادی حقوق کا حصول نا ممکن دکھائی دیتا ہے۔
اس سے قبل کہ سب کچھ چھن جائے اور لوگ اپنے فیصلے خود کرنے کا اعلان کر
دیں۔یہ عدالتوں کی اولیں ذمہ داری ہے کہ وہ ان حالات کا فوری جائزہ لیں اور
اپنے قانونی و آئینی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں کی مدد کے لئے
اقدامات کرین۔اس ملک کی سلامتی صرف اور صرف لوگوں کو ان کے آئینی حقوق دلا
کر ہی یقینی بنائی جا سکتی ہے۔ |