پاک چین معاہدے....توقعات اور خدشات
(عابد محمود عزام, karachi)
وزیر اعظم پاکستان گزشتہ
دنوں ایشیا بحرالکاہل اقتصادی تعاون تنظیم (ایپک) کے تین روزہ سربراہی
اجلاس میں شرکت کے لیے بیجنگ گئے، جہاں انہوں نے اپنے چینی ہم منصب لی کی
چیانگ کے ساتھ پاکستان میں توانائی، انفرا اسٹرکچر اور دیگر شعبوں میں
اقتصادی اور فنی تعاون کے 21 معاہدوں اور مفاہمت کی یاد داشتوں پر دستخط
کیے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان اور چین کے درمیان ہونے والے ان معاہدوں سے
ملک میں مجموعی طور پر 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی۔ چین کی مدد سے جو
اہم پاور پراجیکٹس مکمل کیے جائیں گے، ان میں 1320 میگاواٹ کا سینو ہائیڈرو
ریسورس پاور پراجیکٹ، 2660 میگاواٹ کا ساہیوال کول فائر پراجیکٹ، 2330
میگاواٹ کا اینگرو تھر کول فائر پراجیکٹ نیزمظفر گڑھ، رحیم یار خان اور ایس
ایس آر ایل کے 1320 میگاواٹ کے کول پاور پراجیکٹ، تھرمائین ماﺅتھ اوریکل
پراجیکٹ، ہزار میگاواٹ کا ایس ایس آر ایل تھر کول بلاک6، 2460 میگاواٹ کا
گڈانی پاور پارک پراجیکٹ، 300 میگاواٹ کا گوادر کول، 100 میگاواٹ کا قائد
اعظم سولر پارک، 50 میگاواٹ کا داﺅد ونڈ فارم، 100 میگاواٹ کا یو ای پی ونڈ
فارم، 50 میگاواٹ کا سچل ونڈ فارم، 50 میگاواٹ کا سونیک ونڈ فارم، 870
میگاواٹ کا سوکی کناری ہائیڈروپاور اسٹیشن اور 720 میگاواٹ کا کروٹ ہائیڈرو
پاور اسٹیشن وغیرہ شامل ہیں۔ بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے جو منصوبے چین کی
مدد سے مکمل کیے جانے ہیں، ان میںرائے کوٹ سے اسلام آباد تک 440 کلومیٹر
طویل شاہراہ قراقرم دوم، کراچی لاہور موٹر وے، حویلیاں ڈرائی پورٹ، کراس
بارڈر آپٹیکل فائبر کیبل سمیت کئی پراجیکٹ شامل ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے
کہا ہے کہ پاکستان ون چائنا پالیسی کی حمایت کرتا ہے اور چین کے ساتھ مضبوط
اقتصادی اور تجارتی شراکت داری چاہتا ہے۔ اقتصادی راہداری منصوبہ پاکستان
اور چین کے مضبوط تعلقات کا عکاس ہے۔ اس دورے سے دوطرفہ تعلقات مزید مضبوط
ہوں گے اور اقتصادی راہداری منصوبہ کی تکمیل کی راہ ہموار ہو گی۔ چین کے
دورے سے توانائی کا مسئلہ حل کرنے میں مدد ملے گی اور اقتصادی راہداری
منصوبہ خطہ کی تقدیر بدل دے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ دھرنوں کی وجہ سے
جو کام رہ گیا تھا، چین کے ساتھ ہونے والے معاہدوں سے اس کو روح ملے گی۔
دورہ چین ملک میں توانائی بحران سے نمٹنے کے لیے بہت موثر ہے۔ دورے کا مقصد
ملک میں بجلی کے مسئلے کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنا ہے۔ جبکہ وزیر اعلیٰ پنجاب
میاں شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے
منصوبے پاک چین معاہدوں میں سر فہرست ہیں۔ بدقسمتی سے ماضی میں کوئلے سے
توانائی کے حصول پر توجہ نہیں دی گئی، لیکن موجودہ حکومت عوام کو سستے
ذرائع سے توانائی فراہم کرنے کے حوالے سے جامع حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔
چین کے تعاون سے لگنے والے کوئلے کے پلانٹس سپر کریٹیکل ہوں گے اور یہ سپر
کریٹیکل جدید کول پاور پلانٹس ماحول دوست ہوں گے۔ کوئلے پلانٹس چلنے سے
سستی بجلی کا حصول بھی ممکن ہوگا، عوام کو ریلیف ملے گا۔ چین کے تعاون سے
مقامی کوئلے کی جدید مائننگ کی جائے گی اور حاصل ہونے والے کوئلے کو کول
پاور پلانٹس میں استعمال کیا جائے گا۔
پاکستان اور چین کے مابین ہونے والے معاہدوں کو میڈیا میں کافی پذیرائی ملی
ہے اور کہا جا رہا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کی تکمیل کے
بعد قومی معیشت پر یقینی طور پر اس کے دوررس اثرات مرتب ہوں گے، جب کہ
مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کار پاک چین تعاون سے فواید حاصل کر سکیں گے۔
واضح رہے کہ پاکستان کو توانائی اور بالخصوص بجلی کی کمی کا سامنا ہے۔
متعلقہ حکام اس مسئلے کا حل ملک میں کوئلے کی مدد سے چلنے والے پاور پلانٹس
کے قیام میں دیکھتے ہیں، تاہم ماضی میں کئی ممالک اس شعبے میں سرمایہ کاری
سے معذرت کر چکے ہیں۔ البتہ بیجنگ میں 8 نومبر کے روز جن معاہدوں کو حتمی
شکل دی گئی ہے، ان کے ذریعے چینی سرکاری کمپنیوں کی جانب سے پاکستان میں کم
از کم 4 نئے پاور پلانٹس کے قیام کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ وزیر اعظم کے دفتر
سے جاری کردہ بیان کے مطابق کوئلے کی کان کنی اور ترسیل پر بھی معاہدوں پر
دستخط کیے گئے ہیں۔ پاکستانی وزارت برائے ترقی و منصوبہ بندی کے ترجمان کے
مطابق پاکستان و چین کے مابین دستخط کیے گئے معاہدوں میں پوری کی پوری
سرمایہ کاری چین کی طرف سے کی جا رہی ہے۔ یہ سرمایہ کاری قرض یا امداد
نہیں، بلکہ محض سرمایہ کاری ہی ہے۔ مبصرین کے مطابق ملک میں بجلی اور
توانائی کا بحران ایک عرصے سے شدت اختیار کیے ہوئے ہے، جس کی وجہ سے ملکی
صنعت اور ملکی معیشت کو بے بہا نقصانات ہورہے ہیں، توانائی بحران کی وجہ سے
اب تک ملک میں کئی صنعتیں ٹھپ ہوچکی ہیں۔ لہٰذا ان حالات میں توانائی کے
بحران پر فوری طور پر قابو پانے کی ضرورت ہے اور اس بحران پر قابو پانے کے
لیے مختصرالمیعاد منصوبوں کی ضرورت ہے۔ نواز حکومت کی مدت میں ساڑھے تین
برس ہی رہ گئے ہیں، اس کے بعد حکومت کے تبدیل ہونے سے یہاں تمام منصوبے بھی
ادھورے رہ جاتے ہیں۔ لہٰذا ہمارا ملک جن مسائل کا شکار ہے، ایسے میں ضروری
یہ ہے کہ فوری نتیجہ خیز ہونے والے منصوبے شروع کیے جائیں اور انھی کے لیے
تگ و دو کی جائے۔ چین کے ساتھ معاہدے بھی ہونے چاہئیں، لیکن ایسے معاہدے
کیے جائیں جو ہمیں بحرانوں سے نکالنے میں فوری ممد ومعاون ثابت ہوں اور اس
کے فوری نتائج بھی برآمد ہوسکیں۔ یہاں تو ماہرین چین کے ساتھ کیے جانے والے
منصوبوں کے مقررہ مدت، یعنی ساڑھے تین سے چار سال میں مکمل ہونے کے بارے
میں زیادہ پر امید نہیں ہیں، بلکہ ان کے نزدیک یہ منصوبے ہی بے فائدہ ہیں۔
بجلی کے منصوبوں کی تعمیر کا تجربہ رکھنے والے معروف سائنسدان اور بجلی کے
منصوبوں کے ماہر ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے پاکستان اور چین کے درمیان توانائی
کے منصوبوں کے معاہدوں کو ”بے فائدہ“ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ضرورت کی
بجلی پیدا کرنے کے لیے بجلی گھر تو پاکستان میں پہلے بھی موجود ہیں، اصل
مسئلہ ایندھن کا ہے، جو نہ پہلے سے نصب بجلی گھروں کے لیے دستیاب ہے اور نہ
نئے بجلی گھروں کے لیے ہو گا۔ تیل اورگیس موجود نہیں، جبکہ کوئلہ آئندہ 8
سے 10 سالوں میں دستیاب ہو سکے گا۔ مبصرین کے مطابق ڈاکٹر ثمر مند مبارک کی
بات کو کسی طور بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، ڈاکٹر صاحب کا تجزیہ غلط
نہیں ہوسکتا، کیونکہ وہ اس حوالے سے ماہر سائنسدان ہیں۔ پاکستان اور چین کے
مابین ہونے والے معاہدوں کا فائدہ اور تعلقات میں بہتری کا آنا اپنی جگہ
درست ہے، لیکن یہ بات بھی سامنے رکھی جائے کہ ملک کے درپیش بحران کاحل
اگرنئے بجلی گھروں کی تعمیر میں مضمر نہیں ہے، توپھر حکومت ایک کارِ عبث پر
کیوںوقت لگانا چاہتی ہے؟ ڈاکٹر ثمرمبارک مند کے مطابق جب اصل مسئلہ بجلی
گھروں کو فراہم ہونے والے ایندھن کا ہے، توپھر نئے یونٹوں کی تعمیر کا مقصد
تو صرف اپنا دور حکومت گزارنا ہی رہ گیا ہے۔ ڈاکٹر ثمر مند مبارک کے مطابق
پہلے سے موجود بجلی گھر پاکستان کی ضرورت پوری کرنے کے لیے بہت ہیں،
اگرانھیں ایندھن فراہم کیاجاتارہے۔ لہٰذا ان حالات میں حکومت کو چاہیے صرف
دوسرے ملکوں سے معاہدے کرنے پر ہی زور نہ دے، بلکہ اپنے ملک میں موجود
وسائل کو بروئے کار لاکر ان سے بحران کا حل نکالا جائے۔ ہمارے حکمران ہر
کام کرنے کے لیے دوسرے ممالک سے قرضوں اور ان کے تعاون کے محتاج ہوتے ہیں،
لیکن خود پر انحصار نہیں کرتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے مسائل حل کرنے
میں دوسرے ممالک کی محتاجی سے بہتر ہے کہ اپنے وسائل کو کام میں لا کر
مستقل طور پر مسائل پر قابو پایا جائے۔ خداتعالیٰ نے پاکستان کو بے شمار
قدرتی وسائل سے مالامال کیا ہے، اگر ان کو صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے
تو ملک کو درپیش تمام بحرانوں سے نمٹا جاسکتا ہے، اس کے لیے شرط یہ ہے کہ
سب سے پہلے کرپشن پر قابو پانا ہوگا۔اس حقیقت سے انکار کی گنجائش نہیں کہ
ملک میں بہت سے مسائل کے حل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کرپشن ہے، کرپشن پر
قابو پاکر بہت سے مسائل سے چھٹکارہ حاصل کیا جاسکتا ہے اور اگر دیکھا جائے
تو توانائی کے بحران کے خاتمے کی راہ میں بھی کرپشن ہی حائل ہے۔ مبصرین کے
مطابق چین کے ساتھ کیے جانے والے معاہدوں کے علاوہ بھی ملک میں بے شمار
مسائل ہیں جن کو حل کرنا انتہائی ضروری ہے۔ |
|