عمران خان کا نیا یو ٹرن .... پسپائی یا نیک شگون؟
(عابد محمود عزام, karachi)
ماہ اگست سے وزیر اعظم میاں
نوازشریف سے استعفیٰ لینے کے لیے اسلام آباد میں دھرنا دیے بیٹھے پاکستان
تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے یوٹرن لیتے ہوئے وزیراعظم کے استعفے
کے مطالبے سے دستبردار ہوکر پوری پاکستانی قوم کو حیرانگی میں مبتلا کردیا
ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین نے مئی 2013 کے عام انتخابات میں حکمران جماعت
مسلم لیگ ن پر دھاندلی کا الزام عاید کیا ہوا ہے، جب کہ 14 اگست سے اس
دھاندلی کے خلاف حکومت مخالف تحریک بھی شروع کر رکھی ہے اور 14 اگست سے
جاری حکومت مخالف تحریک کے دوران وزیراعظم نواز شریف کا استعفیٰ پی ٹی آئی
کا بنیادی مطالبہ ہے۔ پی ٹی آئی سربراہ عمران خان کئی بار یہ اعلانات کر
چکے ہیں کہ وہ وزیراعظم نوازشریف سے استعفیٰ لیے بغیر کسی صورت بھی ٹلنے
والے نہیں ہیں اور اپنے مطالبے سے ہرگز دستبردار نہیں ہوسکتے، لیکن پاکستان
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اچانک وزیراعظم کے استعفے کے مطالبے سے
دستبردار ہوگئے ہیں۔ رحیم یار خان میں اپنے جلسے سے خطاب کے دوران عمران
خان نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ” وہ گزشتہ انتخابات میں دھاندلی کی
تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کی نگرانی میں ایک ایسا غیر جانبدار کمیشن تشکیل
دے، جس میں ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی کے نمائندے بھی شامل ہوں۔ یہ
کمیشن 30 نومبر سے قبل بنا دیا جائے اور وہ چار سے چھ ہفتوں میں اپنی رپورٹ
پیش کرے۔ انھوں نے وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
کہ جب تک کمیشن اپنی تحقیقات مکمل نہیں کر لیتا، تب تک نہ نواز شریف استعفیٰ
دیں اور نہ ہی وہ دھرنا ختم کریں گے۔ اگر کمیشن کی رپورٹ میں یہ ثابت ہو
گیا کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے تو انھیں مستعفی ہو کر نئے اِنتخابات
کروانا ہوں گے۔ عمران خان نے اپنی تقریر میں عدلیہ کی غیر جانبداری پر بھی
سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ عدلیہ آزاد ہوگئی، لیکن غیر جانبدار نہیں ہو سکی۔
دوبارہ الیکشن ہو گا تو نئے الیکشن کمیشن کی موجودگی میں ہونا چاہیے اور
چاروں صوبائی الیکشن کمشنروں کو استعفیٰ دینا چاہیے۔“
مبصرین کے مطابق عمران خان نے ”سیاسی بحران کے حل“ کے لیے ایک بار پھر
”یوٹرن“ لیا ہے، تاہم وہ ایک طرف وزیراعظم محمد نوازشریف کے استعفے کے
مطالبات سے دستبردار ہوگئے ہیں، جبکہ دوسری طرف انہوں نے عدلیہ پر عدم
اعتماد کا اظہار کرکے سپریم کورٹ کے تحت ایم آئی اور آئی ایس آئی پر مشتمل
تحقیقاتی کمشن قائم کرنے کا مطالبہ کرکے سیاسی حلقوں کو حیران کر دیا ہے۔
ان کے اس مطالبے کو حکومتی حلقوں کی جانب سے پذیرائی نہیں ملی، بلکہ حکومتی
حلقوں نے عمران خان کی تجویز کو غیر حقیقت پسندانہ قرار دیا ہے۔ ذرائع کے
مطابق حکومتی ذمہ داران نے عمران خان کے موقف میں آئے روز تبدیلی کو ان کی
پسپائی قرار دیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے قائد عمران
خان وزیر اعظم نواز شریف کے استعفے کے مطالبے سے تو پیچھے ہٹ گئے ہیں، تاہم
انہوں نے سپریم کورٹ کے جوڈیشل کمیشن میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کی
شمولیت کا مختلف مطالبہ کیا گوکہ وزیر اعظم کے لیے اسے تسلیم کرنا نا ممکن
نہیں۔ خان صاحب کے موقف میں کئی واشگاف تضادا ت تھے، جس سے معلوم ہوتا ہے
کہ وہ معاملے کا خوش اسلوبی سے حل نکالنا نہیں چاہتے اور صورتحال کو سنگین
بنانے میں خوش ہیں۔ وہ چاہتے ہیں عدالتی فیصلے ان کی مرضی کے ہوں، الیکشن
کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر بھی ان کی مرضی کا ہو، بصورت دیگر سب ان کے لیے
ناقابل قبول ہیں اور وہ اسے مسترد کرتے ہیں۔ موجودہ آئینی و قانونی طریقہ
کار کے مطابق کوئی بھی خفیہ ایجنسی کو باضابطہ طور پر کسی جوڈیشل کمیشن کا
حصہ بننے کی اجازت نہیں ہے۔ اس سے پہلے عمران خان خفیہ ایجنسی پر دھاندلی
میں ملوث ہونے کا الزام لگا چکے ہیں، ایک جانب تو ان کا یہ الزام اور دوسری
جانب اب وہ دونوں اہم خفیہ ایجنسیوں کو انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی
تحقیقات میں شامل کیے جانے کا مطالبہ کررہے ہیں، یہ بہت ہی عجیب تضاد ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ عمران خان نے عدلیہ اور سپریم کورٹ کے ججز پر مشتمل
تحقیقاتی کمیشن پر یہ کہہ کر عدم اعتماد کیا کہ وہ صرف اسی صورت عدالتی
کمیشن پر اعتماد کریں گے، جب اس میں ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی کے
حکام شامل کیے جائیں گے۔
دوسری جانب نواز شریف کے استعفے کے حوالے سے عمران خان کے مطالبے میں نرمی
کو مثبت قرار دیا جارہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سابق وفاقی وزیر
قمر زمان کائرہ کا عمران خان کے خطاب پر رد عمل کااظہار کرتے ہوئے کہنا
تھاکہ میں عمران خان کی تجویز سے اتفاق کرتا ہوں، عمران خان سیاسی فیصلے
کرنے لگے ہیں، عمران خان نے لچک کا مظاہرہ کیا ہے، حکومت بھی اب ہوش کے
ناخن لے، عمران خان کی پیش کش پر حکومت کو پیش رفت کرنی چاہیے۔ اسی طرح
پیپلز پارٹی کے رہنماءسینیٹر سعید غنی نے بھی اس بات کو سراہا کہ عمران خان
وزیراعظم کے استعفے کے مطالبے سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ
عمران خان کا وزیراعظم کے استعفے کی ضد سے دستبردار ہوجانا ملکی سیاست کے
لیے نیک شگون معلوم ہوتا ہے، کیونکہ سیاست ضد اور انا کی بنیاد پر نہیں
ہونی چاہیے، اگر سیاست ضد اور ہٹ دھرمی کی بنیاد پر ہونے لگے تو اس سے ملکی
سیاست کو نقصان پہنچے گا، بہر حال عمران خان کا وزیراعظم کے استعفے سے
دستبردار ہونا ایک بہتر پیش رفت ہے۔ جبکہدوسری جانب سیاستدانوں کی جانب سے
عمران خان کے بیان پر کافی تنقید بھی کی جارہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے
چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی
تجاویز کو یوٹر ن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان کی جانب سے لیے جانے
والے یوٹرن کو سمجھنے کے لیے کسی بھی طرح کی اشاروں کی زبان سیکھنے کی
ضرورت نہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق دار کا کہنا تھا کہ عمران خان کی جانب
سے جوڈیشل کمیشن میں ایجنسیوں کی نمائندگی کا مطالبہ حیران کن ہے، آئین سے
ہٹ کرکوئی کمیشن تشکیل نہیں دیا جاسکتا۔ جوڈیشل کمیشن میں صرف ججز ہوتے
ہیں، اس میں ایجنسیوں کے لوگ نہیں ہوتے۔ حکومت ہر کام آئین اور قانون کے
دائرے میں رہ کر کرے گی، حکومت اگر چاہے بھی تو عمران خان کا مطالبہ نہیں
مان سکتی، حکومت کو کمیشن میں شامل ججوں کے نام بھی تجویز کرنے کا اختیار
نہیں ہوتا، کمیشن کے لیے ججوں کے نام بھی عدالت ہی دیتی ہے۔
مسلم لیگ (ن)کے رہنما مشاہداللہ خان نے کہاہے کہ میں عمران خان کو مشورہ
دینا چاہتا ہوں کہ وہ آئین کا مطالعہ کریں اور ہمیں یہ بتائیں کہ کس شق کے
تحت جوڈیشل کمیشن میں خفیہ ایجنسیوں کو شامل کیاجاسکتا ہے، انہوں نے جتنی
تجاویزدیں وہ ماورائے آئین ہیں اورآئین کے خلاف کوئی کام نہیں ہوگا۔ عمران
خان ایسے مطالبات کر رہے ہیں جس کا کوئی سر، پیر نہیں ہے۔ ایک طرف یہ کہتے
ہیں آئی ایس آئی نے پیسے دیے، دھاندلی کرائی، دوسری طرف کہہ رہے ہیں آئی
ایس آئی کو اس میں شامل کریں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ عمران خان کا وزیراعظم
کے استعفے سے دستبردار ہوجانا تو یقینا ایک اچھی سوچ ہے، لیکن آئی ایس آئی
اور ایم کو کمیشن میں شامل کرنے کی بات کرنا اچھی سوچ نہیں ہے۔ خان صاحب کے
اسی قسم کے اقدامات سے دن بدن ان کی مقبولیت میں کمی واقع ہورہی ہے، جس کی
تصدیق کرتے ہوئے برطانوی جریدے نے ایک تجزیاتی رپورٹ میں کہا ہے نواز شریف
کی کمزوری کے باوجود عمران خان اب عوام کے لیے متبادل نہیں رہے۔ عمران خان
کے اندر پارلیمانی نظام میں چلنے کے لیے درکار صلاحیت مفقود ہے۔ برطانوی
جریدے ”اکنامسٹ“ کے مطابق عمران خان نواز شریف کو اقتدار سے نکال کر نئے
انتخابات چاہتے ہیں یا فوج کی حمایت یافتہ ٹیکنو کریٹس کی حکومت یا وہ خود
وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں۔ نواز شریف کے ساتھ پارلیمنٹ ہے اور فوج بھی
جمہوریت کو معطل کرنے کے لیے تیارنظر نہیںآتی، جس سے عمران خان بپھرے نظر
آتے ہیں۔ جریدہ لکھتا ہے کہ ایسی صورت بھی نہیںکہ عمران کی وسیع پیمانے پر
مقبولیت ہے۔ پول بتاتے ہیں کہ انہیں 18فیصد ووٹرز کی حمایت حاصل ہے، جن میں
زیادہ تر نوجوان ہیں، تاہم قومی سطح پر ان کی اپیل زوال پذیر ہے۔ کئی سال
قبل جو نواز شریف کے حامی تھے، ان کے سامنے دوسرا انتخاب عمران خان تھا،
لیکن اب ایسی صورت نہیں رہی۔ عمران کرشماتی ہیں، لیکن سمجھوتوں کے لیے
انتہائی کم صلاحیت کے مالک ہیں، جو ایک پارلیمانی نظام میں اثر و رسوخ کے
لیے ضروری ہوتا ہے۔ مبصرین کے مطابق خان صاحب جس طرح وزیراعظم سے استعفے کے
مطالبے سے دستبردار ہوئے ہیں، اسی طرح ان کو اپنا دھرنا بھی ختم کردینا
چاہیے، بصورت دیگر ان کی مقبولیت میں مزید کمی ہوتی جائے گی۔ |
|