انقلاب اورآزادی، آخر ہو گا کیا؟

گزشتہ ایک ماہ سے زیادہ عرصہ ہو گیا کہ انقلاب اور آزادی کے متوالے اپنی پوری جرائت، ہمت اور جذبے کے ساتھ سرزمین اسلام آباد میں رونق ا فروز ہیں اور مطالبات کے منظور ہونے تک سرزمین ”غیر اسلام آباد“ کی طرف کوچ کرنے کیلئے تیار نہیں۔ ریڈ زون میں جدید و قدیم تہذیبوں کا حسین اور پرکیف امتزاج دیکھنے کو مل رہا ہے۔ دوسری طرف سیلاب کی خوفناک اور بے رحم موجوں نے کئی بستیاں اجاڑ دیں۔ سہاگ اجڑ گئے اور کئی افراد لقمہ اجل بن گئے۔ دعاہے کہ اللہ تعالیٰ زمینی و آسمانی حوادثات اور قدرتی آفات سے محفوظ رکھے۔ اور ارباب اقتدار و اختیار کو بھی توفیق دے کہ ایسی آفات سے بچاؤ کیلئے حفظ ماتقدم کے طور پر حفاظتی اقدامات کرنے میں کوتاہی اور غفلت نہ برتیں تاکہ کم سے کم نقصان ہو۔ اِن دگر گوں حالات میں دنیا بھر میں کہیں بھی مقیم، وطن عزیز کی مٹی کا ہرایک مقروض گو مگو کی کیفیت میں مبتلا ہے۔ ہر ایک کے زیر لب ایک ہی سوال کہ ان حالات میں اب منطقی نتیجہ کیا ہو گا؟ اس سوال کا بہتر جواب تو یہی ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کو منظور ہو گا وہی ہوگا۔ کیونکہ بظاہر کوئی بھی تجزیہ دیتے یا رائے قائم کرتے ہوئے اک نادیدہ سا خوف محسوس ہوتا ہے کہ ”کہیں ایسا نہ ہو جائے۔ کہیں ویسا نہ ہو جائے“ وجہ یہ ہے کہ ہر طرف سخت موقف ہے، الفاظ کے تیر برس رہے ہیں اوربظاہر برف کہیں سے بھی پگلتی نظر نہیں آتی۔

بہر کیف اگر سابقہ 67 سالوں کی تاریخ کا پارٹی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر، دیانتداری اور خدا خوفی کے ساتھ غیرجانبدارانہ تجزیہ کیا جائے اور قدرت اللہ شہاب کے”شہاب نامہ“ سے لے کر ظہیر احمد بابر کی ”پارلیمنٹ سے بازارحسن تک“ جیسی مبنی بر حقائق اورجرائت مندانہ تصنیفات کا پچاس فیصد بھی سچ مان لیا جائے تو یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیں کہ پاکستان کی اشرافیہ نے وہاں کے باسیوں کے حقوق کا کس طرح استحصال کیا۔ قومی دولت کو لوٹا اور ”مال مفت دل بے رحم“کی مصداق اُسے اپنے اللوں تللوں اور عیاشیوں پہ بے جا خرچ کیا۔ معاشی، عدالتی اور حکومتی نظام غریب کو روٹی، ان پڑھ کو تعلیم اور مظلوم کو انصاف دینے میں ناکام رہا۔

ہم برطانیہ میں مقیم ہیں۔ جب یہاں کے وسائل اور طرز زندگی کا موازنہ کرتے ہیں تو حیرت زدہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ یہ ملک اپنی آبادی کے تناسب سے اناج، پھل، پٹ سن، پٹرول و ڈیزل اور صنعتی خام مال کے لحاظ سے خود کفیل نہیں ہے بلکہ اکثر اشیاء در آمد کرنی پڑتی ہیں۔ موسمی حالات بھی زیادہ خوشگوار نہیں رہتے اکثر بادل، برف اور سردی رہتی ہے جس کی وجہ سے گرمیوں اور سخت دھوپ میں پکنے والے پھل اور اناج یہاں ناپید ہوتے ہیں۔لیکن اس کے باوجود لوگ خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن ایک نظر اگر ہم پاک سر زمین پر دوڑائیں تو اللہ تعالیٰ کی ان گنت، لاتعداد اور بے شمار نعمتوں سے مالا مال ہے۔ چاروں موسم پائے جاتے ہیں اور انسانی ضرورت کی تمام بنیادی اشیاء میں وہ خود کفیل ہے۔ لوگ محنتی اور زمینیں سونا اگلنے والی ہیں۔ کوئی پھل اور سبزی در آمد کرنے کی حاجت نہیں ہوتی۔ المختصر سورہ رحمان میں اللہ تعالیٰ نے اپنی جن جن نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے وہ ساری وہاں پر موجود ہیں۔ علاوہ ازیں بلوچستان میں سونے اور تانبے کی ملٹی ملین مالیت کی کانیں (Reko Diq gold and copper mines) موجود ہیں۔ لیکن اس کے باوجود جہالت، غربت و افلاس، کسمپرسی اور لاچارگی کی زندگی۔ آخر وجہ کیا ہے؟وجہ تو یہی ہے کہ وسائل تو ہیں لیکن ان کی تقسیم کو بروئے کار لانے کا نظام فرسودہ، بے رحم اور چند خاندانوں کے ہاتھوں میں مفلوج ہے۔ دولت کی غلط در غلط تقسیم ہے۔ کچھ کے محلات کے ٹائلٹ بھی ائر کنڈیشنڈ اور کچھ چھت سے بھی محروم ہیں۔ کچھ کے کتے اور گھوڑے بھی بادام اور مربے سے ناشتہ کرتے ہیں اور کچھ جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے نانِ شبینہ کے لیے ترس رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انتہائی محنتی اور ذہین نوجوان بامر مجبوری ملک چھوڑ کر بیرون ملک چلے آتے ہیں۔ پس کیا کیا جائے؟ یقینا حالات دگر گوں ہیں۔ ہم قائدین دھرنہ کی ان تمام باتوں سے متفق ہیں جو غریب پروری، حصول انصاف اور اصلاح نظام کے حوالے سے وہ کرتے ہیں۔ بلکہ یہ تو ہر مجبور، بیکس اور مظلوم کے دل کی آواز ہے جو ان کی زبان سے نکل رہی ہے۔

عمران خان یقینا ایک مخلص، محنتی اورملک کے وفادار شخص ہیں۔ شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی جیسی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ کرکٹ کے کپتان کے طور پر انہوں ملک کا نام روشن کیا۔ لیکن ایک بات انہیں بھی ذہن نشین کرنی چاہیے کہ گیارہ لوگوں پر کپتانی اور اٹھارہ کروڑ عوام پر حکومت میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ وہاں کپتان کا صرف حکم چلتا ہے اور یہاں جمہوری انداز میں معاملات کو چلانا ہوتا ہے۔ اگر پانچ سال تک کے پی کے میں کامیاب حکومت پر توجہ دے کر وہ حکومت کرنے کے گر سیکھ لیتے اور فلاحی ریاست کا نمونہ بھی پیش کر دیتے تو ان کیلئے پورے ملک کی باگ ڈور سنبھال کر تبدیلی لانا قدرے آسان ہوتا۔ جناب پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری صاحب کی دنیا بھر کے نوے ملکوں میں خدمات دین کی ایک دنیا معترف ہے۔آپ کی طلمساتی شخصیت نے ہزارہا نوجوانوں کے دلوں میں خوف خدا، عشق الہی اور حب رسول کی شمع فروزاں کی۔ آپکی تصانیف اور ادارہ جات امت مسلمہ کیلئے ایک بیش بہا اثاثہ ہیں۔ وطن عزیز کے موجودہ حالات کے تناظر میں آپ کے فرمودات اور تجزیہ جات سے ہم مکمل اتفاق کرتے ہیں۔ یقینا ملکی حالات تبدیلی کے متقاضی ہیں۔ لیکن جس طرح ان کی تقاریر میں خواہش کا اظہارہے کہ چند ہزار افراد کے ذریعہ انقلاب بپا کر کے تمام اختیارات اپنے قبضہ میں لیکر خود ہی اصلاحات کر کے دوسال بعد الیکشن کروائیں گے۔ یہ پاکستان کے موجودہ حالات میں ایک ناقابل عمل فارمولا ہے۔ اب شاید انہیں خود بھی سمجھ آچکی ہے جس کی وجہ سے لہجے میں کچھ تبدیلی آچکی ہے۔ ہم پر امید ہیں کہ ان دونوں ”اصحاب دھرنہ“ کی قربانیاں رائگاں نہیں جائیں گی اور پاکستان کی تاریخ میں ان کے دور رس نتائج مترتب ہوں گے۔ان حالات میں جہاں تک آزادی اور انقلاب کا تعلق ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آزادی 1947 میں ہم حاصل کرچکے اور فرانس یا ایران جیسے انقلاب کے نہ تو معروضی حالات ہیں اور نہ اس کی ضرورت۔ یہ کہنا کہ ہم پورا نظام بدلیں گے یہ بھی زیادہ منصفانہ بات نہیں۔ کیونکہ بہت ساری خامیوں کے باوجودہمارے پاس نظام موجود ہے۔ تمام ادارے کام کر رہے ہیں۔ عدالتیں آزاد ہیں اور بھرپور فیصلے دے رہی ہیں۔جہاں ایک طرف جغرافیائی سرحدوں کی محافظ دنیاکی بہتریں فوج ہمارے پاس موجود ہے تو دوسری طرف نظریاتی سرحدوں کا محافظ 1973 کا ایک انتہائی متوازی، اسلامی اور فلاحی آئین بھی موجود ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ سرجری کے ذریعے اس نظام کی اصلاح کر کے خامیوں کو دور کیا جائے۔ عوام میں ووٹ کی اہمیت و تقدس اور اپنے حقوق کی پہچان کیلئے شعور اور آگہی کی مہم چلائی جائے اور نظام انتخاب میں ایسی اصلاحات کی جائیں کہ اچھے لوگ منتخب ہو سکیں۔ یہ دھرنے بھی یقئنا لوگوں میں شعور تو پیدا کر رہے ہیں لیکن ”قائدین دھرنہ“ کبھی کبھی جذباتی فیصلے اور پھر یو ٹرن لے کے الجھنیں بھی پیدا کر دیتے ہیں۔ ا س وقت ہر طرف سے ضد بازی، انانیت اور جذباتی رویوں کی بجائے حکمت و دانش سے کام لیا جائے اور ملک و ملت کے بہتر مستقبل کیلئے اپنے مقاصد کے حصول پر توجہ دی جائے۔
Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 240861 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More