لندن میں ”کشمیر ملین مارچ“

مسئلہ کشمیر سابقہ 67 سالوں سے ہمارے لیے حد درجہ اہمیت کا حامل رہا ہے۔بھارت نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے اور ریاستی دہشت گردی کے ذریعے تحریک ِآزادی کشمیر کو دبانے کی ناکام کوشش میں مصروف ہے۔ حق خود ارادیت کشمیری عوام کا وہ حق ہے جسے بین الاقوامی برادری تسلیم کرتی ہے۔ جس وقت تک یہ حق اہالیان کشمیر کو مل نہیں جاتا اُس وقت تک تحریکِ آزادی کشمیر رک سکتی ہے اور نہ دنیاکی کوئی طاقت اسے روک سکتی ہے۔ اس مسئلہ کا قابل عمل حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں ہی ممکن ہے۔ اس وقت جنوبی ایشیاء میں امن کی خواہش رکھنے والی دنیا کو یہ احساس دلانا از حد ضروری ہے کہ مسئلہ کشمیر کو حل کیے بغیر اس خطہ میں امن کے خواب دیکھنا بے سود ہیں۔ 1947ء میں بھارت نے ہی اقوام متحدہ کو مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے خود درخواست دی تھی۔ جب اقوام متحدہ نے ایک قرارداد منظور کر کے کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دیا تو اُس وقت ہندوستان نے ریاست جموں و کشمیر میں رائے شماری پر حامی بھر لی لیکن بعد میں انکاری ہو گیا۔ اِس وقت آٹھ لاکھ کے قریب فوج مقبوضہ کشمیر میں موجود ہے۔ ظلم و ستم کا ہر حربہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ ابھی تک بھارت ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کو شہید کرچکاہے۔ ہزاروں مکانات مسمار کر دیے گئے۔ لاکھوں بچے یتیم اور ہزاروں عورتیں بیوہ ہو گئیں۔ عفت مآب خواتین کی عصمت دری روز کا معمول بن چکا ہے۔ بھارت کے ظلم و ستم نے و ادی کشمیر کو لہو رنگ اور انسانیت کا مدفن بنا دیا ہے۔ہم کشمیری عوام کی جرائت، حوصلے اور پامردی کو سلام پیش کرتے ہیں کہ یہ ساری صعوبتیں بھی انہیں اپنے مشن سے سر مو منحرف نہ کر سکیں بلکہ اس سے تحریک آزادی کشمیرمزیدمضبوط ہوئی۔ اب وقت ہے کہ اقوام عالم کے ضمیر کو جھنجھوڑا جائے۔ذرائع ابلاغ کے ذریعے انسانیت کو بیدار کیا جائے تاکہ عالمی برادری کشمیریوں کے شانہ نشانہ کھڑی ہو کر ان کے پیدائشی حق خود ارادیت کی مکمل حمائت کرے اور بھارت یہ حق دینے پر مجبور ہو۔

آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم بیرسٹر سلطان محمود نے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لئے 26 اکتوبر کو لندن میں کشمیر کی آزادی کے حوالے سے ”ملین مارچ“ کا اعلان کیا ہے۔ بیرسٹر صاحب کے سیاسی حریف بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ وہ اقتدار میں ہوں یا اقتدار سے باہر ہر حال میں آزادی کشمیر کیلئے ان کی جد و جہد میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اگر اس ملین مارچ کو وقت اور حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو بر وقت ہونے کے ساتھ ساتھ حالات کا تقاضا بھی ہے۔ بہ نظر غور دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ پہلو قابل توجہ ہیں اور حوصلہ افزاء بھی۔

1۔یہ ایک حقیقت ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں سیاسی جماعتوں اور آزادی کی تحریکوں میں الحاقِ پاکستان یا خود مختار ریاست کے حوالے سے ایک اندرونی اختلاف موجود ہے۔ لیکن اس بات کا فیصلہ کرنے کا حق بھی بالآخر کشمیری عوام کو ہی ہے۔ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ نظریاتی بنیادوں پر اتحاد کا فقدان بھی تحریک آزادی کشمیر کو کما حقہ اجاگر کرنے میں اک رکاوٹ رہا۔ لیکن اس وقت صورت حال یکسر مختلف اور حوصلہ افزاء ہے۔ پاکستان اور آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتیں اور آزادی کی تحریکیں ہر طرح کے سیاسی اور نظریاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، مکمل طور پر اس ملین مارچ کی حمائت کر رہی ہیں۔ یہ وقت کی ضرورت تھی جو بحمد اللہ پوری ہوئی۔

2۔ ماضی قریب میں کئی ایسے واقعات رونما ہوئے جو تقاضا کرتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام عالم کے سامنے اجاگر کیا جائے۔ حال ہی میں سکاٹ لینڈ میں ریفرنڈم ہوا جس میں عوام کو یہ حق دیا گیا کہ کہ وہ برطانیہ کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں یا خود مختار ریاست۔ حالانکہ وہاں نہ تو کوئی انسانی حقوق کا مسئلہ ہے اور نہ ہی ریاستی دہشت گردی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہی حق اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیری عوام کو کیوں نہیں دیا جاتا۔ حقوق انسانی کا واویلا کرنے والی غیر سرکاری اور سرکاری تنظیموں پر کیوں مجرمانہ خاموشی طاری ہے۔

3۔ پچھلے دنوں برطانوی دارالعوام نے فلسطین کی آزاد ریاست کی قرارداد بھاری اکثریت سے منظور کی جو کہ ایک خوش آئند عمل ہے۔ لیکن ہمیں یہ پوچھنے کا حق ہے کہ ایسی قرارداد کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے لئے کیوں منظور نہیں کی جا سکتی؟

4۔ کچھ ہی سال پہلے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں اقوام عالم کے انڈونیشیا پر دباؤ کے نتیجے میں ایسٹر تیمور کی عوام کو حق خود ارادیت دلانے کے لیے ریفرنڈم کرایا گیا۔ اسی سے ملتی جلتی صورت کشمیر میں بھی ہے۔ یہی حق اہالیان کشمیر کو کیوں نہیں مل سکتا۔ انڈو نیشیا کی طرح اقوام عالم ہندوستان پر کیوں دباؤ نہیں ڈالتے کہ وہ کشمیریوں کو ان کا پیدائشی حق دے۔ کیا یہ کھلے عام دہرا معیار نہیں؟
لہذا یہ بروقت فیصلہ ہے کہ ملین مارچ کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو اقوام عالم اور عالمی میڈیا کے سامنے نمایاں انداز میں پیش کیا جائے۔

بھارت نے عالمی سطح پر مسلمہ حق خود ارادیت سے فقط طاقت کی بنیاد پر کشمیری باشندوں کو محروم رکھا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنی ہی منظور کی ہوئی قراردادوں پر عمل درآمد کرانے کے لئے بھرپور کردار ادا کرے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عراق، افغانستان اور دیگر عالمی امور پر اقوام متحدہ سے منظور کی گی قراردادوں پر تو راتوں رات عمل ہوجاتا ہے لیکن کشمیریوں کے حق ارادیت پر خاموش کیوں ہے۔ کشمیری عوام نے اپنے کردار و عمل سے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ اپنی جانوں کے نذرانے تو پیش کر سکتے ہیں، ہر طرح کی دہشت گردی کے سامنے ڈٹ تو سکتے ہیں لیکن اپنے حق خود ارادیت کے حصول پر کوئی سمجھوتا نہیں کرسکتے۔

کشمیر دنیا کا خوبصورت ترین اور خطرناک ترین خطہ ہے۔ اسے خوبصورتی تو مصور کائنات نے عطا کی لیکن ریڈ کلف ایوارڈ کی جانبداری، بھارت کی ہٹ دھرمی و غاصبانہ قبضے اور اقوام متحدہ کی بے حسی نے اسے خطرناک ترین بنا دیا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس خطہ میں امن اورپاک بھارت تعلقات کی بہتری مسئلہ کشمیر کے حل سے ہی ممکن ہے۔ بصورت دیگر کشمیریوں کے خون سے غداری ہو گی۔ جس اتحاد اور یکجہتی کے ساتھ سیاسی ومذہبی جماعتیں اور آزادی کی تحریکیں اس ملین مارچ میں شمولیت کے لئے پر عزم ہیں، اس سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ یہ ملین مارچ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دلانے کیلئے ایک سنگ میل ثابت ہو گا۔
Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 240888 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More